Updated: February 13, 2025, 12:19 PM IST
| Dhaka
اقوام متحدہ کی ایک حالیہ رپورٹ میں بنگلہ دیش میں ۴۵؍ دنوں تک طلبہ کے احتجاج، جس کے نتیجے میں شیخ حسینہ کی حکومت کا خاتمہ ہوا تھا، ۱۴۰۰؍ افراد کی ہلاکت کا تخمینہ لگا یا ہے۔جس میں زیادہ تر حفاظتی اہلکاروں کے ذریعے ہلاک کئے گئے، ساتھ ہی مہلوکین میں ۱۲؍ سے ۱۳؍ فیصد تعداد بچوں کی ہے۔
بنگلہ دیش طلبہ کے احتجاج کا ایک منظر۔ تصویر: آئی این این
اقوام متحدہ کی ایک حالیہ رپورٹ میں بنگلہ دیش میں ۴۵؍ دنوں تک طلبہ کے احتجاج، جس کے نتیجے میں شیخ حسینہ کی حکومت کا خاتمہ ہوا تھا، ۱۴۰۰؍ افراد کی ہلاکت کا تخمینہ لگا یا ہے۔جس میں زیادہ تر حفاظتی اہلکاروں کے ذریعے ہلاک کئے گئے، ساتھ ہی مہلوکین میں ۱۲؍ سے ۱۳؍ فیصد تعداد بچوں کی ہے۔
سابقہ حکومت نے اپنا اقتدار بچانے کیلئے مظاہرین کا قتل کیا۔ اقوام متحدہ نے خبردار کیا کہ یہ ’’ انسانیت کے خلاف جرائم ‘‘کے مترادف ہو سکتا ہے۔
یہ بھی پڑھئے: ۲۰۲۴ ء میں ہلاک ہونے والے ۷۰؍ فیصد صحافیوں کی موت کیلئے اسرائیل ذمہ دار
تشدد کے بارے میں اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ سابق حکومت نےپرتشدد ذرائع سے بڑھتے ہوئے مظاہروں کو دبانے کی کوشش کی تھی۔جس میں ۱۴۰۰؍ افراد کے ہلاک ہونے کا خدشہ ہے ، جبکہ ہزاروں افراد زخمی ہوئے۔رپورٹ کے مطابق عبوری حکومت کے ۸۳۴؍ ہلاکتوں کے اندازے سے یہ تعداد کہیں زیادہ ہے۔مزید یہ کہ دفتر کے پاس اس بات پر یقین کرنے کی معقول بنیادیںہیں کہ اس دوران انسانیت کے خلاف قتل، تشدد، قید، غیر انسانی کارروائیوں کا ارتکاب کیا گیا تھا۔رپورٹ کے مطابق حکومت کی جانب سے ارتکاب کئے گئے جرائم میں عوامی لیگ پارٹی کے ارکان، بنگلہ دیشی سیکیورٹی اور انٹیلی جنس سروسز شامل تھے۔
۷۷؍ سالہ معزول شیخ حسینہ ہمسایہ ملک ہندوستان فرار ہو گئی تھیں،جبکہ انہوں نے انسانیت کے خلاف جرائم کے مقدمے کا سامنا کرنے کیلئے جاری وارنٹ سے انکار کر چکی ہیں۔ اقوام متحدہ کے دفتر نے عبوری حکومت کے سربراہ محمد یونس کی درخواست پر حقائق جو جاننے کیلئے تفتیش کاروں، فارنسک تجزیہ کار اور ہتھیاروں کےماہرین پر مشتمل ایک وفد بنگلہ دیش روانہ کیاتھا۔یونس نے اس رپورٹ کا خیر مقدم کیا ہے، اپنے بیان میں انہوں نے کہا کہ ’’ ہم بنگلہ دیش کو ایک ایسے ملک میں تبدیل کرنا چاہتے ہیں جس میں اس کے تمام باشندے سلامتی اور وقار کے ساتھ رہ سکیں۔‘‘
یہ بھی پڑھئے: غزہ خالی سرزمین نہیں ۲۰؍ لاکھ لوگوں کا وطن ہے: فرانسیسی صدر میکرون
بدھ کو شائع ہونے والی یہ رپورٹ بنیادی طور پر متاثرین، گواہوں، احتجاجی رہنماؤں، حقوق کے محافظوں اور دیگر کے ساتھ ۲۳۰؍سے زیادہ انٹرویو، میڈیکل کیس فائلوں کے جائزوں، اور تصاویر، ویڈیوز اور دیگر دستاویزات پر مبنی ہے۔ٹیم نے اس بات کا تعین کیا کہ سیکورٹی فورسز نے تمام بدامنی کے دوران حسینہ کی حکومت کی حمایت کی تھی۔اقوام متحدہ کے حقوق کے سربراہ وولکر ترک نے کہا،کہ ’’ یہ ظالمانہ طرز عمل عوام کی مخالفت کے باوجود اقتدار پر قابض رہنے کیلئے ایک مربوط حکمت عملی تھی۔‘‘ ترک نے کہا کہ ان کے دفتر کی طرف سے جمع کی گئی شہادتیں اور شواہد بڑے پیمانے پر ریاستی تشدد اور ٹارگٹ کلنگ کی پریشان کن تصویر پیش کرتے ہیں۔‘‘
یہ بھی پڑھئے: بنگلہ دیش: شیخ حسینہ کی برطرفی کے بعد پہلی دفعہ دسمبر ۲۰۲۵ء میں انتخابات منعقد ہوگے
اس رپورٹ میں صنفی بنیادوں پر بھی تشدد کی نشاندہی کی گئی ہے جس میں عصمت دری کی دھمکیاںشامل ہیں تاکہ خواتین کو احتجاج میں حصہ لینے سے باز رکھا جائے۔ حقوق کے دفتر نے کہا کہ اس کی ٹیم نے یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ ’’پولیس اور دیگر سیکورٹی فورسز نے بچوں کو قتل اور معذور کیا، اور انہیں من مانی گرفتاری ، غیر انسانی حالات میں حراست اور تشدد کا نشانہ بنایا۔ــ‘‘ ترک نے کہا، قومی شفایابی اور بنگلہ دیش کے مستقبل کیلئے احتساب اور انصاف ضروری ہے۔‘‘انہوں نے مزید کہا کہ ’’ ان کا مقصد اس بات کو یقینی بنانا ہے کہ انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزی دوبارہ نہ ہو سکے۔‘‘