• Fri, 18 October, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

دنیا بھر میں ۳۷۰؍ ملین خواتین نے ۱۸؍ سال کی عمر سے پہلے جنسی تشدد کا سامنا کیا ہے: یونیسیف

Updated: October 14, 2024, 7:11 PM IST | Washington

یونیسیف کی رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ دنیا بھر میں موجود ۳۷۰؍ ملین سے زائد خواتین اور لڑکیوں سے ۱۸؍ سال کی عمر سے قبل عصمت دری کا جنسی استحصال کا سامنا کیا ہے۔رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ بچپن میں جنسی تشدد کے بچوں پر گہرے اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ یونیسیف کی ایگزیکٹیو ڈائریکٹر کیتھرین روسیل نے کہا کہ ’’بچوں کے خلاف جنسی تشدد ہمارے ضمیر پر داغ ہے۔‘‘

Photo: X
تصویر: ایکس

اس ہفتے یونیسف کی جانب سے جاری کی گئی رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ ’’دنیابھر میں موجود ۳۷۰؍سے زائد خواتین کو ۱۸؍سال سے قبل عصمت دری یا جنسی استحصال کا نشانہ بنایا گیا ہے۔ بچوں کے خلاف جنسی تشدد کی اس رپورٹ میں، جو لڑکیوں کے عالمی دن ۱۱؍ اکتوبر سے ایک دن پہلے شائع ہوئی تھی، میں انکشاف بتایا گیا ہے کہ ’’دنیا بھر میں ۸؍ میں سے ایک بچی کو جنسی استحصال کا نشانہ بنایا گیا ہے۔ ‘‘
رپورٹ کے مطابق ’’بغیر چھوئے جنسی تشدد ‘‘، جن میں آن لائن اور زبانی استحصال شامل ہیں، کا نشانہ بنائے جانے والی خواتین یا لڑکیوں کی تعداد عالمی سطح پر ۶۵۰؍ ملین ہوچکی ہے یا ۵؍ میں سے ایک خاتون یا لڑکی کو جنسی تشدد کا نشانہ بنایا گیا ہے۔‘‘ رپورٹ میں زور دیا گیا ہے کہ ’’ہر قسم کے تشدد اور استحصال کو ختم کرنے کیلئے فوری اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔ ڈیٹا کے مطابق سب سے زیادہ جنسی تشدد کا نشانہ لڑکیوں یا خواتین کو بنایا گیا ہے اور ان کے بیانات بھی درج کئے گئے ہیں لیکن لڑکوں اور مردوں کو بھی جنسی استحصال کا نشانہ بنایا گیا ہے۔ اندازے کے مطابق ۲۴۰؍ تا ۳۱۰؍ ملین لڑکے اور آدمی، یا ۱۱؍ میں سے ایک لڑکے یا آدمی، نے بچپن میں جنسی استحصال یاجنسی زیادتی کا سامنا کیا ہے۔ ’’بغیر چھوئے جنسی تشدد ‘‘ کی تعداد کو شامل کرنے پر یہ تعداد ۴۱۰؍ اور ۵۳۰؍ ملین ہوجاتی ہے۔‘‘

یہ بھی پڑھئے: ایس ٹی بس کے کرایہ میں ۱۰؍فیصد کاعارضی اضافہ

 بچوں کے خلاف تشدد ’’ہمارے ضمیر پر داغ ہے‘‘: کیتھرین روسیل
 یونیسیف کی ایگزیکٹیو ڈائریکٹر کیتھرین روسیل نے کہا کہ ’’بچوں کے خلاف جنسی تشدد ’’ہمارے اخلاقی ضمیر پر داغ ہے۔ جنسی استحصال کے بچوں کی زندگی پر گہرے اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ اکثر بچوں کو جنسی تشدد کا نشانہ ایسے افرادکے ذریعے بنایا جاتا ہےجنہیں ان پر بھروسہ ہوتا ہے اور جنہیں وہ اچھے سے جانتے ہیں۔ ایسا اکثر ان مقامات پر ہوتا ہے جہاں بچے خود کو محفوظ سمجھتے ہیں۔‘‘

یہ بھی پڑھئے: بابا صدیقی کا قتل حکومت کی نااہلی کا نتیجہ، ریاست میں نظم ونسق کی قلعی کھل گئی

رپورٹ کے ڈیٹا کے مطابق ’’بچوں کے خلاف وسیع پیمانے پر جنسی تشدد کیا جا رہا ہے ۔جنسی استحصال سے متاثرہ افراد کی سب سے زیادہ تعداد ’’سب صحارن افریقہ‘‘ میں ہے جہاں ۷۹؍ ملین (۲۲؍ فیصد) خواتین اور لڑکیوں کو جنسی استحصال کانشانہ بنایا گیا ہے۔ اس کے بعد مشرقی اور جنوب مشرقی ایشیاء کا نمبر ہے جہاں متاثرین کی تعداد ۷۵؍ ملین (۸؍ فیصد) ہے۔ وسطی اور جنوبی ایشیاء میں متاثرہ افراد کی تعداد۷۳؍ ملین یعنی (۹؍ فیصد) ہے۔ ‘‘رپورٹ کے مطابق ’’یورپ اور شمالی امریکہ میں ۶۸؍ ملین (۱۴؍ فیصد)،لاطینی امریکہ اور کیریبین میں ۴۵؍ ملین (۱۸؍ فیصد)، شمالی افریقہ اور مغربی ایشیاء میں ۲۹؍ ملین (۱۵؍ فیصد) اور اوشیانہ میں ۶؍ ملین (۳۴؍ فیصد) افراد کو جنسی استحصال کا نشانہ بنایا گیا ہے۔ ‘‘

یہ بھی پڑھئے: ممبئی سے نیویارک جانے والے طیارے کو بم سے اڑانے کی دھمکی، رخ تبدیل

زیادہ تر بچوں کو نوبلوغیت میں جنسی استحصال کا نشانہ بنایا جاتا ہے
رپورٹ کے مطابق’’ زیادہ تر جنسی تشدد نوبلوغیت کے دوران ہوتے ہیں جن میں متاثرہ بچوں کی تعداد زیادہ تر ۱۴؍ سے ۱۷؍ سال ہوتی ہے۔ تحقیق کے مطابق وہ بچے جنہوں نے جنسی تشدد کا سامنا کیا ہوتا ہے ان کے متعدد مرتبہ استحصال کا سامنا کرنے کا خوف زیادہ ہوتا ہے۔ نوبلوغیت کے دوران بچوںکے ساتھ اس طرح کے گھناؤنے جرائم کو روکنے کیلئے اقدامات ضروری ہیں کیونکہ جنسی استحصال بچوں کیلئےذہنی و جذباتی صدمہ بن جاتا ہے۔جنسی استحصال کا سامنا کرنے والے بچوں کیلئے جوانی میں کئی مشکلات پیش آتی ہیں۔ ان کیلئے جنسی طور پر منتقل ہونے والی بیماریوں، سماجی تنہائی اور دماغی بیماریوں، جیسے ڈپریشن اور اینزائیٹی، میں مبتلا ہونے کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔‘‘رپور ٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ ’’ثبوتوں کے مطابق بچوں پر اس کے گہرے اثرات اس وقت مرتب ہوتے ہیں جب بچے اپنے تجربات اپنے بڑوں سے بیان کرنے میں گھبراتے ہیں۔‘‘

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK