Inquilab Logo Happiest Places to Work

امریکہ: ٹرمپ کے نئے ٹیرف مالی طور پر امریکی باشندوں کو بھی متاثر کریں گے، غریب طبقہ زیادہ متاثر ہوگا

Updated: April 08, 2025, 6:08 PM IST | Inquilab News Network | Washington

ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ یہ ٹیرف عدم مساوات کو بڑھا سکتے ہیں۔ خاص طور پر کم آمدنی والے خاندان، خوراک اور توانائی جیسی بنیادی ضروریات کی قیمتوں میں اضافے کو زیادہ شدت سے محسوس کریں گے۔

US President Donald Trump. Photo: INN
امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ۔ تصویر: آئی این این

صدر ڈونالڈ ٹرمپ کے حال ہی میں متعارف کردہ ٹیرف، ممالک اور عالمی تجارت کو بڑے پیمانے پر متاثر کریں گے، علاوہ ازیں، ان کی وجہ سے امریکیوں کی جیب پر بھی گہرا اثر پڑے گا۔ ٹرمپ کے وسیع پیمانے پر نافذ کردہ نئے ٹیرف، جو پہلے سے عائد محصولات اور ممالک کی جوابی کارروائیوں پر مشتمل ہیں، امریکہ میں روزمرہ اشیاء کی قیمتوں میں اضافہ کا سبب بن سکتے ہیں۔ تجارتی جنگ نے پہلے ہی عالمی سطح پر مالیاتی منڈیوں کو ہلا کر رکھ دیا ہے اور کاروباروں کو غیر یقینی صورتحال سے دو چار کر دیا ہے جبکہ ماہرین اقتصادیات خبردار کر رہے ہیں کہ امریکی ٹیرف سے اقتصادی ترقی کی رفتار سست ہو سکتی ہے اور عدم مساوات میں اضافہ ہو سکتا ہے۔

یہ بھی پڑھئے: ٹرمپ کے ٹیرف سے کساد بازاری کا خطرہ بڑھا

ٹیرف کیا ہیں اور یہ آپ کو کیسے متاثر کریں گے؟

ٹیرف یعنی وہ ٹیکس جو دیگر ممالک سے درآمد شدہ اشیاء پر عائد کیا جاتا ہے۔ وہ کمپنیاں جو غیر ملکی مصنوعات خریدتی ہیں، انہیں مصنوعات پر لگنے والے ٹیرف ادا کرنا پڑتا ہے۔ نتیجتاً، اشیاء کی لاگت بڑھ جاتی ہے جو اکثر صارفین کو منتقل کردی جاتی ہے۔ ٹرمپ کا کہنا ہے کہ یہ ٹیرف امریکی صنعتوں کو غیر منصفانہ غیر ملکی مقابلے سے بچائیں گے اور وفاقی حکومت کیلئے آمدنی کا ذریعہ بن کر ابھریں گے۔ لیکن چونکہ آج کل جو کچھ صارفین خریدتے ہیں وہ عالمی سپلائی چین پر منحصر ہے، اس لئے زیادہ ٹیرف کا مطلب ہے کہ کرانہ سے لے کر گاڑی کی مرمت تک، آپ کو ہر چیز کی زیادہ قیمت ادا کرنا پڑ سکتی ہے۔ بابسن کالج کے ایسوسی ایٹ پروفیسر جوش اسٹل ویگن کا کہنا ہے کہ ٹیرف، معیشت کی ہر چیز کو متاثر کرے گا۔ اس کی بدولت قیمتوں میں ہونے والے فوری اضافے سے صارفین بڑے پیمانے پر متاثر ہوگے۔

یہ بھی پڑھئے: امریکہ کے سبب ہندوستان پر ’ڈمپنگ ‘ کا خطرہ

کیا ٹیرف سب کو یکساں طور پر متاثر کریں گے؟

نہیں۔ ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ یہ ٹیرف عدم مساوات کو بڑھا سکتے ہیں۔ خاص طور پر کم آمدنی والے خاندان، خوراک اور توانائی جیسی بنیادی ضروریات کی قیمتوں میں اضافے کو زیادہ شدت سے محسوس کریں گے کیونکہ ان کے پاس بچت کم ہوتی ہے جس سے ان کا بجٹ سخت دباؤ میں آ سکتا ہے۔

