زیلنسکی نے دعویٰ کیا کہ اگر یوکرین جنگ جاری رہی تو امریکہ بھی اس کے اثرات محسوس کرے گا۔ ٹرمپ نے یوکرینی صدر کو اپنی پوزیشن یاد دلائی۔ وانس نے زیلنسکی کو ناشکرا قرار دیا۔
EPAPER
Updated: March 01, 2025, 9:00 PM IST | Washington | Washington
زیلنسکی نے دعویٰ کیا کہ اگر یوکرین جنگ جاری رہی تو امریکہ بھی اس کے اثرات محسوس کرے گا۔ ٹرمپ نے یوکرینی صدر کو اپنی پوزیشن یاد دلائی۔ وانس نے زیلنسکی کو ناشکرا قرار دیا۔
گزشتہ ۳ سال سے جاری روس یوکرین جنگ کو روکنے کے مقصد سے مذاکرات کیلئے یوکرینی صدر ولادیمیر زیلنسکی امریکہ پہنچے اور جمعہ کو وائٹ ہاؤس کے اوول آفس میں امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ سے ملاقات کی۔ لیکن اس میٹنگ میں لیڈران کے درمیان لفظی جنگ نے تعمیری حل کی ساری امیدوں پر پانی پھیر دیا۔
Trump snaps at Zelenskyy, basically saying, “Don’t tell us how to feel,” then warns him that Ukraine is in a weak spot and accuses him of risking World War 3.
— The Vivlia (@TVivlia) February 28, 2025
Imagine siding with the guy invading Ukraine over the guy defending it. pic.twitter.com/uE4O6M8PEa
ذرائع کے مطابق، دونوں لیڈران کی میٹنگ کا آغاز مصافحہ اور مسکراہٹ کے ساتھ اچھے انداز میں ہوا۔ میٹنگ کے ابتدائی ۳۰ منٹوں میں ٹرمپ اور زیلنسکی نے خوشگوار گفتگو کی۔ ٹرمپ نے اپنا دعویٰ دہراتے ہوئے کہا کہ اگر وہ صدر ہوتے تو روس یوکرین جنگ کبھی نہ ہوتی۔ جب ٹرمپ جنگ کیلئے یوکرین کو موردالزام ٹھہرانے کی کوشش کرنے لگے تو یوکرینی لیڈر ناراض نظر آئے۔ گفتگو کے دوران نائب امریکی صدر جے ڈی وانس نے امریکی صدر کی روس کیلئے حمایت سے متعلق ایک سوال کا جواب دینے کیلئے مداخلت کرکے میٹنگ میں بدمزگی پیدا کی۔ جب ایک رپورٹر نے ٹرمپ سے پوچھا کہ کیا وہ روس کے پوتن کے ساتھ "تعلق" رکھتے ہیں، تو وانس، جو زیادہ تر ٹرمپ اور دیگر عالمی لیڈران کے ساتھ ملاقاتوں میں خاموش رہے، نے مداخلت کی اور اپنے جواب میں گزشتہ امریکی صدر جو بائیڈن پر تنقید کی اور کہا کہ امن اور خوشحالی کا راستہ شاید سفارت کاری میں شامل ہے۔
یہ بھی پڑھئے: امریکہ: پولیو، ایچ آئی وی، ملیریا اور غذائیت کے عالمی پروگراموں کی امداد ختم
وانس کے تبصرے پر یوکرینی صدر ناراض ہوگئے اور بتایا کہ پوتن پر بھروسہ نہیں کیا جاسکتا۔ انہوں نے ۲۰۱۵ء میں کریمیا کے الحاق کے بعد جنگ بندی معاہدہ کا حوالہ دیا۔ انہوں نے غصیلے لہجہ میں وانس سے پوچھا کہ روس نے جنگ بندی معاہدہ توڑا، یوکرینی شہریوں کو قتل کیا اور قیدیوں کا تبادلہ نہیں کیا۔ ایسے ملک سے سفارتکاری کی امید کیسے رکھی جاسکتی ہے؟ آپ کا کیا مطلب ہے؟ وانس نے جواب دیا کہ وہ ایسی سفارت کاری کی بات کررہے ہیں جو یوکرین کی تباہی کو روک سکتی ہے۔ اس لفظی جنگ کے بعد وانس نے بھڑک کر بلند آواز میں زیلنسکی پر الزام لگایا کہ وہ ٹرمپ کی بے عزتی کررہے ہیں جو تنازع کو ختم کرنے کی کوششوں میں لگے ہوئے ہیں ہیں۔ دونوں لیڈران میں لفظی جنگ جاری رہی یہاں تک کہ زیلنسکی نے دعویٰ کیا کہ اگر یوکرین جنگ جاری رہی تو امریکہ بھی اس کے اثرات محسوس کرے گا۔ اس پر ٹرمپ نے مداخلت کی اور کہا کہ آپ یہ کہنے کی پوزیشن میں نہیں ہیں کہ ہم کیسا محسوس کریں گے۔ وانس نے زیلنسکی کو ناشکرا قرار دیا جبکہ زیلنسکی نے بتایا کہ وہ امریکہ کو کئی دفعہ شکریہ کہہ چکے ہیں۔ اس کے بعد زیلنسکی کو ٹرمپ نے وائٹ ہاؤس سے نکل جانے کا حکم دیا۔
یہ بھی پڑھئے: امریکہ:انسانی حقوق گروپ اسرائیلی جرائم میں بائیڈن کے ملوث ہونے پرعدالت سے رجوع
امریکہ نے زیلنسکی کے خلاف تحمل کا مظاہرہ کیا: روس
روس کی وزارت خارجہ کی ترجمان ماریا زاخارووا نے جمعہ کو بیان دیا کہ ٹرمپ نے وائٹ ہاؤس میں "شور مچانے کے مقابلے" کے دوران زیلنسکی کو نہ مار کر "تحمل" کا مظاہرہ کیا۔ انہوں نے ٹیلی گرام پر لکھا کہ زیلنسکی نے تمام جھوٹے دعوؤں کے درمیان سب سے بڑا جھوٹ یہ کہا کہ ۲۰۲۲ء میں کیف حکومت تنہا تھی اور اسے کسی کی حمایت حاصل نہیں تھی۔ انہوں نے زیلینسکی پر "سب کے ساتھ ناخوشگوار" طریقہ سے پیش آنے کا الزام لگایا۔ روس کے سابق صدر دمتری میدویدیف، جو اب روس کی سلامتی کونسل کے نائب سربراہ ہیں، نے مسٹر زیلینسکی کو "گستاخ سور" قرار دیا۔
یورپی ممالک کا ردِعمل
ٹرمپ اور زیلنسکی کے درمیان گرما گرم تبادلہ کے بعد یورپی لیڈران نے یوکرینی لیڈر کی حمایت کی ہے جس سے امریکہ اور یورپ کے درمیان خلیج واضح ہوگئی ہے۔ سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر زیلنسکی کی ٹائم لائن یورپی اتحادیوں اور دنیا بھر کے دیگر ممالک کی حمایت کے پیغامات سے بھری ہوئی تھی۔ تمام پیغامات پر ان کا جواب تھا "آپ کی حمایت کیلئے آپ کا شکریہ۔"
یوروپی کمیشن کی صدر ارسولا وان ڈیر لیین، جو جمعہ کو ایک سرکاری دورے پر ہندوستان میں تھیں، نے ایکس پر پوسٹ کیا، "مسٹر زیلنسکی، آپ کبھی اکیلے نہیں ہوگے۔ ہم ایک منصفانہ اور دیرپا امن کیلئے آپ کے ساتھ کام کرنا جاری رکھیں گے۔"
فرانسیسی صدر ایمانوئل میکرون، جنہوں نے گزشتہ پیر کو وائٹ ہاؤس میں ٹرمپ سے ملاقات کی، نے ایکس پر بیان دیا کہ روس جارح ملک ہے اور اس کا شکار یوکرین ہے۔ ہم نے ۳ سال قبل بھی یوکرین کی مدد اور روس پر پابندی عائد کرنے کی حمایت کی تھی اور آج بھی ہم وہی چاہتے ہیں۔
فرانس کے علاوہ، اٹلی، جرمنی، ایسٹونیا کے لیڈران نے بھی بیانات جاری کرکے یوکرین کی حمایت کی۔