پرنس ہیری اور میگھن مارکل کی فلاحی تنظیم ’’آرچ ویل فاؤنڈیشن‘‘نے فلسطین حامی بیانات سامنے آنے کے بعد امریکی مسلم تنظیم’’ملواکی مسلم ویمنز کولیشن‘‘(MMWC) ‘‘ سے تعلق ختم کر دیا۔
EPAPER
Updated: April 17, 2025, 3:15 PM IST | London
پرنس ہیری اور میگھن مارکل کی فلاحی تنظیم ’’آرچ ویل فاؤنڈیشن‘‘نے فلسطین حامی بیانات سامنے آنے کے بعد امریکی مسلم تنظیم’’ملواکی مسلم ویمنز کولیشن‘‘(MMWC) ‘‘ سے تعلق ختم کر دیا۔
پرنس ہیری اور میگھن مارکل کی قائم کردہ فلاحی تنظیم ’’آرچ ویل فاؤنڈیشن‘‘ نے ایک امریکی مسلم تنظیم سے تعلق منقطع کر لیا ہے، جب اس تنظیم کی بانی کے فلسطین کی حمایت میں دیئے گئے بیانات منظر عام پر آئے۔ اس فاؤنڈیشن نے ۲۰۲۳ءسے’’ملواکی مسلم ویمنز کولیشن‘‘(MMWC) کو دو گرانٹس دی تھیں جن کی مجموعی مالیت تقریباً۴۲؍ ہزار پاؤنڈ (تقریباً۵۵؍ ہزار ۷۰۰؍ امریکی ڈالر) تھی۔ امریکی نشریاتی ادارے نیوز نیشن نے حال ہی میں آرچ ویل فاؤنڈیشن کو مطلع کیا کہ ’’ایم ایم ڈبلیو سی‘‘ کی فلسطینی نژاد امریکی بانی، جنان نجیب نے فلسطین کی حمایت میں بیانات دیئے ہیں۔ فاؤنڈیشن نے پچھلے ہفتے آخر میں اعلان کیا کہ وہ اس تنظیم کو مزید عطیات نہیں دے گی۔
نیوز نیشن نے اطلاع دی کہ جنان نجیب نے اسرائیل کو’’نسلی امتیاز پر مبنی ریاست‘‘ (Apartheid State) قرار دیا تھا — جو بین الاقوامی عدالت انصاف (ICJ) اور ایمنسٹی انٹرنیشنل جیسے بڑے انسانی حقوق کے اداروں کی جانب سے بھی۲۰۲۴ء میں کہا گیا۔ نیوز نیشن نے مزید انکشاف کیا کہ نجیب نے اسرائیل پر اسلحے کی پابندی کا مطالبہ کیا اورفلسطین کی آزادی کی حمایت کی۔ انہوں نے معروف نعرہ’’From the river to the sea, Palestine will be free‘‘ بھی دہرایا، جسے کئی لوگ صیہونیت مخالف بیان سمجھتے ہیں۔
یہ بھی پڑھئے: ’’غزہ میں مظالم روکے جائیں، جنگ بندی ہی مسئلہ کا واحد حل ہے‘‘
فاؤنڈیشن کی اقدار کے خلاف
نجیب نے پچھلے سال ایک بلاگ پوسٹ میں لکھا:’’اسرائیل کا۷۵؍ سالہ قبضہ اور غزہ میں نسل کشی ایک سنگین ناانصافی ہے۔ آرچ ویل فاؤنڈیشن نے نجیب کو ایک خط میں لکھا:’’جنان، ہمیں حال ہی میں آپ کی ایک بلاگ پوسٹ کے بارے میں اطلاع ملی ہے جو فاؤنڈیشن کی اقدار کے خلاف ہے۔ ایک فاؤنڈیشن کے طور پر ہم مختلف پس منظر اور نظریات کا خیرمقدم کرتے ہیں، مگر نفرت انگیز کلمات، اقدامات یا پروپیگنڈا کیلئےہماری برداشت صفر ہے۔ ‘‘خط میں یہ بھی کہا گیا کہ یہ عطیہ افغان خواتین کی ملواکی میں سماجی انضمام کیلئے دیا گیا تھا۔ نجیب نے۲۰۲۳ءمیں فاؤنڈیشن کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا تھا:’’ہم نے غزہ پر حملے کے ردعمل میں فوری اور مؤثر اقدامات کئے۔ ہماری کوششیں دیگر وسکونسن تنظیموں کے ساتھ مل کر فلسطینیوں کے انسانی حقوق کیلئے شعور اجاگر کرنے پر مرکوز تھیں۔ ‘‘
یہ بھی پڑھئے: جنگ کے بعد بھی اسرائیل کا غزہ میں موجود رہنے کا اعلان
پرنس ہیری، نسلی انصاف اور شاہی خاندان کے تنازعات
پرنس ہیری ماضی میں سوشل جسٹس کے عزم کا اظہار کر چکے ہیں اور کہا تھا:’’نسل پرستی کو ختم کرنےکیلئے اس وقت دنیا کے ہر فرد کی شرکت ضروری ہے۔ ‘‘انہوں نے اور میگھن مارکل نے شاہی خاندان پر نسل پرستی کے الزامات بھی عائد کئےتھے جنہیں شدید اختلافات کا سامنا ہوا۔ تازہ ترین تنازع ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب برطانوی پریس نے پرنس ہیری کو یوکرین جیسے جنگ زدہ علاقے کے دورے پر تنقید کا نشانہ بنایا جبکہ وہ برطانیہ میں ٹیکس دہندگان سےسیکوریٹی کا مطالبہ بھی کر رہے ہیں۔
برطانوی شاہی خاندان اور اسرائیل سے تعلقات
برطانوی شاہی خاندان کا اسرائیل کے ساتھ سرکاری تعلق محدود رہا ہے۔ ۲۰۱۸ءتک کسی بھی شاہی فرد نے اسرائیل کا سرکاری دورہ نہیں کیا۔ پرنس ولیم نے اسرائیل کے قیام کی۷۰؍ویں سالگرہ کے موقع پر پہلا سرکاری دورہ کیا تھا۔ قیاس آرائیاں کی جاتی ہیں کہ ملکہ ایلزبتھ ثانی کا اسرائیل کے بارے میں منفی رویہ تھا، خاص طور پر۱۹۴۰ء کی دہائی میں برطانوی حکومت کے خلاف صیہونی گروہوں کی بغاوت کے باعث۔ سابق اسرائیلی صدر ریؤوین ریولن کے مطابق، ملکہ نے مبینہ طور پر کہا تھا کہ ’’ہر اسرائیلی یا تو دہشت گرد ہے یا دہشت گرد کا بیٹا۔ ‘‘ ۱۹۸۴ءمیں اردن کے دورے کے دوران، انہیں مغربی کنارے میں غیر قانونی اسرائیلی بستیوں کا نقشہ دکھایا گیا تو انہوں نے کہا:’’یہ کتنا افسوسناک نقشہ ہے!‘‘
یہ بھی پڑھئے: ٹرمپ کا بیرون ملک سفارت خانے بند کرکے محکمہ خارجہ کا بجٹ کم کرنے کا منصوبہ
شاہ چارلس اور اسرائیل پر متنازع خیالات
شاہ چارلس (اس وقت کے شہزادہ) کی طرف سے۱۹۸۶ءمیں ایک دوست کو لکھا گیا خط۲۰۱۷ءمیں منظر عام پر آیا، جس میں انہوں نے قرآن کے مطالعے، اسلام کی بعض خوبیوں کی تعریف کی اور اسرائیل پر عرب نقطہ نظر کو سمجھنے کی بات کی۔ انہوں نے لکھا:’’مجھے اندازہ نہیں تھا کہ عرب اسرائیل کو ایک امریکی کالونی سمجھتے ہیں۔ ‘‘’’یہ بھی سمجھ آیا کہ عرب اور یہودی سب سامی نسل کے لوگ تھے۔ یورپ، خاص طور پر پولینڈ سے آنے والے یہودیوں کی آمد نے بہت مسائل پیداکئے۔ ‘‘سب سے متنازع بات یہ تھی:’’کیا کسی امریکی صدر میں اتنی ہمت ہے کہ وہ امریکی یہودی لابی کا سامنا کرے؟‘‘