Updated: June 27, 2024, 10:19 PM IST
| New Delhi
مالدیپ کی سرکاری میڈیا کے مطابق مالدیپ پولیس نے ۲؍ وزراء کو صدر محمد معزو پر مبینہ طور پر کالا جادو کرنے کیلئے حراست میں لیا ہے اور انہیں ۷؍ دن کی عدالتی تحویل میں بھیجا گیا ہے۔ ان وزراء میں وزیر مملکت شمناز سلیم اور ان کے سابق شوہر آدم رمیز شامل ہیں۔ اس ضمن میں مالدیپ حکومت اورصدارتی دفتر نے اب تک کوئی بیان جاری نہیں کیا ہے۔
مالدیپ کے صدر محمد معزو۔ تصویر: آئی این این
مالدیپ کی سرکاری میڈیا کے مطابق مالدیپ پولیس نے مالدیپ کے ۲؍ وزراء کو حراست میں لیا ہےجو مالدیپ کےصدر محمد معزو پر مبینہ طور پر کالا جادوکر رہے تھے۔ ان ۲؍ وزراء میں شمناز سلیم، جو وزرات برائے ماحولیات میں وزیر مملکت تھیں اور ان کے سابق شوہر آدم رمیز شامل ہیں، جو صدارتی دفتر میں وزیر کے طور پر خدمات انجام دے رہے تھے، سمیت دیگر ۲؍ افراد کو پولیس نے حراست میں لیا ہے۔
یہ بھی پڑھئے: سوڈان: جنگ میں شدت کے سبب ۱۴؍ علاقوں میں قحط کے خدشات: آئی پی سی کا انتباہ
تاہم، پولیس نے ملزمین کی جانب سے صدر پر مبینہ کالا جادوکرنے کی وجوہات بیان کرنے سے انکار کیا ہے۔ مالدیپ کے نیوز پورٹل سن ایم وی نے رپورٹ کیا ہے کہ شمناز، اور دیگر ۲؍ وزراء کو پولیس نے اتوار کو حراست میں لیا تھا۔ ملزمین کو ۷؍ دن کی پولیس تحویل میں رکھا گیا ہے۔ مالدیپ کی وزارت برائے ماحولیات کے مطابق شمناز کو ان کے عہدے سے معطل کیا گیا ہے۔ تاہم، جمعرات کو شمناز کے سابق شوہر رمیز کو بھی ان کے عہدے سے ہٹا دیا گیا ہے۔
یہ بھی پڑھئے: برطانیہ: الیکشن سے قبل تنخواہ اور کام کی شرائط کے متعلق ہزاروں ڈاکٹر ہڑتال پر
اطلاعات کے مطابق شمناز اور ان کے شوہر رمیز معزو کے ساتھ میل سٹی کاؤنسل میں کام کرتے تھے جب معزو شہر کے میئر کےطور پر خدمات انجام دے رہے تھے۔میڈیا نے رپورٹ کیا کہ گزشتہ سال نومبر میں محمد معزو کے صدر کا عہدہ سنبھالنے کے بعد، شمناز کو پہلے صدر کی سرکاری رہائش گاہ ملیاج میں وزیر مملکت کے طور پر مقرر کیا گیا اور پھر انہیں وزارت ماحولیات میں منتقلکیا گیا تھا۔
یہ بھی پڑھئے: سنجنا ٹھاکر کی کہانی ’’ایشوریہ رائے‘‘ نے کامن ویلتھ انعام حاصل کیا
رمیز، محمد معزو کے میل شہر کے کاؤنسل کے طور پر خدمات انجام دینے کے دوران، ان کے قریبی معاونین میں شمار کئے جاتے تھے۔ اخبار نے اپنی رپورٹ میں مزید نشاندہی کی ہے کہ ’’تاہم، وہ گزشتہ ۵؍ تا ۶؍ ماہ سے منظرعام پر نہیں آئے ہیں۔‘‘ تاہم، نہ ہی مالدیپ حکومت اور نہ ہی مالدیپ کے صدارتی دفتر نے اس معاملے میں اب تک کوئی بیان جاری کیا ہے۔