• Sat, 22 February, 2025
  • EPAPER

Inquilab Logo Happiest Places to Work

امریکہ: فلسطین حامی طلبہ کو نشانہ بنانے والا کولمبیا یونیورسٹی کے سابق طلبہ کا واٹس ایپ گروپ بے نقاب

Updated: February 18, 2025, 9:58 PM IST | Inquilab News Network | New York

انادولو ایجنسی نے دی انٹرسیپٹ کی رپورٹ پر تبصرہ کرنے کیلئے کولمبیا یونیورسٹی سے رابطہ کیا اور استفسار کیا کہ آیا کسی طالب علم کو ملک بدر کر دیا گیا ہے، لیکن اسے فوری جواب موصول نہیں ہوا۔

Photo: INN
تصویر: آئی این این

امریکہ میں کولمبیا یونیورسٹی کے سابق طلبہ اور انتہائی دائیں بازو کے صیہونیوں کا ایک نجی واٹس ایپ گروپ بے نقاب ہو گیا ہے جو فلسطین کے ساتھ اظہار یکجہتی اور فلسطین حامی مظاہروں میں شامل ہونے والے طلبہ اور اساتذہ کی شناخت، انہیں نشانہ بنانے اور ممکنہ طور پر ملک بدر کرنے کی کوششوں کے مرکز کے طور پر سرگرم تھا۔

دی انٹرسیپٹ کی شائع کردہ ایک رپورٹ میں انکشاف ہوا ہے کہ "کولمبیا ایلومنائی فار اسرائیل Columbia Alumni For Israel" نامی واٹس ایپ گروپ میں ایک ہزار سے زائد ممبران شامل ہیں اور گروپ میں فعال طور پر اس بات پر تبادلہ خیال کیا جاتا ہے کہ قانون نافذ کرنے والے اداروں اور امریکی امیگریشن اینڈ کسٹمز انفورسمنٹ (آئی سی ای) کو فلسطین حامی مظاہرین کے متعلق اطلاع کیسے دی جائے۔ دی انٹرسیپٹ کے ذریعہ حاصل کردہ گروپ چیٹ کے اسکرین شاٹس کے مطابق، گروپ ممبران نے اکثر فلسطینی، عرب اور مسلمان طلبہ کو نشانہ بنایا ہے اور ان کے احتجاج کو "حماس کی حمایت" کی علامت قرار دیتے ہوئے غیر ملکی طلبہ کو ملک بدر کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ 

رپورٹ کے مطابق، گروپ ممبران اس بات کی بھی منصوبہ بندی کرتے تھے کہ تصاویر شیئر کرکے اور جدید ٹیکنالوجی کا استعمال کرکے ویزا پر طلبہ کی شناخت کرنے می آئی سی ای کی کس طرح مدد کی جاسکتی ہے۔ کولمبیا کے ٹیچرز کالج کی سابق اسسٹنٹ پروفیسر لین برسکی تامم نے گروپ میں تبصرہ کیا تھا کہ کولمبیا کے طلبہ میں حماس کے ہمدردوں کی شناخت کرنا ان افراد کو ملک بدر کرنے میں کلیدی حیثیت رکھتا ہے جو طالب علم کے ویزے پر یہاں آئے ہیں۔

یہ بھی پڑھئے: امریکی سینیٹر نے ٹرمپ کا غزہ منصوبہ مسترد کیا، کہا عرب ممالک کے پاس بہتر متبادل

`ہمیں ان سے چھٹکارا حاصل کرنا ہوگا`

دی انٹرسیپٹ کو ملے اسکرین شاٹس کے مطابق، ایک اور سابق طالب علم وکٹر ملن نے گروپ ممبران پر زور دیا کہ وہ ایسے طلبہ کی نشاندہی کریں جو احتجاج میں شامل ہو سکتے ہیں۔ اس نے لکھا، "اگر کسی ایسے شخص کی تصاویر ہیں جن کی شناخت کی ضرورت ہے (جزوی طور پر غیر واضح چہرے کے ساتھ بھی)، تو مجھے ایسی ٹیکنالوجی تک رسائی حاصل ہے جو اس کام میں مددگار ثابت ہوسکتی ہے۔"

جنوری کے اخیر میں، ایک گروپ ممبر نے اسرائیل کے ذریعے ۶ سالہ ہند رجب کے قتل کے خلاف احتجاج کرنے والے طلبہ کے متعلق ایک مضمون شیئر کیا اور پوچھا کہ مظاہرین کو مالی امداد کون فراہم کر رہا ہے، تو برسکی تامم نے جواب دیا، "نفرت پر مبنی جرائم کیلئے انہیں گرفتار کرنا کافی نہیں ہے۔ ہمیں ان سے چھٹکارا حاصل کرنا ہے۔" انٹرسیپٹ کے مطابق، برسکی-تمام نے رپورٹ پر تبصرہ کرنے سے انکار کر دیا اور ملن نے تبصرہ کی درخواستوں کا جواب نہیں دیا۔

اگرچہ مظاہروں میں شامل طلبہ کی اکثریت امریکی شہریت رکھتی ہے اور اس طرح انہیں ملک بدری سے مستثنیٰ قرار دیا گیا ہے، تاہم گروپ اراکین نے "دہشت گرد تنظیموں سے جڑے مواد کی حمایت" سمیت دیگر قانونی ذرائع سے انہیں نشانہ بنانے کے حربوں پر بھی تبادلہ خیال کیا۔

