Inquilab Logo Happiest Places to Work

اردو ہندوستان میں پیدا ہوئی، اسے کسی مذہب سے جوڑا نہیں جا سکتا: سپریم کورٹ

Updated: April 16, 2025, 3:23 PM IST | Inquilab News Network | New Delhi

اردو کے مذہبی یا غیر ملکی زبان ہونے کے وسیع تر دعوے کا جواب دیتے ہوئے، کورٹ نے کہا کہ اردو کی جڑیں ہندوستان میں ہیں۔ کورٹ نے زور دیا کہ زبان مذہب کی نمائندگی نہیں کرتی؛ یہ ایک برادری، علاقے یا لوگوں کی ہوتی ہے۔

Supreme Court. Photo: INN
سپریم کورٹ۔ تصویر: آئی این این

سپریم کورٹ نے منگل کو مہاراشٹر کے ایک میونسپل کونسل کے نام کے سائن بورڈ پر اردو کے استعمال کی توثیق کی اور کہا کہ اردو عوام کی زبان ہے، اسے کسی مذہب سے نہیں جوڑا جا سکتا اور مہاراشٹر میں مراٹھی کے ساتھ اس کے استعمال پر کوئی قانونی پابندی نہیں ہے۔ کورٹ نے پاتور شہر کی سابق کونسلر ورشاتائی سنجے باگڑے کی درخواست مسترد کر دی، جنہوں نے پاتور میونسپل کونسل کے سائن بورڈ پر اردو کے استعمال کو چیلنج کیا تھا۔ جسٹس سدھانشو دھولیا اور جسٹس کے ونود چندرن کی بنچ نے کہا کہ اردو اور مراٹھی کو آئین کے تحت یکساں درجہ حاصل ہے۔ عدالت نے اس دعوے کو بھی مسترد کیا کہ مہاراشٹر میں سائن بورڈز پر صرف مراٹھی کا استعمال ہونا چاہئے۔

سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں افسوس کا اظہار کیا کہ ہندوستان میں پیدا ہونے کے باوجود اردو کو مسلمانوں سے جوڑا گیا، جو حقیقت پر مبنی نہیں ہے۔ کورٹ نے ہندی کو ہندوؤں اور اردو کو مسلمانوں سے جوڑنے کیلئے نوآبادیاتی طاقتوں کو بھی مورد الزام ٹھہرایا۔ کورٹ نے کہا، “یہ اردو کے عروج و زوال پر تفصیلی بحث کا موقع نہیں ہے، لیکن اتنا کہا جا سکتا ہے کہ ہندی اور اردو کے اس امتزاج کو دونوں جانب کے سخت گیر عناصر نے روکا اور ہندی میں سنسکرت کے زیادہ الفاظ شامل کئے گئے اور اردو میں فارسی کے۔ نوآبادیاتی طاقتوں نے اس تقسیم کا مذہبی بنیادوں پر فائدہ اٹھایا۔ ہندی کو ہندوؤں کی اور اردو کو مسلمانوں کی زبان سمجھا گیا، جو حقیقت سے ایک افسوسناک انحراف ہے؛ یہ تنوع میں اتحاد اور عالمگیر بھائی چارے کے تصور سے پرے ہے۔”

یہ بھی پڑھئے: ہندوستان میں مسلمانوں کے خلاف نفرت کی مہم اب پارک اور بیوٹی پارلر تک پہنچ گئی

کورٹ نے زور دیا کہ اردو کی جڑیں ہندوستان میں ہیں اور اسے کسی مخصوص مذہب سے نہیں جوڑا جا سکتا۔ عدالت نے اپنے فیصلے میں کہا، “اردو کے خلاف تعصب اس غلط فہمی سے پیدا ہوتا ہے کہ اردو ہندوستان کیلئے اجنبی ہے۔ یہ رائے غلط ہے کیونکہ اردو، مراٹھی اور ہندی کی طرح ایک ہند-آریائی زبان ہے جو اسی سرزمین پر پیدا ہوئی۔ اردو ہندوستان میں مختلف ثقافتی پس منظر کے افراد کے خیالات کے تبادلے اور رابطے کی ضرورت کی وجہ سے پروان چڑھی۔ صدیوں تک اس نے بہت زیادہ نفاست حاصل کی اور کئی مشہور شعراء کی پسندیدہ زبان بنی۔”  

باگڑے نے دعویٰ کیا تھا کہ مہاراشٹر لوکل اتھارٹیز (آفیشل لینگویجز) ایکٹ، ۲۰۲۲ء کے تحت اردو کا استعمال ناجائز ہے۔ کورٹ نے اس سے اتفاق نہیں کیا اور کہا کہ مراٹھی کے علاوہ اردو کے استعمال پر کوئی قانونی پابندی نہیں ہے اور یہ درخواست زبان اور قانون کے بارے میں غلط فہمی پر مبنی تھی۔ کورٹ نے کہا، “۲۰۲۲ء کے ایکٹ یا قانون کے کسی حصے میں اردو کے استعمال پر پابندی نہیں ہے۔ مراٹھی اور اردو کو ہندوستان کے آئین کی آٹھویں شیڈول کے تحت یکساں مقام حاصل ہے۔” واضح رہے کہ میونسپل کونسل نے ۲۰۲۰ء میں باگڑے کی درخواست مسترد کر دی تھی اور کہا تھا کہ ۱۹۵۶ء سے سائن بورڈز پر اردو استعمال ہو رہی ہے اور مقامی آبادی اسے خوب سمجھتی ہے۔ باگڑے نے اسے بمبئی ہائی کورٹ میں چیلنج کیا تھا جس نے ان کی درخواست کو ۲۰۲۱ء میں مسترد کردیا تھا۔ اس کے بعد باگڑے نے سپریم کورٹ سے رجوع کیا۔

یہ بھی پڑھئے: زبان کی بحث کے درمیان وزارت داخلہ کی ویب سائٹ کا یو آر ایل ہندی کردیا گیا

سپریم کورٹ نے پایا کہ پاتور میونسپل کونسل طویل عرصے سے مقامی سائن بورڈز کیلئے اردو کا استعمال کرتا آیا ہے، اور یہ چیلنج ایک کونسلر نے کیا، نہ کہ چیف آفیسر نے، جو مہاراشٹر میونسپل کونسلز ایکٹ کے تحت اعتراض کرنے کا قانونی اختیار رکھتا ہے۔ کورٹ نے کہا کہ اردو میں سائن بورڈ رسائی اور عوامی رابطے کا معاملہ ہے، نہ کہ سیاست یا مذہب کا۔ فیصلے میں مزید کہا گیا، “زبان خیالات کے تبادلے کا ذریعہ ہے جو متنوع نظریات اور عقائد رکھنے والے لوگوں کو قریب لاتی ہے اور اسے ان کی تقسیم کا سبب نہیں بننا چاہئے۔ اگر میونسپل کونسل کے علاقے میں رہنے والے لوگ یا ایک گروہ اردو سے واقف ہے تو سرکاری زبان یعنی مراٹھی کے علاوہ اردو کے استعمال پر اعتراض نہیں ہونا چاہئے، کم از کم میونسپل کونسل کے سائن بورڈ پر۔”

اردو کے مذہبی یا غیر ملکی زبان ہونے کے وسیع تر دعوے کا جواب دیتے ہوئے، کورٹ نے کہا کہ اردو کی جڑیں ہندوستان میں ہیں۔ کورٹ نے زور دیا کہ زبان مذہب کی نمائندگی نہیں کرتی؛ یہ ایک برادری، علاقے یا لوگوں کی ہوتی ہے۔ فیصلے میں مزید کہا گیا، “ہمارے تصورات واضح ہونے چاہئیں۔ زبان مذہب نہیں ہے، نہ ہی یہ مذہب کی نمائندگی کرتی ہے۔ زبان ایک برادری، علاقے، لوگوں کی ہوتی ہے؛ مذہب کی نہیں۔ زبان ثقافت ہے۔ زبان ایک برادری اور اس کے لوگوں کی تہذیبی ترقی کا پیمانہ ہے۔ اردو اس کا بہترین نمونہ ہے، جو گنگا-جمنی تہذیب یا ہندوستانی تہذیب کی بہترین عکاسی کرتی ہے جو شمالی اور وسطی ہندوستان کے میدانوں کی جامع ثقافتی روح ہے۔ لیکن زبان سیکھنے کا ذریعہ بننے سے پہلے اس کا اولین مقصد ہمیشہ رابطہ رہے گا۔” بنچ نے یہ بھی اجاگر کیا کہ اردو ہندوستانی قانونی منظرنامے اور عدالتوں میں کس قدر گہری جڑیں رکھتی ہے۔ عدالت نے کہا: “عدالتی اصطلاحات پر، خواہ وہ فوجداری ہو یا دیوانی قانون، اردو کے الفاظ کا گہرا اثر ہے۔ عدالت سے لے کر حلف نامہ اور پیشی تک، ہندوستانی عدالتوں کی زبان میں اردو کا اثر نمایاں ہے۔” 

یہ بھی پڑھئے: ہندوستان میں مسلمانوں کو پولیس کے مظالم کا سامنا، مجرموں کو تحفظ: ایس پی آئی آر رپورٹ میں انکشاف

درخواست کو مسترد کرتے ہوئے، کورٹ نے کہا کہ سائن بورڈ پر مراٹھی کے ساتھ اردو کا موجود ہونا کسی قانونی یا آئینی شق کی خلاف ورزی نہیں کرتا۔ بنچ نے زور دیا کہ ہندوستان کی لسانی تنوع کے ساتھ ایماندارانہ تعامل کے ذریعے زبانوں کے خلاف ذاتی غلط فہمیوں یا تعصبات کا مقابلہ اور دوبارہ جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔ کورٹ نے کہا، “ہماری غلط فہمیوں، شاید زبان کے خلاف ہمارے تعصبات کو، ہمت اور سچائی کے ساتھ اس حقیقت کے مقابلے میں جانچنا ہوگا، جو ہماری قوم کیلئے عظیم تنوع ہے: ہماری طاقت کبھی ہماری کمزوری نہیں ہو سکتی۔ آئیے اردو اور ہر زبان سے دوستی کریں۔”

باگڑے کی نمائندگی ایڈووکیٹس کنال چیمہ، ستیجیت سنگھ رگھووانشی اور رگھو دیشپانڈے نے کی۔ مدعا علیہان کی نمائندگی ایڈووکیٹس پریت ایس فانسے، سدھارتھ دھرما دھکاری اور آدتیہ انیرودھ پانڈے نے کی۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK