سرکاری اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ ملک کی تقریباً تمام بڑی ریاستوں میں ہائی کورٹ کے ججوں کی اسامیاں خالی ہیں۔ ملک بھر میں ہائی کورٹ ججوں کے تقریباً ۳۵۰؍ عہدے خالی پڑے ہیں۔ ہائی کورٹ ججوں کی منظور شدہ کل تعداد، ایک ہزار ۱۱۴؍ کے تقریباً ایک تہائی عہدوں پر کوئی جج مقرر نہیں کیا گیا ہے۔ ۷۴؍ خالی عہدوں کے ساتھ الہ آباد ہائی کورٹ اس فہرست میں اول مقام پر ہے۔
حکومت نے جمعرات کو راجیہ سبھا کو مطلع کیا کہ ملک بھر میں ہائی کورٹ ججوں کے تقریباً ۳۵۰؍ عہدے خالی پڑے ہیں۔ ہائی کورٹ ججوں کی منظور شدہ کل تعداد، ایک ہزار ۱۱۴؍ کے تقریباً ایک تہائی عہدوں پر کوئی جج مقرر نہیں کیا گیا ہے۔ ۷۴؍ خالی عہدوں کے ساتھ الہ آباد ہائی کورٹ اس فہرست میں اول مقام پر ہے۔ وزارتِ قانون و انصاف کے وزیر مملکت (آزادانہ چارج) ارجن رام میگھوال نے کانگریس رکن پارلیمان اکھلیش پرساد سنگھ کے ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے بتایا کہ ہائی کورٹس میں ججوں کی آسامیاں، ریٹائرمنٹ یا استعفیٰ، ججوں کی ترقی اور ججوں کی منظور شدہ طاقت میں اضافہ کی وجہ سے پیدا ہوتی رہتی ہیں۔ میگھوال نے کہا کہ مئی ۲۰۱۴ء کے بعد، حکومت نے ہائی کورٹ کے ججوں کی منظور شدہ تعداد کو ۹۰۶؍سے بڑھا کر ایک ہزار ۱۲۲؍ کر دیا ہے۔ سپریم کورٹ میں۶۴؍ جج اور مختلف ہائی کورٹس میں ۹۹۹؍ججوں کی تقرری کی گئی ہے۔
یہ بھی پڑھئے: سنبھل میں بلڈوزر ایکشن: چندوسی میں ۱۲؍ دکانیں منہدم، سپریم کورٹ کا حکم بالائے طاق رکھ دیا گیا
راجیہ سبھا میں وزیر نے انکشاف کیا کہ الہ آباد ہائی کورٹ میں کل منظور شدہ ۱۶۰؍ ججوں کی تعداد کے مقابلے ۷۴؍ ججوں کی آسامیاں موجود ہے۔ اس کے بعد، پنجاب اور ہریانہ ہائی کورٹ میں کل ۸۵؍ میں سے ۳۱؍ عہدے خالی ہیں۔ اسی طرح، بمبئی ہائی کورٹ میں ۹۴؍ کی منظور شدہ تعداد کے مقابلے ۲۸؍ آسامیاں ہیں۔ میگھوال نے کہا کہ آسامیوں کو بھرنے میں تاخیر کی ایک وجہ عدالتوں کا نئے ناموں کی سفارش کے لئےمقررہ وقت سے تجاوز کرنا ہے۔ ہائی کورٹس کو اسامی کی موجودگی سے کم از کم چھ ماہ قبل سفارش کرنا چاہئے لیکن اس حد کو شاذ و نادر ہی ملحوظ رکھا جاتا ہے۔
یہ بھی پڑھئے: یوپی: مسلم ڈاکٹر کو مکان فروخت کرنے پر رہائشیوں نے احتجاج کیا
ججوں کی خالی آسامیوں کے سرکاری اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ قومی راجدھانی کی صورتحال بھی دیگر ریاستوں سے مختلف نہیں ہے۔ دہلی ہائی کورٹ میں ۶۰؍کی منظور شدہ تعداد کے مقابلے میں ۲۱؍آسامیاں خالی ہیں۔ کلکتہ ہائی کورٹ میں۷۲؍ میں سے ۲۷؍، پٹنہ ہائی کورٹ میں ۵۳؍ میں سے ۱۹؍، راجستھان ہائی کورٹ میں ۵۰؍ میں سے ۱۸؍، مدھیہ پردیش ہائی کورٹ میں ۵۳؍ میں سے ۱۶؍ اور تلنگانہ ہائی کورٹ میں ۴۲؍ ججوں میں ۱۴؍ عہدے خالی ہیں۔ سرکاری اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ تقریباً تمام بڑی ریاستوں میں ہائی کورٹ کے ججوں کی آسامیاں خالی ہیں، سوائے تریپورہ، سکم اور میگھالیہ جیسی تین چھوٹی ریاستوں کے جن میں ججوں کی منظور شدہ تعداد بالترتیب۵؍، ۳؍ اور ۴؍ ہے۔
یہ بھی پڑھئے: بابا صدیقی کے شوٹر نے کہا کہ سلمان خان اگلا نشانہ تھے: پولیس
ہائی کورٹس میں عدالتی خالی آسامیوں کو پر کرنے کے طریقہ کار پر روشنی ڈالتے ہوئے، وزیر مملکت نے کہا کہ ہائی کورٹس میں ججوں کی تقرری آئین ہند کی دفعہ ۲۱۷؍اور ۲۲۴؍کے تحت اور میمورنڈم آف پروسیجر میں درج طریقہ کار کے مطابق کی جاتی ہے۔ میمورنڈم آف پروسیجر کے مطابق، سپریم کورٹ میں ججوں کی تقرری کے لئے تجاویز پیش کرنے کی ذمہ داری چیف جسٹس آف انڈیا کی ہے، جب کہ ہائی کورٹس میں ججوں کی تقرری کے لئے تجاویز پیش کرنے کی ذمہ داری، چیف جسٹس اور متعلقہ ہائی کورٹ کے ۲؍ سینئر ترین ججوں کی مشاورتی کمیٹی کی ہے۔ وزیر مملکت نےدعویٰ کیا کہ اعلیٰ عدلیہ میں ججوں کی تقرری ایک مسلسل، مربوط اور باہمی تعاون پر مبنی عمل ہے۔ اس کے لئےریاستی اور مرکزی سطح پر مختلف آئینی حکام سے مشاورت اور منظوری درکار ہے۔ اس لئے اعلیٰ عدلیہ میں ججوں کی خالی آسامیوں کو پر کرنے کے لئےم درکار وقت کی نشاندہی نہیں کی جا سکتی۔