ایک نوجوان اسرائیلی فوجی کی والدہ نمرودی نے اسرائیلی حکومت پر یرغمالیوں کی واپسی کو ترجیح نہ دینے کا الزام لگایا۔ ان کا نوجوان بیٹا ان ۲۴ قیدیوں میں شامل ہے جن کے زندہ ہونے کا امکان روشن ہے۔
EPAPER
Updated: April 09, 2025, 10:22 PM IST | Inquilab News Network | Tel Aviv
ایک نوجوان اسرائیلی فوجی کی والدہ نمرودی نے اسرائیلی حکومت پر یرغمالیوں کی واپسی کو ترجیح نہ دینے کا الزام لگایا۔ ان کا نوجوان بیٹا ان ۲۴ قیدیوں میں شامل ہے جن کے زندہ ہونے کا امکان روشن ہے۔
ایک اسرائیلی فوجی کی والدہ ہیروت نمرودی اپنے بیٹے کی واپسی کی خواہش مند ہے جو غزہ میں حماس کی قید میں ہے لیکن اسرائیل کے غزہ پر نئے سرے سے بمباری اور فوجی آپریشن نے ان کے بیٹے کی جان کو مزید خطرے میں ڈال دیا ہے۔ ہیروت نے اے ایف پی کے ساتھ ایک انٹرویو میں زور دیا کہ ہمارے بچے خطرے میں ہیں۔" نمرودی کے ۱۸ سالہ بیٹے تمیر کو ۷ اکتوبر ۲۰۲۳ء کو حماس کے اسرائیل پر حملے کے دوران یرغمال بنالیا گیا تھا اور غزہ لے جایا گیا تھا۔ ہیروت نے کہا، "مجھے زیادہ معلومات نہیں ہیں، لیکن ایک بات واضح ہے کہ غزہ پر فوجی دباؤ، یرغمالیوں کی زندگیوں کو خطرے میں ڈال رہا ہے۔"
یاد رہے کہ حماس کے حملے کے دوران یرغمال بنائے گئے ۲۵۱ یرغمالیوں میں سے ۵۸ اب بھی غزہ میں قید ہیں۔ ۱۹ جنوری سے ۱۷ مارچ تک جنگ بندی کے دوران ۳۳ اسرائیلی قیدیوں کو رہا کیا گیا تھا جن میں ۸ لاشیں شامل تھیں۔ اس کے بدلے میں اسرائیل نے تقریباً ایک ہزار ۸۰۰ فلسطینی قیدیوں کو رہا کیا۔ تاہم، ۱۸ مارچ کو، جنگ بندی کو جاری رکھنے پر حماس سے اختلافات کے بعد، اسرائیل نے غزہ پر دوبارہ بمباری شروع کر دی۔
یہ بھی پڑھئے: اسرائیل نے غزہ یونیورسٹی تباہ کرکےمستقبل کے کئی سقراط اور ابن سینا کو ختم کردیا
۷ اکتوبر کے بعد سے اب تک، غزہ میں اسرائیل کی فوجی کارروائیوں کے نتیجے میں ۵۰ ہزار سے زائد فلسطینی جاں بحق ہو چکے ہیں جن میں زیادہ تر خواتین اور بچے شامل ہیں۔ رپورٹس کے مطابق، کئی افراد اب بھی ملبے میں دبے ہوئے ہیں۔ اسرائیل پر بین الاقوامی عدالت انصاف میں نسل کشی کا مقدمہ چل رہا ہے جبکہ بین الاقوامی فوجداری عدالت نے وزیر اعظم بنجامن نیتن یاہو اور سابق وزیر دفاع یوو گیلنٹ کے خلاف جنگی جرائم اور انسانیت کے خلاف جرائم کے الزامات میں گرفتاری کے وارنٹ جاری کئے ہیں۔
"مذاکرات اور دباؤ ہی واحد حل ہے"
۷ اکتوبر کو تمیر نے اپنی ماں کو حماس کے حملے کے بارے میں ایک پیغام بھیجا جس کے تقریباً ۲۰ منٹ بعد اسے حماس کے ذریعے دیگر دو فوجیوں کے ساتھ قید کر لیا گیا۔ بعد میں یہ دو فوجی غزہ میں نامعلوم حالات میں ہلاک ہوگئے۔ اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو اور ان کی حکومت کا اصرار ہے کہ شدید حملے ہی حماس کو قیدیوں کو زندہ یا مردہ رہا کرنے پر مجبور کر سکتے ہیں۔
لیکن ہیروت کا موقف اس کے برعکس ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ گزشتہ ڈیڑھ سال سے اس حکمت عملی نے کوئی اثر نہیں دکھایا ہے۔ صرف مذاکرات اور (امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ کا) دباؤ ہی ان حالات میں مددگار ثابت ہوسکتا ہے۔ انہوں نے حکومتِ اسرائیل پر یرغمالیوں کی واپسی کو ترجیح نہ دینے کا الزام لگایا۔ حماس کی قید میں تمیر اب ۲۰ سال کا ہو چکا ہے اور وہ ان ۲۴ قیدیوں میں سے ایک ہے جن کے زندہ ہونے کا امکان روشن ہے۔ موسم بہار کے یہودی تہوار، پاس اوور کی آمد کو چند دن ہی بچے ہیں اور ہیروت نمرودی اب بھی اپنے بیٹے کی واپسی کا انتظار کر رہی ہے۔
یہ بھی پڑھئے: ہندوستانی نژاد انجینئر کا اسرائیل کی مبینہ حمایت کے خلاف مائیکروسافٹ سے استعفیٰ
"مسلسل خوف"
دیگر یرغمالیوں کے اہل خانہ، جیسے ۴۸ سالہ اومری میرن کے والد ڈینی میرن بھی اسرائیلی حملوں سے یرغمالیوں کو لاحق خطرات کے متعلق فکر مند ہیں۔ تل ابیب میں ہونے والے احتجاجی ریلیوں میں باقاعدگی سے شرکت کرنے والے ڈینی نے بتایا کہ انہیں یہ خوف مسلسل ستاتا ہے کہ یرغمال اسرائیلی، حملوں کی زد میں آ جائیں گے۔ انہوں نے مزید بتایا کہ رہا ہونے والے قیدیوں نے صاف کہا تھا کہ جب اسرائیلی فوج غزہ پر حملہ کرتی ہے تو قیدیوں کو بھی نقصان پہنچتا ہے۔ ڈینی، جو جلد ۸۰ سال کے ہو جائیں گے، نے کہا کہ معاشرے کی حمایت نے انہیں مضبوط بنایا ہے۔ ان کے بیٹے اومری کی دو بیٹیاں ہیں۔ ہم نے ابھی اومری کی چھوٹی بیٹی الما کا دوسرا یوم پیدائش منایا ہے۔ اس کا دوسرا یوم پیدائش اپنے والد کے بغیر۔۔۔ یہ بہت مشکل ہے۔ تل ابیب میں ہفتہ کی رات ہونے والے ریلی میں انہوں نے اپنی خواہش کا اظہار کیا کہ وہ اومری کو گلے لگانا چاہتے ہیں اور اسے یہ بتانا چاہتے ہیں کہ پورا ملک تمام قیدیوں کی واپسی کیلئے جدوجہد کر رہا ہے۔