• Sat, 19 October, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

موجودہ حکومت میں مسلمانوں کی نمائندگی اپنی نچلی ترین سطح پرہے: ایک تحقیقاتی کتاب

Updated: October 19, 2024, 11:59 AM IST | New Delhi

محمد عبدالمنان کی حالیہ تصنیف جس کا نام میں ’’ ہندوستان میں مسلمان- حقیقت اور جعلی بیانیہ- کارنامہ اور کامیابیاں‘‘ ہے ، اس کتاب میں ہندوستان میں مسلمانوں کی نمائندگی کرنے والے تمام اعداد و شمار پیش کئے گئے ہیں ، جو جعلی بیانئے کو بے نقاب کرتے ہیں، تحقیق کے مطابق موجودہ حکومت کے دور اقتدار میں مسلمانوں کی نمائندگی اپنی نچلی ترین سطح پر ہے۔

Photo: INN
تصویر: آئی این این

محمد عبدالمنان کی لکھی گئی کتاب ’’ ہندوستان میں مسلمان- حقیقت اور جعلی بیانیہ- کارنامہ اور کامیابیاں‘‘ میں مسلمانوں کی نمائندگی کے تعلق سے تمام اعداد وشمار یکجا کئے گئے ہیں۔ جس کے مطابق موجودہ حکومت کےدور میں مسلمانوں کی نمائندگی اپنی نچلی ترین سطح پر ہے۔ اس کتاب سے قبل مصنف نے ۱۲؍ کتابیں تحریر کی ہیں، جس میں ’’ اے نیشن ان ڈیسنٹ - انڈیا آفٹر دی ۱۹۹۰ء‘‘ بھی شامل ہے۔ اس کتاب کے اعداد و شمار کے مطابق ۱۹۷۷ء میں اپنے قیام کے بعد سے یہ پہلا موقع ہے جب وزیر اعظم کے دفتر کے ۵۲؍ افسران میں ایک بھی مسلم افسر نہیں ہے۔ ساتھ ہی موجودہ کابینہ میں بھی کوئی مسلم وزیر نہیں ہے۔ 

یہ بھی پڑھئے: بہرائچ تشدد : اقلیتی فرقہ کے ۲؍نوجوانوں کا انکائونٹر، اسپتال داخل

کتاب کے مطابق وزارت خارجہ کے ۱۱۵؍اور وزارت تعاون کے۴۹؍اہلکاروں میں ایک مسلمان ہے، جبکہ  ’’نئی دہلی میں ۵۴؍مرکزی وزارتوں اور ۹۳؍محکموں میں ان کے دائرہ اختیار میں سکریٹری کی سطح سے نیچے تک کے کل ۱۱۱۳۱؍اہلکار ہیں، جن میں سے ۱۷۸؍مسلمان ہیں۔۶؍ وزارتوں اور ۱۱؍محکموں میں کل ۵۰۶؍عہدیداروں میں کوئی مسلمان نہیں ہے جبکہ صرف دو مسلم اعلیٰ عہدے پر فائز سیکرٹری ہیں۔سیاسی نمائندگی کی بات کی جائے تو ۶۹۶۳۰؍منتخب ایم ایل ایز میں سے ۳۱۹۸؍ مسلمان ہیں، لوک سبھا کے ۹۴۳۰؍ممبران منتخب ہوئے،ان میں سے صرف ۵۲۷؍مسلمان تھے اور راجیہ سبھا کے ۲۱۷۶؍ممبران میں سے اب تک ۳۲۹؍مسلمان تھے۔کتاب میں انکشاف کیا گیا کہ ۵۲۹؍میں سے صرف ۵۷؍مسلمانوں کو گورنر مقرر کیا گیا، کل ۵۳۹؍وزرائے اعلیٰ میں سے صرف ۱۰؍مسلمان تھے اور شہروں کے کل ۱۹۱۹؍میئروں میں سے ۸۰؍مسلمان تھے۔یونیورسٹیوں میں وائس چانسلرز کے حوالے سے، سنٹرل یونیورسٹیوں میں ۱۰۱۷؍میں ۶۲؍وائس چانسلر مسلمان تھے جبکہ ریاستی یونیورسٹیوں کے ۸۶۳۳؍وائس چانسلرز میں ۲۱۹؍مسلمان تھے۔کل ۱۳۹۵۱؍ ڈسٹرکٹ سیشن ججوں میں سے ۷۲۱؍مسلمان تھے۔

یہ بھی پڑھئے: غزہ: بھکمری کا خطرہ مسلسل بڑھ رہا ہے، آئی پی سی کی رپورٹ میں انکشاف

مصنف کے مطابق ۲۰۰؍ ملین کی قابل لحاظ آبادی والی مسلم قوم کو ۱۹۹۰ء کی دہائی کے بعد ہر سیاسی و سماجی سطح پر امتیازی سلوک کا سامنا ہے۔جبکہ جولائی ۲۰۲۲؍کے بعد سے مرکزی حکومت میں کوئی مسلم نمائندگی موجود نہیں ہے، جو تاریخ میں پہلی مرتبہ ہے۔ امریکہ میں قائم کونسل آن فارن ریلیشنز (سی ایف آر) کے مطابق ’’مسلمانوں کو روزگار اور تعلیم ،دولت اور سیاسی طاقت کے حصول میں رکاوٹوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔‘‘

یہ بھی پڑھئے: فرانس: پیغمبر اسلام کے کارٹون کی تشہیر کرنے والے ٹیچر سے اسکول موسوم

کتاب کے مطابق، ہندوستان بھر میں قانون ساز اسمبلی کی ۴۱۲۳؍نشستوں میں سے، مسلم ووٹروں کی اکثریت والی نشستوں کی تعداد ۴۵۰؍ہے۔ ۱۲؍ریاستوں اور دو مرکز کے زیر انتظام علاقوں میں ۶۵؍نشستیں ہیں جہاں ۲۵؍فیصد سے زیادہ مسلم آبادی ہے۔ ۶۵؍سیٹوں پر ۲۵؍فیصد سے زیادہ مسلمان ووٹر ہیں۔ مسلم ووٹ تلنگانہ اور آندھرا پردیش کے ۱۰۰؍سے زیادہ اسمبلی حلقوں کے نتائج کا فیصلہ کرتے ہیں۔ ہندوستان کی سب سے زیادہ آبادی والی ریاست اتر پردیش میں ۲۹؍ مسلم اکثریتی اضلاع ہیں جن کی ۱۳۷؍اسمبلی نشستیں ہیں۔ مدھیہ پردیش میں کم از کم ۲۲؍سیٹوں پر مسلم ووٹ کا عنصر اہم ہے۔ گجرات میں ۱۷؍اسمبلی سیٹوں پر قابل ذکر مسلم ووٹر ہیں۔ بہار میں لوک سبھا کی ۴۰؍ سیٹیں ہیں جن میں سے ۳۴؍سیٹوں پرمسلم ووٹ اہمیت کے حامل ہیں۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK