• Fri, 27 December, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

شام: حکومت کے سامنے عوام کی بکھری زندگیوں کی تعمیر نو کا چیلنج، طبی نظام بھی توجہ کا محتاج

Updated: December 26, 2024, 11:04 AM IST | Inquilab News Network | Damascus

زندہ بچ نکلنے والے قیدی کئی نفسیاتی مسائل کا شکار ہیں، جس کا اندازہ ان کے خوف اور تنہائی کے مسلسل احساس سے لگایا جاسکتا ہے۔ بے شمار قیدی بے خوابی کا شکار ہیں جن کے گہرے نفسیاتی زخم مندمل نہیں ہو پائے ہیں۔

Photo: INN
تصویر: ائی این این

شام کے دارالحکومت دمشق کے قریب واقع صیدنایا جیل سے رہا ہونے والا ننھا قیدی، ۸ سالہ شعیب (شناخت خفیہ رکھنے کیلئے نام تبدیل کردیا گیا ہے) پہلی دفعہ بیرونی دنیا میں قدم رکھنے کے بعد چیزوں کو شناخت نہیں کرپارہا ہے۔ شعیب کو اپنی والدہ سمیت جیل میں بند کردیا گیا تھا جب وہ صرف ۳ ماہ کا تھا۔ شعیب کی والدہ پر حکومت کے خلاف بیان دینے کا الزام لگایا گیا تھا۔ اگرچہ شعیب کی والدہ براہ راست مظاہروں میں شامل نہیں تھی، لیکن مظاہروں میں خاندان کے دیگر افراد کی شمولیت کی وجہ سے انہیں بھی گرفتار کرلیا گیا۔ آٹھ سال بعد رہائی پانے والا شعیب پرندوں اور سورج کی شناخت کرنے سے قاصر ہے۔ شعیب کی والدہ نے ٹی آر ٹی ورلڈ سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ شعیب بسکٹ، جوس، پرندوں، یہاں تک کہ کھلونوں سے بھی واقفیت نہیں رکھتا۔ وہ پڑھ سکتا ہے نہ لکھ سکتا ہے۔ شعیب نے صرف اپنی ماں کو جسمانی اور جنسی زیادتیوں کا شکار بنتے دیکھا ہے۔ 

شعیب کی کہانی اکلوتی نہیں، ایسی ہزاروں دلخراش کہانیاں، شام میں اسد حکومت کے تختہ پلٹ کے بعد منظر عام پر آرہی ہیں۔ شامی مرکز برائے انسانی حقوق (ایس سی ایچ آر) نے گزشتہ ماہ ایک رپورٹ جاری کی تھی جس کے مطابق، شام میں ۲۰۱۱ء سے اب تک مجموعی طور پر ۵ ہزار ۲۹۸ بچوں کو حراست میں لیا گیا تھا یا وہ جبری طور پر لاپتہ ہوئے تھے۔ اس عرصہ میں مجموعی طور پر ۳۰ ہزار ۲۹۳ سے زائد بچوں کو موت کے گھاٹ اتارا گیا ہے۔ 

یہ بھی پڑھئے: شام : تمام جنگجو گروپ فوج میں ضم ہونے کیلئے تیار

عصمت دری اور روزانہ تشدد

۳۱ سالہ نور الحسین (تبدیل شدہ نام) نے بھی شعیب کی والدہ کی طرح شام کی صیدنایا جیل کی ہولناکیوں کا سامنا کیا ہے۔ ۵ سال قبل، انہیں آزادی اور بشار الاسد حکومت کے خاتمہ کے لئے منعقدہ مظاہروں میں شریک ہونے پر گرفتار کیا گیا تھا۔ نور الحسین نے نیوز ایجنسی کو بتایا کہ چند مسلح افراد ان کی آنکھوں پر پٹی باندھ کر انہیں صیدنایا جیل کے گئے جہاں انہیں دیگر قیدیوں کے ساتھ ہراساں کیا گیا، ان کی عصمت دری کی گئی، ان پر بے رحمی کے ساتھ تشدد کیا گیا۔ انہیں لاٹھیوں سے پیٹا جاتا تھا اور بجلی جھٹکے لگائے جاتے تھے تاکہ وہ اسد مخالف فورسیز کو ہتھیار پہنچانے کے من گھڑت الزامات کو قبول کرلیں۔ ان کے انکار کرنے پر انہیں ۱۵ دن کیلئے قیدِ تنہائی میں ڈال دیا گیا تھا جہاں بازو کے کمرے سے آنے والی لاشوں کی بدبو ناقابلِ برداشت تھی۔ انہیں اور دیگر قیدیوں کو جیل کے مرکزی چوراہے پر اجتماعی پھانسیاں دیکھنے کیلئے مجبور کیا جاتا تھا تاکہ قیدیوں اور نظر بند افراد میں دہشت پھیلائی جاسکے۔ 