کارنیل یونیورسٹی میں حکومت اور عوامی پالیسی کے پروفیسر گستاوو فلوریس-ماسیاس کے مطابق، کم آمدنی والے افراد اپنی آمدنی کا بڑا حصہ ضروری اشیاء پر خرچ کرتے ہیں، چاہے وہ اشیائے خوردونوش ہو یا دیگر بنیادی مصنوعات جیسے صابن یا ٹوتھ پیسٹ۔ اس لئے، قیمتوں میں تھوڑا سا اضافہ بھی نسبتاً بڑا اثر ڈال سکتا ہے۔

فورسٹر میں نائب صدر دیپانجن چٹرجی نے آٹو ٹیرف کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ درآمد شدہ نئی گاڑی کی قیمت میں ہزاروں ڈالر کے اضافہ کا اثر زیادہ آمدنی والے افراد کیلئے برداشت کرنا آسان ہو گا۔ یہ ٹیرف، ایک رجعتی ٹیکس ہے جو کم آمدنی والے افراد کیلئے زیادہ سخت ثابت ہوگا۔

یہ بھی پڑھئے: ٹرمپ ٹیرف: ’جھینگوں کا کاروبار‘ سب سے زیادہ متاثر

روزگار کا کیا ہوگا؟

ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ ٹیرف، بے روزگاری میں اضافہ اور آمدنی میں کمی کا باعث بھی بن سکتے ہیں فلوریس-ماسیاس نے کہا کہ یہ صرف قیمتوں اور قوت خرید کی بات نہیں ہے۔ جب ٹیرف معیشت میں سرایت کرنا شروع کرتے ہیں تو کم آمدنی والے افراد کی ملازمتیں سب سے پہلے ختم ہوتی ہیں اور یہی طبقہ سب سے زیادہ غیر محفوظ ہوتا ہے۔

ماہر اقتصادیات سوزین ہیلپر، جو وائٹ ہاؤس کے آفس آف مینجمنٹ اینڈ بجٹ میں صنعتی حکمتِ عملی کی سابق سینئر مشیر ہیں، کہتی ہیں کہ بعض صورتوں میں ٹیرف اجرتوں میں اضافہ کر سکتے ہیں، لیکن اس بار ایسا ممکن نظر نہیں آتا۔ انہوں نے مزید کہا کہ کاروبار میں سرمایہ کاری اور نئی ملازمتیں پیدا کرنے کیلئے خاطر خواہ یقین دہانی موجود نہیں ہے۔ ایک نئی فیکٹری سے منافع حاصل کرنے میں کئی سال لگتے ہیں اور لوگوں کو یہ یقین نہیں ہے کہ ٹیرف اتنے مستحکم رہیں گے کہ اس سرمایہ کاری سے کوئی فائدہ حاصل ہو۔

یہ بھی پڑھئے: ۶؍صنعتی شعبے جو امریکی ٹیرف سے زیادہ متاثر ہوں گے

کون سی صارفی اشیاء متاثر ہوں گی؟

ٹرمپ کے اعلان کردہ ٹیرف، دیگر عائد شدہ محصولات کے ساتھ، تقریباً تمام تجارتی شراکت داروں سے درآمدات پر لاگو ہوتے ہیں اور امریکی صارفین اس وقت بہت سی ایسی اشیاء پر انحصار کرتے ہیں جو بیرون ملک بنتی ہیں۔

پھل اور سبزیاں، موبائل فون، دوائیں، نئے کپڑے سمیت غیر ملکی پرزے استعمال کرنے والی گاڑیاں تک متاثر ہوسکتی ہیں۔ اسٹل ویگن کے مطابق، قیمتوں میں اضافہ کا وقت اسٹاک پر منحصر ہے۔ جلد خراب ہونے والے کرانہ سامان کی قیمتیں پہلے بڑھیں گی، کیونکہ سپر مارکیٹس کو انہیں بار بار منگوانا اور ذخیرہ کرنا پڑتا ہے۔ لیکن الیکٹرانکس، گھریلو آلات، لباس اور جوتے جیسے دیگر متعدد سامان بھی آنے والے ہفتوں اور مہینوں میں متاثر ہو سکتے ہیں۔

