• Wed, 22 January, 2025
  • EPAPER

Inquilab Logo

سی بی آئی، مسلم مخالف تبصرے کیلئے جسٹس یادو کے خلاف ایف آئی آر درج کرے: وکلاء کا چیف جسٹس سے مطالبہ

Updated: January 18, 2025, 7:18 PM IST | Inquilab News Network | New Delhi

سینئر وکلاء کا کہنا ہے کہ جسٹس شیکھر یادو کی تقریر نے مسلمانوں کے مذہبی جذبات کو ٹھیس پہنچانے کے علاوہ مذہبی بنیادوں پر مختلف گروہوں کے درمیان دشمنی کو بھی فروغ دیا ہے۔

Photo: X
تصویر: ایکس

سینئر وکلاء کے ایک گروپ نے سپریم کورٹ سے مطالبہ کیا کہ وہ مرکزی تفتیشی ایجنسی (سی بی آئی) کو الہ آباد ہائی کورٹ جج کے خلاف ایف آئی آر درج کرنے کی ہدایت جاری کرے۔ ۱۳ تجربہ کار وکلاء کے ایک گروپ نے جمعہ کو چیف جسٹس آف انڈیا سنجیو کھنہ کو ایک خط لکھ کر ان سے مطالبہ کیا کہ وہ سی بی آئی کو ہدایت دیں کہ وہ الہ آباد ہائی کورٹ کے جج شیکھر کمار یادو کے خلاف مسلم مخالف تبصرے کیلئے ایف آئی آر درج کرے۔ اس خط پر دستخط کرنے والوں میں اندرا جے سنگھ، اسپی چنائے، نوروز سیروائی، آنند گروور، چندر ادے سنگھ، جے دیپ گپتا، موہن وی کٹارکی، شعیب عالم، آر وائیگائی، مہر دیسائی، جینت بھوشن، گایتری سنگھ اور ایوی سنگھ جیسے سینئر وکلاء شامل ہیں۔ انہوں نے اپنے خط کی کاپیاں سپریم کورٹ کے دیگر سینئر ججوں جسٹس بی آر گاوائی، جسٹس سوریہ کانت، جسٹس رشی کیش رائے اور جسٹس اے ایس اوکا کو بھی روانہ کیں۔ 

یہ بھی پڑھئے: سکھ بھائیوں کی جانب سے مسجد کیلئے دی گئی زمین سے مسلمانوں میں خوشی کی لہر

سینئر وکلاء نے خط میں لکھا کہ بظاہر، جسٹس یادو یونیفارم سول کوڈ پر تبصرہ کر رہے تھے لیکن یہ تقریر کے نفرت انگیز بیانیہ کو چھپانے کی کوشش تھی۔ تقریر میں کوئی علمی، قانونی یا فقہی بات نہیں تھی۔ وکلاء نے مزید کہا کہ جسٹس یادو کی کھلم کھلا تفرقہ انگیز بیان بازی، عدالتی غیر جانبداری کے اصول کو نظر انداز کرتی ہے۔ جس میں جج نے کھلے عام خود کو ایک مذہبی برادری کے ساتھ جوڑا اور دوسری مذہبی برادری کو گہرے توہین آمیز انداز میں پیش کیا۔ وکلاء کا مزید کہنا ہے کہ اس تقریر نے مسلمانوں کے مذہبی جذبات کو ٹھیس پہنچانے کے علاوہ مذہبی بنیادوں پر مختلف گروہوں کے درمیان دشمنی کو فروغ دیا۔ ان کی تقریر کے مندرجات، جنہیں ریکارڈ کیا گیا اور وہ بڑے پیمانے پر وائرل ہوئے، کو نفرت انگیز تقریر کے طور پر شناخت کئے گئے ہیں۔ تقریر میں ایسے تبصرے ہیں جو غیر آئینی اور جج کے عہدے کے حلف کے خلاف ہیں۔

یہ بھی پڑھئے: عبادت گاہ قانون کے دفاع کیلئے کانگریس نے سپریم کورٹ میں پٹیشن داخل کی

واضح رہے کہ گزشتہ سال ۸ دسمبر کو وشو ہندو پریشد کے ایک پروگرام سے خطاب کرتے ہوئے یادو نے کہا تھا کہ ہندوستان کو اس کی ہندو اکثریت کی خواہشات کے مطابق چلایا جائے گا۔ انہوں نے مسلمانوں کے خلاف زہر افشانی کی اور انہیں "ملک کیلئے نقصان دہ" قرار دیا۔ یادو کے تبصرے کے بعد ان کے مواخذے کا مطالبہ کیا گیا تھا۔ سپریم کورٹ نے پہلے ہی یادو کے تبصروں کا نوٹس لیا ہے اور اس معاملے میں الہ آباد ہائی کورٹ سے رپورٹ طلب کی تھی۔ یادو، ۱۷ دسمبر کو سپریم کورٹ کالیجیم کے سامنے پیش ہوئے تھے۔ تاہم، یادو نے ابھی تک کوئی معافی یا وضاحت پیش نہیں کی ہے۔ چیف جسٹس نے الہ آباد ہائی کورٹ کو اس معاملہ میں ایک تازہ رپورٹ دائر کرنے کیلئے کہا۔ سپریم کورٹ کے علاوہ ۵۵ اپوزیشن ممبران پارلیمنٹ نے ان کے مواخذے کا مطالبہ کرتے ہوئے راجیہ سبھا میں نوٹس داخل کیا تھا۔ 

یہ بھی پڑھئے: الہٰ آباد ہائی کورٹ کے جسٹس شیکھر یادو مسلمانوں کے تعلق سے اپنے بیان پر قائم

اسکرول نے گزشتہ ساڑھے تین سالوں میں ان کے کئی احکامات کا جائزہ لیا جس میں پتہ چلا کہ یادو نے کئی مرتبہ ہندوتوا کی بات کرنے والے نکات کا حوالہ دیا ہے۔ اپنے فیصلوں میں یادو نے مشورہ دیا ہے کہ ریاست کو گائے کے ساتھ ہندو دیوتاؤں کی بھی عزت کرنی چاہئے۔ انہوں نے تبدیلی مذہب کے سازشی نظریات کا بھی حوالہ دیا ہے اور لوگوں پر درج فہرست ذاتوں اور درج فہرست قبائل کے مظالم کی روک تھام کے قانون کے تحت جھوٹی شکایتیں کرنے کا الزام لگایا ہے۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK