فلسطینی سیاسی رہنما اور حقوق نسواں کی وکیل خالدہ جرار دسمبر ۲۰۲۳ء سے `دہشت گردی کی حمایت` کے الزام میں رملہ میں واقع خواتین کی جیل نیفی تیرتزا میں قید تھیں۔
EPAPER
Updated: January 20, 2025, 8:59 PM IST | Inquilab News Network | Jerusalem
فلسطینی سیاسی رہنما اور حقوق نسواں کی وکیل خالدہ جرار دسمبر ۲۰۲۳ء سے `دہشت گردی کی حمایت` کے الزام میں رملہ میں واقع خواتین کی جیل نیفی تیرتزا میں قید تھیں۔
ممتاز فلسطینی کارکن اور پاپولر فرنٹ فار لبریشن آف فلسطین کی رکن خالدہ جرار کو بدنام زمانہ اسرائیلی جیل نیفی تیرتزا جیل سے رہا کردیا گیا۔ جرار، غزہ پٹی میں اسرائیل اور فلسطینی مزاحمتی گروپ حماس کے درمیان جنگ بندی کے دوران اتوار کو قیدیوں کے تبادلہ کے پہلے مرحلے کے ایک حصے کے طور پر رہا کئے گئے ۹۰ قیدیوں میں شامل تھیں۔ جیل سے باہر نکلنے پر خالدہ کے شوہر غسان جرار اور ان کی بیٹی یافا جرار سمیت رشتہ داروں کے ایک بڑے ہجوم نے ان کا استقبال کیا۔
How Palestinians enter Israeli prisons vs. how they leave.
— Yumna (@yumna_patel) January 20, 2025
This is Palestinian politician Khalida Jarrar. She was imprisoned by Israel for more than a year, and spent 6 months in solitary confinement. She was never charged with a crime. pic.twitter.com/1pB2KtsVqP
فلسطینی سیاسی رہنما اور حقوق نسواں کی وکیل خالدہ جرار کو دسمبر ۲۰۲۳ء میں `دہشت گردی کی حمایت` کے الزام میں اپنے گھر سے انتظامی حراست میں لیا گیا تھا جس میں کئی بار توسیع کی گئی۔ دفاع کا موقع دیئے بغیر یا فرد جرم عائد کئے بغیر انہیں دیگر خاتون قیدیوں کے ساتھ دامون جیل میں رکھا گیا۔ ۵ ماہ قبل، اگست ۲۰۲۴ء انہیں سزا کے طور پر قید تنہائی میں منتقل کر دیا گیا تھا۔ جرار کی قید کے دوران ان کے والد، بیٹی اور بھتیجے کی موت ہوگئی لیکن اسرائیلی حکام نے انہیں ان کے جنازوں میں سے شرکت کرنے سے روک دیا۔
یہ بھی پڑھئے: ’’چہیتوں کو کھودینے کا ماتم کریں یا جنگ بندی کی خوشی منائیں‘‘
خالدہ جرار، رملہ میں واقع خواتین کی جیل نیفی تیرتزا میں قید تھیں جو بھیڑ، قید تنہائی کے ضرورت سے زیادہ استعمال اور ہر قیدی کو صرف ۲ میٹر طویل سیل فراہم کرنے کیلئے بدنام ہے۔ رپورٹس کے مطابق جرار کو ایک ایسے سیل میں رکھا گیا تھا۔ وہاں درجہ حرارت غیر معمولی طور پر بہت زیادہ تھا اور ہوا کی مقدار اتنی کم ہوتی تھی کہ جرار کو سیل کے فرش پر لیٹنا پڑتا تھا تاکہ سیل کے دروازے اور فرش کے درمیان موجود شگاف سے آرہی ہوا کے سہارے سانس لے سکیں۔ جیل میں سونے کیلئے کنکریٹ کا بینچ اور پردے کے بغیر کھلا بیت الخلا تھا جس میں پانی کی سہولت نہیں تھی۔ جرار کو بلڈ پریشر، ذیابیطس اور کولیسٹرول کی شکایت ہونے اور باقاعدگی سے کھانے کی ضرورت کو نظر انداز کرتے ہوئے انہیں کھانا پہنچانے میں تاخیر کی جاتی تھی۔
یہ بھی پڑھئے: عالمی ادارہ صحت کا غزہ میں طبی سہولیات سے لیس اسپتالوں کے قیام کا اعلان
جرار پاپولر فرنٹ فار دی لبریشن آف فلسطین (پی ایف ایل پی) کے سب سے نمایاں رہنماؤں میں شامل ہیں۔ پی ایف ایل پی، فلسطین لبریشن آرگنائزیشن (پی ایل او) کی دوسری سب سے بڑی ذیلی تنظیم ہے۔ جرار فلسطینی قانون ساز کونسل کی رکن بھی رہ چکی ہیں۔ ۲۰۰۶ء میں، انہیں فلسطینی اتھارٹی کے قانون ساز ادارے، فلسطینی قانون ساز کونسل میں قیدیوں کی کمیٹی کا قائد منتخب کیا گیا۔ ۲۰۱۵ء میں بین الاقوامی فوجداری عدالت (آئی سی سی) میں فلسطین کے الحاق کو مستحکم کرنے میں اہم کردار ادا کرنے کا کریڈٹ جرار کو دیاجاتا ہے۔ فلسطینی قیدیوں کی مدد کے علاوہ وہ کئی سالوں سے انسانی حقوق کیلئے بھی فعال ہیں۔ گزشتہ ۳ دہائیوں کے دوران، جرار کو متعدد مرتبہ انتظامی حراست میں گرفتار کیا گیا۔ اس حراستی پالیسی کے تحت، اسرائیلی حکام بغیر کسی الزام یا مقدمہ کے افراد کو گرفتار کرسکتے ہیں۔ انہیں گزشتہ ایک دہائی میں ۵ مرتبہ گرفتار کیا گیا اور مجموعی طور پر ۶ سال سے زائد عرصہ تک انتظامی حراست میں رکھا گیا۔
یہ بھی پڑھئے: حماس نے ۳؍ یرغمال خواتین اوراسرائیل نے ۹۰؍ فلسطینی یرغمالیوں کو رہا کیا
جرار سمیت رہائی پانے والے ۹۰ قیدیوں میں صرف خواتین اور نابالغ شامل ہیں۔ واضح رہے کہ غزہ میں قید ۳۳ اسرائیلی یرغمالیوں کے بدلے جنگ بندی معاہدے کے ابتدائی مرحلے میں ایک ہزار سے زیادہ فلسطینی قیدیوں کو رہا کیا جائے گا۔ اس وقت ۱۰ ہزار ۴۰۰ سے زائد فلسطینی قیدیوں کو اسرائیلی "ٹارچر کیمپس" میں قید ہیں جبکہ حماس کے پاس غزہ میں تقریباً ۹۶ اسرائیلی قیدی
ہیں۔