عالمی سطح پر مالی منڈیوں میں ٹرمپ کے اعلان کا مثبت ردعمل دیکھنے ملا۔ امریکی مارکیٹ ایس اینڈ پی ۵۰۰، جس میں رواں ماہ سرمایہ کاروں کے ۵ کھرب سے زائد ڈالر ڈوب گئے، میں بدھ کے اختتام تک ۵ء۹ فیصد کی تیزی آئی جو ۲۰۰۸ء کے معاشی بحران کے بعد سب سے بڑا یک روزہ اضافہ ہے۔
امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ۔ تصویر: آئی این این
امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے چند دنوں قبل درجنوں ممالک پر وسیع پیمانے پر عائد کئے گئے ٹیرف کے نفاذ کو اگلے ۹۰ دنوں کیلئے مؤخر کرنے کا اعلان کرکے سب کو حیران کردیا۔ بدھ کو وائٹ ہاؤس کے باہر صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے، ٹرمپ نے اس اقدام کو ایک اسٹریٹجک تبدیلی قرار دیا اور کہا، "کبھی کبھی آپ کو لچکدار بننا پڑتا ہے۔ لوگ پریشان ہو رہے تھے، اس لئے میں نے ان ممالک کو ۹۰ دنوں کا وقفہ دیا جنہوں نے امریکہ کے خلاف جوابی (ٹیرف کی) کارروائی نہیں کی۔" ٹرمپ کا فیصلہ، ایک ہنگامہ خیز ہفتے کے بعد سامنے آیا ہے۔ اس دوران ایس اینڈ پی ۵۰۰ میں ۹ اپریل کو ٹیرفس کے ابتدائی نفاذ سے قبل سرمایہ کاروں کو تقریباً ۶ کھرب ڈالر کا نقصان اٹھانا پڑا۔ یورپ اور ایشیاء کے تقریباً تمام بڑی مالی منڈیوں پر اس کے منفی اثرات دیکھنے ملے تھے جس کے بعد عالمی کساد بازاری کے خدشات میں اضافہ ہوگیا تھا۔ بدھ کی رات کو ٹرمپ کے اس ڈرامائی اور غیر متوقع اعلان نے سرمایہ کاروں کو راحت دی ہے۔ ٹرمپ کے اعلان کے بعد عالمی منڈیوں میں زبردست تیزی ریکارڈ کی جا رہی ہے اور عالمی معیشت سے متعلق غیر یقینی صورتحال میں کمی آئی ہے۔
جن ممالک پر اعلان کردہ ٹیرف کو روک دیا گیا ہے، ان میں سے بیشتر ممالک اگلے ۹۰ دنوں کیلئے ۱۰ فیصد کی کم شرح ٹیرف کا سامنا کریں گے۔ دریں اثنا، مخصوص شعبوں پر موجودہ ٹیرف جیسے درآمد شدہ گاڑیوں، گاڑیوں کے پرزے، اسٹیل اور ایلومینیم پر عائد ۲۵ فیصد ڈیوٹیز اس وقفے سے متاثر نہیں ہوگے اور برقرار رہیں گے۔ وائٹ ہاؤس نے اشارہ دیا کہ دواسازی پر ٹیرف سمیت اضافی اقدامات مستقل میں اٹھائے جا سکتے ہیں۔
یہ بھی پڑھئے: امریکہ کے ۵۰؍ فیصد اضافی ٹیرف پر چین کا منہ توڑ جواب
چین کو کوئی راحت نہیں
دوسری طرف، امریکہ۔چین کی تجارتی جنگ میں مزید شدت آگئی جب ٹرمپ نے چینی درآمدات پر مزید ۲۱ فیصد ٹیرف عائد کرتے ہوئے محصولات کی کل شرح کو ۱۲۵ فیصد تک پہنچا دیا۔ جن ممالک کو ٹیرف سے راحت ملی ہے ان میں چین شامل نہیں ہے جو دنیا کی دوسری سب سے بڑی معیشت اور امریکہ کا دوسرا بڑا تجارتی شراکت دار ہے۔ ٹرمپ نے چین پر عائد ٹیرف میں مزید اضافہ کیا ہے جس کے بعد چینی مصنوعات پر عائد ٹیرف کی شرح ۱۰۴ فیصد سے ۱۲۵ فیصد تک جاپہنچی ہے۔ ٹرمپ نے چین کو نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ اگر آپ امریکہ پر وار کرتے ہیں تو ہم اس سے زیادہ طاقت کے ساتھ جواب دیتے ہیں۔ صدر نے ٹیرف میں اضافہ کو جواز فراہم کرنے کیلئے بیجنگ کے امریکی سامان پر ۸۴ فیصد جوابی ٹیرف کے اعلان کو ثبوت کے طور پر پیش کیا اور کہا کہ چین مذاکرات کیلئے تیار نہیں۔ واضح رہے کہ چین نے امریکی ٹیرف کے آگے نہ جھکتے ہوئے امریکہ پر جوابی ۸۴ فیصد ٹیرف عائد کرنے کا اعلان کیا ہے، جس کے عالمی سطح پر ایک تجارتی جنگ کا خطرہ بڑھ گیا ہے۔
یہ بھی پڑھئے: امریکہ کے سبب ہندوستان پر ’ڈمپنگ ‘ کا خطرہ
ہندوستان پر اثر
صدر ٹرمپ کے ٹیرف کے نفاذ میں وقفے سے ہندوستان کو عارضی راحت مل سکتی ہے کیونکہ اس کے متعدد برآمدی شعبوں، جیسے ٹیکسٹائل، دواسازی اور آئی ٹی خدمات پر امریکی "جوابی" ٹیرف کا دباؤ کم ہو جائے گا۔ چین پر اضافی ٹیرف ہندوستانی کمپنیوں کیلئے مواقع پیدا کر سکتا ہے کہ وہ امریکی مارکیٹ، خاص طور پر الیکٹرانکس اور مینوفیکچرنگ میں میں متبادل سپلائر کے طور پر قدم رکھیں۔ اسٹیل اور ایلومینیم پر ۲۵ فیصد ڈیوٹی برقرار رہنے سے ہندوستان کی دھاتوں کی برآمدات متاثر ہوگی، لیکن مجموعی طور پر یہ وقفہ نئی دہلی کو واشنگٹن کے ساتھ دوطرفہ تجارت کو بہتر بنانے کیلئے مذاکرات کا موقع فراہم کرے گا۔
یہ بھی پڑھئے: امریکہ: ٹرمپ کے نئے ٹیرف مالی طور پر امریکی باشندوں کو بھی متاثر کریں گے، غریب طبقہ زیادہ متاثر ہوگا
عالمی سطح پر منڈیوں میں تیزی
عالمی سطح پر مالی منڈیوں میں ٹرمپ کے اعلان کا مثبت ردعمل دیکھنے ملا۔ امریکی مارکیٹ ایس اینڈ پی ۵۰۰، جس میں رواں ماہ سرمایہ کاروں کے ۵ کھرب سے زائد ڈالر ڈوب گئے، میں بدھ کے اختتام تک ۵ء۹ فیصد کی تیزی آئی جو ۲۰۰۸ء کے عالمی معاشی بحران کے بعد امریکی مارکیٹ کا سب سے بڑا یک روزہ اضافہ ہے۔ ڈاؤ جونز انڈسٹریل ایوریج تقریباً ۸ فیصد بڑھ گیا اور اس میں ۳ ہزار پوائنٹس کا اضافہ ہوا۔ ایشیائی منڈیوں پر ٹرمپ کے اعلان کا بھی مثبت اثر ہوا۔ جمعرات کو مارکیٹ کھلتے ہی جاپان کے نیکئی انڈیکس میں تقریباً ۳ء۸ فیصد کا اضافہ دیکھنے ملا۔ جنوبی کوریا اور آسٹریلیا کی مالی منڈیوں میں بھی ۵ فیصد سے زائد اضافہ ریکارڈ کیا گیا۔ سرمایہ کاروں نے اس وقفہ پر راحت کا اظہار کیا، جبکہ تجزیہ کاروں نے خبردار کیا کہ امریکہ اور چین کے درمیان جاری تجارتی جنگ سے عالمی سپلائی چینز کے غیر مستحکم ہونے کا خطرہ برقرار ہے۔
یہ بھی پڑھئے: ایلون مسک نے ٹرمپ سے نئے ٹیرف واپس لینے کی اپیل کی: رپورٹ
"ایک سوچی سمجھی حکمت عملی"
صدر ٹرمپ کی اس پالیسی تبدیلی نے امریکہ میں مخلوط ردعمل کو جنم دیا۔ امریکی خزانہ سیکریٹری اسکاٹ بیسنٹ نے ٹرمپ کے وقفہ کے اعلان کو "ایک سوچی سمجھی حکمت عملی" قرار دیا۔ بیسنٹ نے صحافیوں سے کہا، "یہ شروعات سے ہی صدر کی حکمت عملی میں شامل تھا۔" انہوں نے دعویٰ کیا کہ ابتدائی ٹیرف دھمکیوں کے بعد ۷۵ سے زائد ممالک نے تجارتی معاہدوں کیلئے رابطہ کیا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ "صدر ٹرمپ زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھانے کے مقام پر کھڑے ہیں۔ اب ہم اگلے ۹۰ دنوں میں مخصوص معاہدوں کے حصول کیلئے کام کریں گے۔" ٹرمپ کے حامیوں، جن میں تجارتی سیکریٹری ہاورڈ لٹنک شامل ہیں، نے اسے ٹرمپ کی سودے بازی کی صلاحیت کا ثبوت قرار دیا۔
تاہم، ناقدین نے انتظامیہ کی مستقل مزاجی پر سوال اٹھایا ہے۔ سینیٹر ایڈم شیف (ڈی-کیلیفورنیا) نے کانگریس سے مارکیٹ کے اتار چڑھاؤ سے اندرونی افراد کے ممکنہ منافع کی تحقیقات کرانے کا مطالبہ کیا۔