یہ بھی پڑھئے: امریکہ: ۷۰؍ سے زائد شہری حقوق تنظیموں کی ٹرمپ سے غزہ منصوبہ ترک کرنے کی اپیل

شہری حقوق کی تنظیموں بشمول امریکی-عرب انسداد امتیاز کمیٹی نے اس بات پر خطرے کا اظہار کیا ہے اور اسے طلبہ کے پہلی ترمیم کے حقوق کی خلاف ورزی قرار دیا۔ کمیٹی کے ایگزیکٹیو ڈائریکٹر عابد ایوب نے غزہ میں اسرائیل کے اقدامات پر تنقید کرنے والی فلسطینی اور عرب آوازوں کو خاموش کرنے کی وسیع تر کوششوں کے تناظر میں کہا، "یہ ایک بہت ہی خطرناک نظیر ہے۔"

طلبہ کی ملک بدری کے خلاف کھلا خط

دریں اثنا، کولمبیا کے طلبہ، پوسٹ ڈاکس اور اسرائیل کے سابق طلبہ کے ایک گروپ نے ایک کھلے خط میں امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ کے ۲۹ جنوری کے ایگزیکٹیو آرڈر پر "سخت اعتراض" جتایا۔ گروپ نے کہا، اگرچہ اس آرڈر میں ہمارا (یہودی اور اسرائیلی طلبہ کا) دفاع کرنے کا دعوی کیا گیا ہے لیکن ہم واضح طور پر اعلان کرتے ہیں کہ یہ عمل ہماری حفاظت نہیں کرتا ہے۔ سام دشمنی کا مقابلہ کرنا بہت ضروری ہے، لیکن ٹرمپ انتظامیہ کا ایگزیکٹیو آرڈر اسرائیل کے اقدامات پر سیاسی تنقید کو خاموش کرنے کی کوشش کرتا ہے اور اسرائیل پر ہر قسم کی تنقید کو خطرناک طریقے سے سام دشمنی سے جوڑتا ہے۔" گروپ نے مزید کہا، "ہم اپنے ساتھی کولمبیا کے طلبہ کی ملک بدری کے حکم کی غیر اخلاقی دھمکی کو مسترد کرتے ہیں اور تسلیم کرتے ہیں کہ اس اقدام سے وہ اہم تعلقات منقطع ہو جائیں گے جو تاریخ کے ایک اہم لمحے میں اسرائیلی اور فلسطینی طلبہ کے درمیان پروان چڑھ رہے ہیں۔"

یہ بھی پڑھئے: غزہ: جنگ کے بعد اسپتالوں میں آکسیجن کی شدید قلت: وزارت صحت نے خبردار کیا

یاد رہے کہ غزہ میں اسرائیل کی نسل کشی جنگ کی مخالفت میں طلبہ کی قیادت میں کئی امریکی کالجوں میں جنگ مخالف مظاہرے پھوٹ پڑے تھے۔ کولمبیا یونیورسٹی کی انتظامیہ کو مظاہروں سے نمٹنے کیلئے شدید اقدامات کا سہارا لینے پر سخت تنقید کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ اپریل ۲۰۲۴ء میں صدر نعمت "مینوشے" شفیق نے نیویارک پولیس ڈیپارٹمنٹ کو کیمپس میں فلسطینی حامی مظاہرین کو منتشر کرنے کیلئے بلایا تھا۔ اس اقدام نے نیو یارک شہر اور ملک بھر کی یونیورسٹیوں میں فلسطین حامی مظاہروں کی لہر کو جنم دیا اور ہزاروں طلبہ کولمبیا یونیورسٹی کے طلبہ کے ساتھ اظہار یکجہتی کا اظہار کیا تھا اور اپنی یونیورسٹیوں سے اسرائیل سے مکمل علیحدگی اختیار کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔ انادولو ایجنسی نے دی انٹرسیپٹ کی رپورٹ پر تبصرہ کرنے کیلئے کولمبیا یونیورسٹی سے رابطہ کیا اور استفسار کیا کہ آیا کسی طالب علم کو ملک بدر کر دیا گیا ہے، لیکن اسے فوری جواب موصول نہیں ہوا۔

واضح رہے کہ گزشتہ ماہ ۱۹ جنوری سے جنگ بندی معاہدہ کے نفاذ کے بعد غزہ میں اسرائیل کی نسل کشی پر مبنی جنگ رک گئی ہے۔ ۱۵ ماہ سے زائد عرصہ تک جاری رہنے والی غزہ جنگ میں ۴۸ ہزار ۲۰۰ سے زائد فلسطینی جاں بحق ہوئے ہیں جن میں زیادہ تر خواتین اور بچے شامل ہیں۔ جنگ نے غزہ کو کھنڈر میں تبدیل کرکے رکھ دیا ہے اور تقریباً ۲۰ لاکھ باشندے بے گھر ہو چکے ہیں۔ غزہ کی آبادی خوراک، پانی اور ادویات کی شدید قلت کا سامنا کررہی ہے۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK