ایک تنظیم کے مطابق، ہر سال تقریباً ۲۰ فیصد نوجوان، جو فوج میں شامل ہونے کے اہل ہوتے ہیں، کسی نہ کسی وجہ سے فوج میں شمولیت سے انکار کر دیتے ہیں اور اس تعداد میں "گرے ریفیوزنک" بھی شامل ہیں۔
EPAPER
Updated: March 24, 2025, 10:00 PM IST | Inquilab News Network | Tel Aviv
ایک تنظیم کے مطابق، ہر سال تقریباً ۲۰ فیصد نوجوان، جو فوج میں شامل ہونے کے اہل ہوتے ہیں، کسی نہ کسی وجہ سے فوج میں شمولیت سے انکار کر دیتے ہیں اور اس تعداد میں "گرے ریفیوزنک" بھی شامل ہیں۔
اسرائیل میں ایسے نوجوانوں کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے جو نے اسرائیلی فوج میں شامل ہونے اور لازمی فوجی خدمات انجام دینے سے انکار کررہے ہیں۔ نوجوان غزہ، مغربی کنارہ اور مقبوضہ فلسطینی علاقوں میں فلسطینیوں پر اسرائیلی فوج کے ذریعہ ظلم و تشدد کے تناظر میں یہ فیصلہ کررہے ہیں۔ انہیں "ریفیوزنک" کہا جا رہا ہے یعنی وہ شخص جو ضمیر کی بنیاد پر فوج میں شمولیت سے انکار کردے۔ ایسا ہی ایک ۱۸ سالہ نوجوان اتمار گرین برگ، گزشتہ ایک سال کے عرصہ میں کئی بار جیل جا چکا ہے، مجموعی طور پر اس نے ۵ بار قید کی سزا بھگتی، جو کل ۱۹۷ دنوں پر محیط تھی۔ رواں ماہ کے آغاز میں اسے نیوے تزیدک جیل سے آخری بار رہا کیا گیا۔ گرین برگ کا جرم یہی ہے کہ اس نے لازمی فوجی سروس کیلئے طلب کئے جانے کے بعد اسرائیلی فوج میں بھرتی ہونے سے انکار کردیا۔ واضح رہے کہ اسرائیل میں ۱۸ سال سے زائد عمر کے زیادہ تر یہودی اسرائیلیوں اور کچھ اقلیتی برادریوں کیلئے فوجی خدمات انجام دینا لازمی ہے۔
گرین برگ کا کہنا ہے کہ اس نے فوج میں شامل نہ ہونے کا فیصلہ ایک "طویل سیکھنے اور اخلاقی شعور" کے بعد کیا۔ اس نے بتایا کہ "جتنا میں نے جانا، اتنا ہی مجھے احساس ہوا کہ میں وہ وردی نہیں پہن سکتا جو قتل اور جبر کی علامت ہے۔" اس کے مطابق، ۷ اکتوبر ۲۰۲۳ء کو حماس کے جنگجوؤں کے حملے کے بعد اسرائیل کی غزہ میں جنگی آپریشن نے اس کے فیصلے کو مزید مضبوطی دی ہے۔ اس نے کہا کہ "یہ نسل کشی ہے، ہمیں اس سے انکار کرنے کیلئے مزید وجوہات کی ضرورت نہیں۔" اسرائیلی حکومت نے ان الزامات کو سختی سے مسترد کیا ہے کہ غزہ کی جنگ فلسطینی عوام کے خلاف نسل کشی کے مترادف ہے۔ گزشتہ ہفتہ اسرائیل کے مختصر جنگ بندی کے بعد غزہ پر فضائی حملے اور زمینی کارروائیاں دوبارہ شروع کرنے کے بعد یہ جنگ دوبارہ شدت اختیار کر گئی ہے۔ فلسطینی وزارت صحت کے مطابق، ۱۷ ماہ سے جاری اس جنگ میں اب تک ۵۰ ہزار سے زائد فلسطینی جاں بحق ہوچکے ہیں۔ کچھ اداروں کے مطابق، مہلوکین کی اصل تعداد کئی زیادہ ہوسکتی ہے۔ گزشتہ منگل سے اب تک اسرائیلی بمباری میں ۶۷۰ سے زائد افراد ہلاک اور ایک ہزار ۲۰۰ سے زائد زخمی ہو چکے ہیں۔ گرین برگ کا کہنا ہے کہ وہ تبدیلی لانا چاہتا ہے اور جیل میں وقت گزارنا فوج میں شامل ہونے سے بہتر سمجھتا ہے۔ اس تبدیلی کیلئے وہ اپنی جان دینے کیلئے بھی تیار ہے۔
یہ بھی پڑھئے: غزہ جنگ: مہلوکین کی تعداد ۵۰؍ ہزار سے تجاوز کرگئی
فوجی خدمات سے انکار، سماجی تنہائی کا سبب
گرین برگ جیسے باضمیر نوجوانوں کیلئے یہ فیصلہ کرنا آسان نہیں ہوتا کیونکہ فوج میں بھرتی ہونے سے انکار، سماجی بائیکاٹ کا باعث بن سکتا ہے۔ اسرائیل میں فوج صرف ایک ادارہ نہیں بلکہ معاشرتی نظام کا ایک اہم جزو ہے۔ فوجی خدمت اور سیکولر یہودی اسرائیلی شناخت، ایک دوسرے سے جڑی ہوئی ہیں۔ بچپن سے ہی اسکولوں میں بچوں کو سکھایا جاتا ہے کہ وہ ایک دن فوج میں شامل ہو کر اپنے جیسے بچوں کی حفاظت کریں گے۔ ۱۶ سال کی عمر میں انہیں پہلی بھرتی کا نوٹس ملتا ہے اور ۱۸ سال کی عمر میں انہیں لازمی طور پر فوج میں شامل ہونا پڑتا ہے۔ بہت سے اسرائیلی اسے ایک اعزاز، فرض اور بلوغت کی علامت سمجھتے ہیں۔
گرین برگ کو اپنے فیصلے کی وجہ سے سخت تنقید کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ اسے لوگوں یہاں تک کہ اپنے خاندان اور دوستوں کی جانب سے بھی "خود سے نفرت کرنے والا یہودی"، "یہود دشمن"، "دہشت گردوں کا حمایتی" اور "غدار" جیسے القابات سے نوازا گیا۔ گرین برگ نے بتایا کہ "لوگ مجھے انسٹاگرام پر پیغامات بھیج کر کہتے ہیں کہ وہ مجھے ذبح کر دیں گے، جیسے حماس نے ۷ اکتوبر کو اسرائیلیوں کے ساتھ کیا۔" جیل میں، ساتھی قیدیوں کی دھمکیوں کے بعد اسے قید تنہائی میں رکھا گیا ہے۔ حکام کے مطابق، اس کی "حفاظت" کیلئے ایسا قدم اٹھایا گیا۔
یہ بھی پڑھئے: اسرائیلی حملے میں غزہ میں سینئرحماس لیڈر سمیت ۴۰؍ اور لبنان میں۷؍ افراد شہید
فوج میں بھرتی ہونے سے انکار کرنے والوں کی تعداد میں اضافہ
گرین برگ اور اس جیسے دیگر باضمیر قیدیوں کی تعداد اب بھی کم ہے، لیکن ان کی تحریک میں اضافہ دیکھا جا رہا ہے۔ فوجی خدمات انجام دینے سے انکار کرنے والوں کی مدد کیلئے سرگرم مسرووت (Mesarvot) نامی تنظیم کے مطابق، جنگ کے آغاز سے اب تک تقریباً درجن بھر اسرائیلی نوجوانوں نے کھلے عام بھرتی سے انکار کیا ہے جو جنگ سے پہلے کے مقابلے زیادہ ہے۔ تنظیم کا کہنا ہے کہ فوجی سروس سے بچنے والے کئی "گرے ریفیوزنک" بھی ہیں یعنی وہ افراد جو ذہنی یا جسمانی صحت کے مسائل کا بہانہ بنا کر بھرتی سے بچ جاتے ہیں۔ ان کی درست تعداد معلوم کرنا مشکل ہے۔
یسھ گول (Yesh Gvul) نامی ایک اور تنظیم کے مطابق، ہر سال تقریباً ۲۰ فیصد نوجوان، جو فوج میں شامل ہونے کے اہل ہوتے ہیں، کسی نہ کسی وجہ سے فوج میں شمولیت سے انکار کر دیتے ہیں اور اس تعداد میں "گرے ریفیوزنک" بھی شامل ہیں۔ اسرائیلی فوج سرکاری طور پر بھرتی سے انکار کے اعداد و شمار جاری نہیں کرتی۔
یہ بھی پڑھئے: قیدیوں کی رہائی کیلئےاسرائیل غزہ پر بمباری جاری رکھے گا : اوفیر فلک
ریفیوزنک اب بھی اسرائیلی سماج میں ایک چھوٹی اقلیت ہیں۔ حالیہ احتجاجی مظاہرے زیادہ تر فوج کے خلاف نہیں، بلکہ جنگ بندی اور یرغمالیوں کی رہائی کے حق میں ہو رہے ہیں۔ اطلاعات کے مطابق، سنیچر کو تقریباً ایک درجن ریفیوزنک بائیں بازو کی جماعت حدش (Hadash) کے دفتر میں جمع ہوئے تاکہ تل ابیب میں اپنے ہفتہ وار مظاہرے کی تیاری کر سکیں۔ گرین برگ اور اس کے ساتھیوں کو امید ہے کہ ان کی تحریک اسرائیلی معاشرے میں فوجی نظام کے بارے میں گفتگو کا موقع فراہم کر سکتی ہے۔