نیشنل کنزیومرز لیگ کے نائب صدر جان بریاولٹ کے مطابق، آمدنی کے نچلے طبقے کے خاندانوں کیلئے سالانہ نقصان کا اندازہ صرف ۲ اپریل کی پالیسی کی بنیاد پر ۹۸۰ ڈالر لگایا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ٹیرف کا سب سے زیادہ اثر کپڑوں اور ٹیکسٹائل پر پڑے گا۔ ایک اندازہ کے مطابق، ملبوسات کی قیمتوں میں ۱۷ فیصد اضافہ ہو سکتا ہے۔ بریاولٹ نے مزید کہا کہ صارفین کو گھر خریدنے میں بھی ٹیرف کے اثرات محسوس ہوں گے۔ نیشنل ایسوسی ایشن آف ہوم بلڈرز کے تجزیہ کے مطابق، تعمیراتی سامان پر نئے ٹیکس کی وجہ سے نئے گھر کی اوسط قیمت میں ۹ ہزار ۲۰۰ ڈالر کا اضافہ ہو سکتا ہے۔

سٹل ویگن کا کہنا ہے کہ کچھ اشیاء جیسے کیلے اور کافی ایسی ہیں جنہیں امریکہ میں اتنے بڑے پیمانے پر پیدا کرنا ممکن نہیں جتنا دوسرے ممالک کرتے ہیں۔ اور جو اشیاء امریکہ میں بنائی جا سکتی ہیں، ان کی قیمتوں میں بھی مہنگائی کا امکان موجود ہے۔ ہیلپر کے مطابق، کافی جیسی اشیاء میں لوگ اضافی قیمت برداشت کریں گے، لیکن دوسری اشیاء کی خریداری میں وہ اپنی ترجیحات تبدیل کر سکتے ہیں۔

یہ بھی پڑھئے: ٹیرف پر ۵۰؍ ممالک ہم سے معاہدہ کیلئے بے چین ہیں: ٹرمپ

کیا آپ کچھ پیشگی تیاری کر سکتے ہیں؟

جی ہاں، لیکن محدود حد تک۔ اسٹل ویگن کا کہنا ہے کہ اگر آپ کچھ اشیاء باقاعدگی سے خریدتے ہیں تو انہیں پہلے سے ذخیرہ کر لینا بہتر ہوگا۔ فلوریس-ماسیاس کا کہنا ہے کہ الیکٹرانکس سے لے کر کپڑوں تک، دوبارہ استعمال شدہ یا ریفربشڈ اشیاء ایک سستا متبادل ہو سکتی ہیں۔ چٹرجی نے مشورہ دیا کہ صارفین برانڈڈ اور "جنیرک" یا پرائیویٹ لیبل مصنوعات کے درمیان قیمتوں کا موازنہ شروع کر سکتے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ کچھ لوگ گھر پر سبزیاں اگانے جیسے حل اپنا سکتے ہیں۔

یہ بھی پڑھئے: ڈونالڈ ٹرمپ کے ٹیرف کے بعد عالمی معاشی کساد بازاری کا۶۰؍ فیصد امکان: جے پی مورگن

کیا آئندہ مہینوں میں کسی چیز پر نظر رکھنی چاہئے؟

بریاولٹ کے مطابق، صارفین کو "شرنک فلیشن" (Shrinkflation) یعنی مصنوعات کی مقدار کم کرکے قیمتیں بڑھانے کی مشق پر توجہ دینی چاہئے جو اکثر کمپنیاں افراط زر کے دور میں اپناتی ہیں۔ یہ ایک حربہ ہے جس کے ذریعے کمپنیاں قیمت بڑھاتی ہیں لیکن پیکجنگ تبدیل کر کے صارف کو دھوکہ دیتی ہیں۔ بریاولٹ نے کہا، "صارفین کو چاہئے کہ مہنگائی کا سامنا کرنے کیلئے اشیاء کی یونٹ قیمت کا موازنہ کرنے کی عادت اپنائیں۔"

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK