بین الاقوامی کمیشن برائے جیورسٹس (آئی سی جے) کی ایک رپورٹ جس کا عنوان ’’ہندوستان میں عدالتی آزادی: ترازو کا جھکاؤ‘‘ہے، ہندوستانی عدلیہ کے بارے میں سنگین تشویش کا اظہار کرتی ہے۔
EPAPER
Updated: March 12, 2025, 10:09 PM IST | New Delhi
بین الاقوامی کمیشن برائے جیورسٹس (آئی سی جے) کی ایک رپورٹ جس کا عنوان ’’ہندوستان میں عدالتی آزادی: ترازو کا جھکاؤ‘‘ہے، ہندوستانی عدلیہ کے بارے میں سنگین تشویش کا اظہار کرتی ہے۔
بین الاقوامی کمیشن برائے جیورسٹس (آئی سی جے) کی ایک رپورٹ جس کا عنوان ’’ہندوستان میں عدالتی آزادی: ترازو کا جھکاؤ‘‘ ہے، ہندوستانی عدلیہ کے بارے میں سنگین تشویش کا اظہار کرتی ہے۔ رپورٹ میں عدالتی تقرریوں، تبادلوں اور جوابدہی میں شفافیت اور پہلے سے طے شدہ معیارات کی کمی، چیف جسٹس کی ضرورت سے زیادہ صوابدید اور ایگزیکٹو کےویٹو پاور پرروشنی ڈالی گئی ہے۔ رپورٹ، جو ہندوستان میں سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ کی ادارہ جاتی آزادی کو بین الاقوامی قانون اور معیارات کے خلاف آئینی بنیاد، قانونی فریم ورک اور جیوریسپروڈنس کا جائزہ لیتی ہے، کہتی ہے کہ سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ میں جج کے انتخاب اور تقرری کیلئے مناسب ذرائع اور معیارات عدالتی آزادی کے مرکز میں ہیں۔‘‘
یہ بھی پڑھئے: ہلدوانی تشدد معاملے میں تمام۲۲؍ ملزمین کی ضمانت منظور
تاہم، ہندوستان میں، انتخاب اور تقرری کیلئے ایک واضح اور شفاف طریقہ کار کی کمی ہے، نیز قابلیت، میرٹ، صلاحیت، تجربہ اور دیانتداری پر مبنی معروضی، پہلے سے طے شدہ معیارات کی کمی ہے۔آئی سی جے نے مشاہدہ کیا کہ ان مناسب تحفظات کی عدم موجودگی ’’نامناسب ذرائع اور مقاصد‘‘ پر مبنی تقرریوں کو ممکن بناتی ہے۔رپورٹ میں گزشتہ دہائی (۲۰۱۴ء سے ۲۰۲۴ء) کا جائزہ لیا گیا ہے، جسے ’’ایسا دور قرار دیا گیا ہے جس میں عدالتی آزادی کے حوالے سےزوال پذیری کا مشاہدہ کیا گیا۔‘‘رپورٹ کے مطابق، اگرچہ ہندوستانی عدلیہ آئینی طور پر ایگزیکٹو اور مقننہ کے اثر سے محفوظ ہے، لیکن بیرونی، بشمول ایگزیکٹو، اثر کیلئے اہم گنجائش باقی ہے۔‘‘
یہ بھی پڑھئے: ’’ ہر مسجد کے نیچے مندر تلاش کی گئی تو خانہ جنگی شروع ہوسکتی ہے‘‘
آئی سی جے نے مشاہدہ کیا کہ حکومت کے پاس کولیجیم کی سفارشات پر مؤثر ویٹو پاور ہے، جو اسے عدالتی تشکیل پر اثر انداز ہونے کی اجازت دیتاہے، کیونکہ ججوں کی تقرریوں میں تاخیر یا انکار کرنے کی صلاحیت اسے عدلیہ پر غیر ضروری طاقت فراہم کرتی ہے اور ’’عدالتی آزادی‘‘ کو کمزور کرتی ہے۔ رپورٹ میں اودیشہ ہائی کورٹ کے ریٹائرڈ چیف جسٹس جسٹس مرلی دھر؛ سپریم کورٹ کے ریٹائرڈ جج، مرحوم جیورسٹ فالی نریمن؛ اور سینئر ایڈووکیٹ سری رام پنچو کا بھی ذکر کیا گیا ہے، جنہوں نے کولیجیم کے فیصلے پر سوال اٹھاتے ہوئے ایک کھلا خط لکھا تھا کہ جسٹس مرلی دھر کو سپریم کورٹ میں ترقی کیوں نہیں دی گئی۔ خط میں اشارہ کیا گیا تھا کہ دیگر عوامل کے علاوہ، دہلی پولیس کی بی جے پی لیڈروں کے خلاف نفرت انگیز تقاریر کے خلاف کارروائی نہ کرنے پر سوال اٹھانے کی وجہ سے، جو۲۰۲۱ء میں دہلی میں مسلمانوں کے خلاف تشدد کا باعث بنی تھی، اس فیصلے پر اثر انداز ہوا ہوگا۔
رپورٹ میں ہائی کورٹ کے جج کے تبادلے پر بھی تشویش کا اظہار کیا گیا ہے، جس میں `عوامی مفاد اور `عدالتی انتظامیہ کو بہتر بنانے جیسے ’’مبہم معیارات‘‘ کا حوالہ دیا گیا ہے، بغیر کسی واضح وضاحت کے۔آئی سی جے نے ہندوستان میں کمزورعدالتی جوابدہی کے میکانزم پر بھی تنقید کی،انہیں الگ تھلگ اور غیر مؤثر‘‘قراردیا، جس کی وجہ سے حقیقی جوابدہی تقریباً ناممکن ہو جاتی ہے۔رپورٹ میں مشاہدہ کیا گیا کہ، ان ساختی عوامل کے علاوہ جو عدلیہ کی داخلی اورخارجی آزادی دونوں کو کمزور کرنے کا امکان رکھتے ہیں، ججوں کی سبکدوشی کے بعد کی ملازمت اور مقدمات کو مختص کرنے سے متعلق عام روایات نے بھی ہندوستان میں عدالتی آزادی کو سنگین خطرات میں ڈالا ہے، خاص طور پر گزشتہ دہائی میں۔جب جج سبکدوشی کے فوراً بعد حکومت کی طرف سے مقرر کردہ کردار قبول کرتے ہیں، تو اس سے ان کے ماضی کے فیصلوں میں ممکنہ تعصب پر سوالات اٹھتے ہیں۔
"غیر معمولی لسٹنگ اور مختص کرنے کے واقعات، جو شاید چیف جسٹس کی صوابدید پر ہوتے ہیں، نے چیف جسٹس کی طرف سے ظاہری طور پر من مانی طاقت کے استعمال کو جنم دیا ہے، کبھی کبھی ایسے طریقے سے جو حکومت کیلئے موزوں ہوتا ہے۔آئی سی جے نے مشاہدہ کیا کہ’’ ہندوستانی عدلیہ خود ہی مناسب خود حکمرانی کے میکانزم اور انتظامات فراہم کرنے میں ناکام رہی ہے جو منصفانہ اور آزادانہ عدالتی انتظامیہ کیلئے بہترین جوابدہی کو یقینی بناتے ہیں۔‘‘رپورٹ میں یہ بھی نوٹ کیا گیا ہے کہ ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ میں خواتین ججز کی نمائندگی محض ۱۳؍ فیصد ہے۔ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ میں ججوں کے مذہبی تناسب کے بارے میں کوئی سرکاری ڈیٹا دستیاب نہیں ہے۔ تاہم، ججوں کے ناموں پر مبنی غیر سرکاری تجزیہ سے پتہ چلتا ہے کہ عدلیہ میں ہمیشہ ہندو برادری کے ججوں کی غیر متناسب اکثریت رہی ہے۔۲۰۲۳ء کے ایک تجزیہ سے پتہ چلتا ہے کہ۳۳؍ ججوں میں سے۳۰؍ ہندو برادری سے تعلق رکھتے تھے اور ایک ایک مسلم، عیسائی اور پارسی برادری سے تعلق رکھتے تھے،۔
ہندوستان کی مضبوط عدالتی بنیادوں کو تسلیم کرتے ہوئے، آئی سی جے عدالتی آزادی کو تحفظ دینےکیلئے فوری اصلاحات کا مطالبہ کیاہے۔ رپورٹ میں ججوں کیلئے ایک شفاف اور معروضی انتخاب کا عمل، من مانی تبادلوں کے خلاف تحفظات، اور ایک مضبوط جوابدہی کا فریم ورک تجویز کیا ہے۔ساتھ ہی سفارش کی کہ حکومت، سپریم کورٹ کی منظوری سے، جج کے انتخاب، کیریئر کی ترقی، اور تبادلوں کیلئے ذمہ دار ایک عدالتی کونسل قائم کرنےکیلئے ایک قانون وضع کرے۔اس کے علاوہ سبکدوشی کے بعد ملازمت کیلئے واضح ضوابط کی سفارش کی ہے۔جس میں مفادات کے تصادم کو روکنے کیلئے ایک کالنگ آف پیریڈ شامل ہے۔یہ مقدمات کو مختص کرنے میں زیادہ شفافیت کا بھی مطالبہ کرتا ہے، یہ یقینی بناتے ہوئے کہ مقدمات کی لسٹنگ منصفانہ اور غیر جانبدارانہ طور پر طے کی جائے۔
واضح رہے کہ یہ رپورٹ، جو بین الاقوامی کمیشن برائے جیورسٹس (آئی سی جے) کی طرف سے شائع کی گئی ہے، جو قانون کی حکمرانی کے ذریعے انسانی حقوق کو فروغ دیتی ہے اور ان کا تحفظ کرتی ہے، مندرا شرما، سینئر بین الاقوامی قانونی مشیر، اور ریما عمر، سینئر قانونی مشیر برائے جنوبی ایشیا نے تیار کی ہے۔