اے ڈی ایف کے فلسطین پر اجلاس میں عرب لیگ اور تنظیم اسلامی تعاون کی غزہ سے متعلق وزارتی کمیٹی کے وزرائے خارجہ اور نمائندوں کے علاوہ آئرلینڈ، ناروے، سلووینیا، اسپین، چین اور روس کے نمائندوں نے شرکت کی۔
EPAPER
Updated: April 12, 2025, 8:55 PM IST | Inquilab News Network | Ankara
اے ڈی ایف کے فلسطین پر اجلاس میں عرب لیگ اور تنظیم اسلامی تعاون کی غزہ سے متعلق وزارتی کمیٹی کے وزرائے خارجہ اور نمائندوں کے علاوہ آئرلینڈ، ناروے، سلووینیا، اسپین، چین اور روس کے نمائندوں نے شرکت کی۔
ترکی کے جنوبی شہر انطالیہ میں انطالیہ سفارتی فورم (اے ڈی ایف) کے تین روزہ وزارتی اجلاس کا انعقاد کیا گیا جس کا موضوع "ٹکڑوں میں بٹی دنیا میں سفارت کاری کو دوبارہ حاصل کرنا" تھا۔ جمعہ کو شروع ہوئے اس اجلاس میں شریک ہوئے درجنوں ممالک کے وزرائے خارجہ اور کئی عالمی تنظیموں کے نمائندوں نے فلسطینی علاقوں پر اسرائیلی قبضہ کے خاتمہ کا مطالبہ کیا اور دو ریاستی حل کے نفاذ کا مطالبہ کیا۔ شرکاء نے محصور غزہ سے فلسطینیوں کی نسلی صفائی کے امریکی-اسرائیلی منصوبوں کو سختی سے مسترد کردیا۔
فلسطین پر اجلاس میں عرب لیگ اور تنظیم اسلامی تعاون کی غزہ سے متعلق وزارتی کمیٹی کے وزرائے خارجہ اور نمائندوں کے علاوہ آئرلینڈ، ناروے، سلووینیا، اسپین، چین اور روس کے نمائندوں نے شرکت کی، جنہوں نے غزہ میں اسرائیل کی نسل کشی پر مبنی جنگ کو ختم کرنے پر خاص زور دیا۔ بیان میں کہا گیا، "منصفانہ حل کیلئے عالمی برادری کی کوششیں بے نتیجہ رہی ہیں اور جاری واقعات ایک طویل تنازع کی عکاسی کرتے ہیں، نہ کہ ایک نئے مرحلے کی۔ ہم پختہ یقین رکھتے ہیں کہ دو ریاستی حل کے نفاذ میں پیش رفت کی کمی ہر قسم کی انتہا پسندی اور تشدد کو بنیادی طور پر ہوا دے رہی ہے، موجودہ پیش رفت نے اسے ایک بار پھر ثابت کیا ہے۔ ہم ہر قسم کے تشدد اور دہشت گردی کی مذمت کرتے ہیں۔"
یہ بھی پڑھئے: اسرائیلی حملوں میں خواتین او ربچوں کو نشانہ بنانے پر اقوام متحدہ کا اظہار تشویش
انطالیہ وزارتی اجلاس کے مشترکہ بیان میں اراکین نے جمعہ کو اتفاق کیا کہ کئی دہائیوں کے بعد اسرائیل-فلسطین تنازع اپنی بدترین حالت میں پہنچ گیا ہے اور دو ریاستی حل، بین الاقوامی قانون اور اقوام متحدہ کے چارٹر کے اصولوں کے نفاذ کی کوششوں کو کمزور کر رہا ہے۔ بیان میں مزید کہا گیا، "خطہ نے مذاکرات، بین الاقوامی اقدامات، تصادم اور جنگوں کے کئی ادوار دیکھے ہیں۔ تاہم، موجودہ سیاسی تعطل اور انسانی تباہی سب سے بدتر حالت کو پہنچ چکی ہے۔ متضاد فریقوں کے درمیان دہائیوں طویل بات چیت اور بین الاقوامی شمولیت کے باوجود دو ریاستی حل، جسے اس تنازع کے واحد قابل عمل حل کے طور پر بین الاقوامی سطح پر قبول کیا گیا ہے، کو نظر انداز کیا جا رہا ہے۔"
غزہ، مغربی کنارے، مشرقی یروشلم کا اتحاد
بیان میں خبردار کیا گیا کہ حل نہ ہونے والے تنازعات مستقبل میں جنگ کا خطرہ بڑھا سکتے ہیں۔ تنازع کے خاتمہ کیلئے دونوں فریقوں کو علاقائی اور بین الاقوامی ثالثی سمیت، مخلصانہ اور پرعزم مذاکرات میں شامل ہونے کی ضرورت ہے۔ اجلاس کے مشترکہ بیان میں مزید کہا گیا، "اس دوران، عالمی برادری کو اپنی ذمہ داری قبول کرنی چاہئے کہ وہ ایک سیاسی اور منصفانہ حل کی حمایت کرے جو قبضہ اور مشرق وسطیٰ میں تشدد کی لہروں کا خاتمہ کرے۔"
یہ بھی پڑھئے: غزہ کے مظلوموں کو جبراً شام منتقل کرنے کی سازش کا انکشاف
اجلاس میں سفارت کاروں نے فلسطین میں "حالیہ پیش رفت پر گہری تشویش" کا اظہار کیا اور غزہ میں دشمنیوں کی بحالی اور خاص طور پر اسرائیلی فورسیز کے بے دریغ حملوں کی مذمت کی جو بڑی تعداد میں شہریوں کی ہلاکت اور باقی ماندہ اہم انفراسٹرکچر کی دانستہ تباہی کا باعث بنے ہیں۔ انہوں نے اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق فوری، مستقل جنگ بندی اور ۱۹ جنوری کے جنگ بندی اور قیدیوں کی رہائی کے معاہدے کے مکمل نفاذ کا مطالبہ کیا جو مصر، قطر اور امریکہ کی ثالثی سے طے پایا تھا۔ بیان میں کہا گیا، "ہم غزہ پٹی کو مشرقی یروشلم اور مغربی کنارے کے ساتھ فلسطینی اتھارٹی (پی اے) کے تحت متحد کرنے کا بھی مطالبہ کرتے ہیں۔" پی اے کیلئے سیاسی اور مالی حمایت کی ضرورت پر بھی زور دیا گیا تاکہ وہ غزہ اور اسرائیل کے زیر قبضہ فلسطین میں اپنی ذمہ داریاں پوری کر سکے۔
جاری کردہ بیان میں محصور غزہ، مقبوضہ مغربی کنارے اور مقبوضہ مشرقی یروشلم سے فلسطینیوں کے جبری انخلاء کی سختی سے اور واضح طور پر مخالفت کی گئی۔ بیان میں کہا گیا، "غزہ کو ناقابل رہائش بنا کر لوگوں کو غزہ سے باہر نکالنا رضاکارانہ ہجرت نہیں ہے۔ یہ جبری نقل مکانی ہے، جسے ہم واضح طور پر مسترد کرتے ہیں۔" فورم نے فلسطین پناہ گزینوں کیلئے اقوام متحدہ کی ریلیف اینڈ ورکس ایجنسی کی حمایت کی دوبارہ توثیق کی۔
یہ بھی پڑھئے: اسرائیلی فضائیہ کے ایک ہزار ریزرو فوجیوں نے غزہ جنگ ختم کرنے کا مطالبہ کیا
اجلاس میں مصر، قطر اور امریکہ کی جنگ بندی کی ثالثی کی تعریف کی گئی اور اسے غزہ کی تعمیر نو کیلئے اہم قرار دیا گیا۔فورم نے مصر کے غزہ کی تعمیر نو کے منصوبے کی حمایت کی جو فلسطین کے ساتھ مل کر بنایا گیا ہے اور جسے بین الاقوامی شراکت داروں کی حمایت حاصل ہے۔اجلاس نے غزہ کی بحالی اور تعمیر نو کیلئے قاہرہ کانفرنس کی توثیق کی جو اقوام متحدہ اور بین الاقوامی عطیہ دہندگان کے تعاون سے منعقد ہو گی۔ بیان میں کہا گیا کہ فلسطین تنازع کے پرامن تصفیہ اور دو ریاستی حل پر اعلیٰ سطحی بین الاقوامی کانفرنس جون میں نیویارک میں منعقد ہو گی جس کی مشترکہ صدارت سعودی عرب اور فرانس کریں گے۔ اس کا مقصد قبضہ کا خاتمہ اور دو ریاستی حل کے نفاذ کیلئے اقدامات کی نشاندہی کرنا ہے۔
"فلسطینیوں کو بھوکا مارنا ناقابل جواز"
فورم نے اپنے بیان میں مغربی کنارے میں اسرائیل کے ذریعے بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزیوں کے خاتمے کا مطالبہ کیا جس میں بستیوں کا انہدام، زمینوں پر قبضہ، انفراسٹرکچر کی تباہی، فوجی چھاپے اور الحاق کی کوششیں شامل ہیں۔ بیان میں کہا گیا، "ہم زور دیتے ہیں کہ یروشلم کے مسلم اور عیسائی مقدس مقامات کی "قانونی اور تاریخی حیثیت" کو برقرار رکھا جائے اور اس سلسلے میں ہاشمی سرپرستی کے کلیدی کردار کو تسلیم کرتے ہیں۔"
بیان میں فلسطین کے خلاف امداد کو ہتھیار کے طور پر استعمال کرنے پر اسرائیل کی مذمت کی گئی اور زور دیا گیا کہ غزہ میں امداد کو بلا روک ٹوک داخلہ کی آزادی ہونی چاہئے، اسرائیلی گزرگاہوں کو کھلا رکھنا چاہئے اور ہوائی اور سمندری راستوں کا استعمال کیا جانا چاہئے۔ فلسطینیوں کو بھوکا مارنا ناقابل جواز ہے۔
یہ بھی پڑھئے: ۲۰؍ لاکھ فلسطینی بدترین فاقہ کا شکار ہوسکتے ہیں: اُنروا کا انتباہ
بیان میں مزید کہا گیا کہ عالمی عدالتِ انصاف کے ۲۰۲۴ء کے فیصلے کے بعد بین الاقوامی برادری نے سیاسی عمل کو دوبارہ شروع کرنے پر توجہ مرکوز کرنی چاہئے تاکہ قبضہ کا خاتمہ ہو۔ اس میں اقوام متحدہ کی قراردادوں، میڈرڈ شرائط اور عرب امن اقدام کی بنیاد پر دو ریاستی حل شامل ہے جو ۱۹۶۷ء کی سرحدوں پر یروشلم کے ساتھ فلسطینی ریاست کی حمایت کرتا ہے۔ بیان کے مطابق، اسرائیل اور فلسطین کے پرامن بقائے باہمی کو یقینی بنانے کیلئے "ایک واضح پابند نظام الاوقات" ضروری ہے، جو مشرق وسطیٰ کی سلامتی اور انضمام کو فروغ دینے کی کوشش کرے گا۔