عالمی یوم خواتین کے موقع پر جب دنیا بھر میں خواتین کے حقوق کے نعرے بلند کیے جا رہےہیں، غزہ کی خواتین اسرائیلی جارحیت کے خلاف اپنی بقا کی جنگ لڑ رہی ہیں۔
EPAPER
Updated: March 09, 2025, 10:01 PM IST | Gaza
عالمی یوم خواتین کے موقع پر جب دنیا بھر میں خواتین کے حقوق کے نعرے بلند کیے جا رہےہیں، غزہ کی خواتین اسرائیلی جارحیت کے خلاف اپنی بقا کی جنگ لڑ رہی ہیں۔
عالمی یوم خواتین کے موقع پر جب دنیا بھر میں خواتین کے حقوق کے نعرے بلند کیے جا رہےہیں، غزہ کی خواتین اسرائیلی جارحیت کے خلاف اپنی بقا کی جنگ لڑ رہی ہیں۔فلسطینی خواتین کی یہ جدوجہد جاری ہے کہ وہ اپنے خاندانوں کوکس طرح بچائیں۔۱۸؍ جنوری تک غزہ کے۱۴۲۲۲؍ لاپتہ افراد میں سے۷۰؍ فیصد خواتین اور بچے ہیں۔ ۲۰؍ لاکھ سے زائد فلسطینیوں کو زبردستی بے گھر کیا گیا، جن میں سے نصف خواتین تھیں، اور وہ عارضی خیموں یا اپنے تباہ شدہ گھروں کے کھنڈرات میں پناہ لینے پر مجبور ہیں۔ بہت سے افراد کو گرفتار کرکے تشدد اور طبی امداد سے محروم رکھا گیا۔
یہ بھی پڑھئے: لندن: تاریخی کلاک ٹاور ’بِگ بین‘ پر فلسطینی پرچم لے کر چڑھنے والا گرفتار
۲۱؍ جنوری تک غزہ میں تقریباً ۶۰؍ ہزارحاملہ خواتین تھیں، جن میں سے بہت سی خواتین کو صحت کی خدمات نہ ملنے کے باعث خطرات لاحق ہیں۔اقوام متحدہ کے ماہرین نے غزہ میں اسقاط حمل کے واقعات میں۳۰۰؍ فیصد اضافے کی پیش گوئی کی۔۷؍ اکتوبر ۲۰۲۴؍ کو اقوام متحدہ کے آبادی فنڈ نے اندازہ لگایا کہ غزہ میں ۱؍ لاکھ ۵۵؍ ہزار حاملہ اور دودھ پلانے والی خواتین شدید بھوک کا شکار ہیں، جن میں سے۶۴؍ ہزار ۳۰۰؍ خواتین انتہائی خطرناک حالات میں ہیں۔ اس کے علاوہ ہزاروں مردوں کے ہلاک یا قید ہونے کے بعد، غزہ کی خواتین کو اپنے خاندانوں کی مکمل ذمہ داری اٹھانے پر مجبور ہونا پڑا۔جنوری۲۰۲۵ء تک۱۳؍ ہزار ۹۰۱؍ خواتین نے اپنے شوہروں کو کھو دیا۔ بہت سی خواتین کو اپنے بچوں کی تنہا دیکھ بھال کرنی پڑی کیونکہ ان کے شوہروں کو اسرائیلی فوج نے گرفتار کر لیا ہے۔
یہ بھی پڑھئے: ۱۲؍ سالہ بچی سمیت۲۱؍ فلسطینی خواتین اسرائیل کی قید میں ہیں: فلسطینی این جی او
غزہ کی معیشت تباہ ہونے اور انسانی امداد منقطع ہونے کے ساتھ، فلسطینی خواتین نے بقا کیلئے انتہائی اقدامات اپنائے۔ بھوک سے نمٹنے کیلئے، انہوں نے جانوروں کے چارے سے روٹی پکائی، جنگلی جڑی بوٹیاں پکائیں اور اپنے بچوں کی غذائیت کو ترجیح دیتے ہوئے اپنی خوراک میں نمایاں کمی کی۔ کچھ نے اپنے بچوں کو کام پر بھیجا، جس سے ان کی تعلیم خطرے میں پڑ گئی، جبکہ کچھ نے رمضان کے مقدس مہینے کے دوران روزے رکھنے کیلئے اپنے محدودوسائل کو محتاط انداز میں استعمال کیا۔
۲۱؍ جنوری تک ہزاروں فلسطینی ماؤں نے ۱۷؍ ہزار ۸۶۱؍بچوں کو کھو دیا، جس نے انہیں گہرے نفسیاتی دباؤ سے دوچارکردیا۔اقوام متحدہ کے اندازوں کے مطابق،جنگ کے دوران روزانہ اوسطاً ۱۵؍بچوں کو زندگی بھرکیلئے معذوری کا سامنا کرنا پڑا، جس سے کل۷؍ ہزار ۶۵؍ بچے مستقل معذوری کا شکار ہوئے، جن میں اعضاء کا کٹ جانا، اندھا پن اور بہرہ پن شامل ہیں۔ صحت کے نظام کے تباہ ہونے کے سبب ان کی مائیں ان کی دیکھ بھال کی مکمل ذمہ داری اٹھا رہی ہیں۔
یہ بھی پڑھئے: اسکاٹ لینڈ: ٹرمپ کے گولف کورس پرکارکنوں نے’’ غزہ برائے فروخت نہیں ہے‘‘ تحریر کیا
قوام متحدہ کے اہلکار گیمونڈ نے بتایا کہ جولائی۲۰۲۴ء تک۱۰؍ لاکھ خواتین اور لڑکیاں اپنے گھروں سے محروم ہو چکی تھیں۔بہت سی اب بھی عارضی خیموں میں رہ رہی ہیں، جبکہ کچھ غیر محفوظ، جزوی طور پر منہدم عمارتوں میں رہنے پر مجبور ہیں، جس سے انہیں مسلسل خطرات لاحق ہیں۔اتوار کو اسرائیل نے اعلان کیا کہ وہ غزہ کو انسانی امداد روک دے گا، جس سے بحران مزید گہرا ہو جائے گا۔