نور الحسین نے مزید کہا کہ جب میں ۸ دسمبر کو جیل سے باہر آئی تو مجھے معلوم ہوا کہ میرے شوہر نے دوسری شادی کرلی ہے اور وہ میرے بچوں سمیت ترکی چلاگیا ہے۔ میں ابھی تک ان سے مل نہیں پائی ہوں اور اس جدائی نے میرے درد میں مزید اضافہ کیا ہے۔ شعیب، اس کی والدہ اور نور الحسین ان ہزاروں شامی قیدیوں میں سے ایک ہے جو جیل سے رہائی کے بعد جسمانی اور نفسیاتی زخموں سے نبرد آزما ہیں۔ کئی برس طویل خانہ جنگی اور بشار الاسد کی حکومت کے خاتمے کے بعد، شام کی حکومت کے سامنے صرف انفراسٹرکچر ہی نہیں، بلکہ عوام کی بکھری ہوئی زندگیوں کی تعمیر نو کا مشکل کام درپیش ہے۔ یہ وہ زندگیاں ہیں، جنہیں معمول پر آنے میں کئی برس درکار ہوگے۔ 

یہ بھی پڑھئے: اسد حکومت کے خاتمہ کے بعد ۲۵؍ ہزار سے زیادہ شامی ترکی سے شام لوٹے ہیں: ترکی وزیر

ملک کا طبی نظام تباہ حال

شام کا طبی نظام، جو کبھی خطہ میں قابلِ فخر حیثیت کا حامل تھا، آج تباہ کن حالت میں ہے۔ عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) کی ۲۰۲۳ء کی رپورٹ کے مطابق، ملک کی ۵۰ فیصد سے زائد طبی سہولیات غیر فعال ہیں یا شدید طور پر تباہ ہوچکی ہیں۔ طویل خانہ جنگی کے دوران دوا ساز کمپنیوں کی تباہی اور حکومت کی جانب سے فنڈنگ میں مسلسل کٹوتی کی وجہ سے ملک میں ضروری ادویات کی قلت برقرار ہے۔ اس قلت کی وجہ سے سینکڑوں اسپتالوں بند ہوگئے ہیں اور بیشتر طبی سہولیات معطل ہوچکی ہیں۔ تنازع کے دوران طبی پیشہ ور افراد کے بڑے پیمانے پر اخراج نے ملک میں طبی عملہ کی تعداد نہایت کم رہ گئی ہے۔ ۲۰۱۵ء تک شام میں ۳۰ ہزار ڈاکٹروں کی نصف سے زائد تعداد ملک سے فرار ہوچکی تھی۔ حالیہ برسوں میں صورت حال مزید خراب ہوئی ہے۔ اگرچہ محدود طبی وسائل سے جسمانی چوٹوں کا علاج ممکن ہے لیکن شام، خانہ جنگی اور حکومت کے مظالم کے نتیجہ میں پیدا ہوئے ذہنی صحت کے بحران سے نپٹنے کے لئے کسی طور تیار نہیں ہے۔ برسوں کی اذیت، فاقہ کشی اور تنہائی کی وجہ سے ہزاروں افراد شدید صدمہ اور نفسیاتی مسائل سے نبردآزما ہیں۔ صیدنایا جیسی بدنام زمانہ جیلوں سے حال ہی میں رہا ہونے والے کئی قیدی معمول کی زندگی گزارنے میں ناکامی کا سامنا کر رہے ہیں۔ وہ ابھی تک جیلوں کی خوفناک اذیت، اندھیرے میں گزرے دن اور ساتھی قیدیوں کو مرتے ہوئے دیکھنے کے ناگزیر صدمہ سے نکل نہیں پائے ہیں۔ 

۴۳ سالہ جمال نے صیدنایا جیل میں ۴ سال گزارے ہیں۔ اس دوران انہیں سخت جسمانی اور ذہنی اذیت کا سامنا کرنا پڑا جن میں ۲ دن ساتھی قیدیوں کی لاشوں کے پاس سونا بھی شامل ہے۔ انہوں نے نیوز ایجنسی کو بتایا کہ جیل کے محافظ انہیں اکثر برہنہ کرکے مارتے تھے۔ یہ تشدد روز کا معمول تھا۔ قیدیوں کو بھوکا رکھا جاتا تھا اور جیل کے اندر سونے کی اجازت نہیں دی جاتی تھی۔ سردی کو برداشت کرنا سب سے بڑا چیلنج تھا کیونکہ دھوپ میں نکلنے پر سزائیں دی جاتی تھیں۔ جیل میں قید کے دوران جمال کو تپ دق کا مرض لاحق ہوا تو جیل کے گارڈز اکثر اسے دوائی نہیں دیتے تھے۔ جمال اب آزاد ہوچکے ہیں لیکن وہ بے خوابی کا شکار ہیں اور ان کے گہرے نفسیاتی زخم مندمل نہیں ہو پا رہے ہیں۔ 

یہ بھی پڑھئے: غزہ جنگ: اسرائیلی فوجی ہر ایک گھنٹے میں ایک بچے کو موت کے گھاٹ اتار رہے ہیں

خوف اور تنہائی 

حلب سے تعلق رکھنے والی نفسیاتی مشاورت کے ماہر والاء البلان نے وضاحت کی کہ ان کے مریض، جو حال ہی میں جیل سے رہا ہوئے ہیں، شدید صدمہ سے دوچار ہیں۔ کچھ لوگ کلاسٹروفوبیا کا شکار بھی ہوتے ہیں اور بند کمروں کی بجائے کھلی جگہ پر علاج کرانے پر اصرار کرتے ہیں۔ انہوں نے مزید بتایا کہ زندہ بچ نکلنے والے قیدی کئی نفسیاتی مسائل کا شکار ہیں، جس کا اندازہ ان کے خوف اور تنہائی کے مسلسل احساس سے لگایا جاسکتا ہے۔ البلان نے زور دے کر کہا کہ جیلوں میں قید شامی خواتین نے حکومت کے حراستی مراکز میں انتہائی مشکل انسانی حالات کا سامنا کیا ہے۔ انہوں نے روزانہ تشدد اور جنسی ہراسانی اور عصمت دری کا سامنا کیا ہے۔ خواتین نے ایسا تشدد برداشت کیا ہے جو ان کی موت کا سبب بن سکتا تھا۔ 

نفسیاتی بیماریوں کا شکار ہونے والے دوسرے کمزور گروہ میں اپنے خاندان کے افراد کی موت کا غم سہنے والے، نظربندی سے بچ نکلنے والے، بے گھر افراد، خواتین اور بچے شامل ہیں جو بار بار صدمے کا شکار ہوتے ہیں۔ فرنٹ لائن ورکرز، جیسے ریسکیو ٹیموں میں رضاکار بھی بہت زیادہ نفسیاتی دباؤ کا شکار ہوتے ہیں۔ جنونی مجبوری، گھبراہٹ کے دورے اور بے چینی، سب سے عام نفسیاتی بیماریاں ہیں۔ اس کے علاوہ کئی افراد ڈپریشن اور پوسٹ ٹرامیٹک اسٹریس ڈس آرڈر (پی ٹی ایس ڈی/شیل شاکس) کا بھی شکار ہوتے ہیں۔

کئی برس طویل جنگ کا اثر صرف جیلوں تک محدود نہیں ہے۔ ۳۳ سالہ بلال گزشتہ سال ادلب میں میزائل حملے میں مفلوج ہو گئے تھے۔ وہ ایک عارضی کیمپ میں رہائش پذیر تھے جب ایک فضائی حملے نے ان کی زندگی تباہ کر دی۔ بلال نے بتایا کہ "ایک وقت تھا جب میں تعلیم حاصل کرنا اور ڈاکٹر بننا چاہتا تھا۔ لیکن جنگ نے مجھے شدید صدمے میں مبتلا کردیا ہے۔ پہلے میں نے اپنی بیوی کو کھویا اور اب میں مفلوج بن کر رہ گیا ہوں۔ اب مجھے سمجھ نہیں آتا کہ مجھے زندگی میں آگے کیا کرنا ہے۔ "

یہ بھی پڑھئے: غزہ: کرسمس کے موقع پرعیسائیوں نے اموات اور تباہی کے خاتمے کی دعا کی

سماجی بدنامی

البلان نے نوٹ کیا کہ ذہنی صحت کے بدنما داغ، صحت یاب ہونے میں ایک اہم رکاوٹ ہیں۔ سماج میں غلط فہمیاں رائج ہیں کہ دماغی بیماری، کمزور شخصیت یا قوت ارادی کی کمی کو ظاہر کرتی ہے، یہی وجہ ہے کہ لوگ ذہنی مسائل کا اعتراف کرنے میں شرمندگی یا خوف محسوس کرتے ہیں۔ 

شام میں ۱۳ سال سے زائد عرصہ سے جاری تنازع نے ہنگامی صحت کے نظام کی اہمیت میں اضافہ کیا اور ذہنی صحت کی دیکھ بھال کو نظر انداز کردیا گیا تھا۔ نتیجتاً، اب ملک میں ذہنی صحت کی خدمات کے شعبہ میں ماہرین کی شدید کمی ہے، خاص طور پر شمال مغرب میں، جہاں تشدد تاحال جاری ہے۔ سیریئن امریکن میڈیکل سوسائٹی کی ۲۰۲۲ء میں شائع ہوئی ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ شام میں کل طبی مراکز میں سے ایک فیصد سے بھی کم مراکز ذہنی صحت کی دیکھ بھال سے جڑی سہولیات فراہم کرتے ہیں۔ ملک میں چند تربیت یافتہ نفسیاتی ماہرین کے ساتھ جنرل ڈاکٹروں پر اس کا بوجھ پڑا ہے۔ عالمی ادارہ صحت کے اندازے کے مطابق، اس خطہ میں تقریباً ۱۰ لاکھ افراد ذہنی صحت سے جڑے کسی نہ کسی مسئلہ سے متاثر ہیں۔ اگرچہ کچھ بین الاقوامی تنظیموں نے ذہنی صحت کے بڑھتے بحران سے نمٹنے کے لئے مدد کی پیشکش کی ہے، لیکن یہ کافی نہیں ہے۔ ڈاکٹروں کی بین الاقوامی تنظیم، ڈاکٹرس ود آؤٹ بارڈرز (ایم ایس ایف) اور انٹرنیشنل ریسکیو کمیٹی (آئی آر ایس) جیسے گروپ شام میں بے گھر افراد کے لئے کیمپوں میں صحت کی بنیادی خدمات فراہم کر رہے ہیں، لیکن یہ کوششیں بہت کم ہیں۔ نفسیاتی صدمے سے نپٹنے کے لئے ذاتی سطح پر نفسیاتی مدد اور بحالی کے پروگراموں کی فوری ضرورت ہے تاکہ بے گھر آبادیوں اور طویل مدتی قیدیوں کو مجموعی نگہداشت فراہم کی جاسکے۔

اقوام متحدہ کے دفتر برائے رابطہ برائے انسانی امور کی رپورٹ کے مطابق، رواں سال اب تک شمال مغربی شام میں انسانی ہمدردی کے ردعمل کے منصوبے کے لئے درکار ۱ء۴ بلین ڈالر میں سے صرف ۲۵ فیصد رقم ہی جمع ہو پائی ہے۔ ایم ایس ایف کے مطابق، شعبہ صحت ۴۷۱ ملین ڈالر کی فنڈنگ کے خسارے کا سامنا کررہا ہے۔ اس کی کل ضروریات کا صرف ۱۰ فیصد فنڈ اسے فراہم کیا جارہا ہے۔ عالمی برادری کو خبردار ہو جانا چاہئے کہ فنڈنگ کا یہ فرق صحت کی اہم خدمات کو خطرے میں ڈال رہا ہے اور اس کی بدولت ذہنی صحت کی دیکھ بھال سے جڑی خدمات سب سے زیادہ متاثر اور نظر انداز ہوگی۔ 

یہ بھی پڑھئے: غزہ میں اسپتالوں پر حملوں میں شدت، تیسرا اسپتال خالی کروایا گیا

شام میں معمول کی زندگی کی بحالی کا راستہ آسان نہیں ہے، یہ چیلنجز سے بھرا ہوا ہے جنہیں عبور کرنا بے حد ضروری ہے۔ ملک کے بکھرے ہوئے طبی ڈھانچے کی تعمیر نو اور برسوں طویل جنگ سے عوام کو لگنے والے گہرے نفسیاتی زخموں کو دور کرنے میں حکومت کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا۔ شعیب، اس کی والدہ، اور نور الحسین جیسے افراد کو اپنا مستقبل تاریک دکھائی دے رہا ہے جو اپنی قید سے خوف اور صدمے کی جکڑ سے ابھی تک آزاد نہیں ہو پائے ہیں۔ ماہرین سے علاج کروانے کے باوجود، ان کی صحتیابی غیر یقینی دکھائی دے رہی ہے۔ اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ شام کی اگلی نسل، بہت زیادہ نفسیاتی بوجھ تلے دبی ہوگی۔ اگر اس صورتحال میں فوری مداخلت اور بین الاقوامی برادری کی جانب سے مدد نہ کی گئی تو شامی عوام کے صدمہ اور مایوسی کے گہرے دلدل میں پھنسے رہ جانے کا خطرہ لاحق ہے۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK