امریکہ میں ایک وفاقی جج نے صدر ڈونالڈ ٹرمپ کی پیدائشی حق شہریت کو محدود کرنے کی کوشش کو روک دیا ہے۔ میری لینڈ کی ایک عدالت میں سماعت کے دوران ڈسٹرکٹ جج ڈیبورا بورڈ مین نے کہا کہ شہریت کے قیمتی حق سے انکار ناقابل تلافی نقصان کا باعث بنے گا۔
EPAPER
Updated: February 06, 2025, 8:00 PM IST | Washington
امریکہ میں ایک وفاقی جج نے صدر ڈونالڈ ٹرمپ کی پیدائشی حق شہریت کو محدود کرنے کی کوشش کو روک دیا ہے۔ میری لینڈ کی ایک عدالت میں سماعت کے دوران ڈسٹرکٹ جج ڈیبورا بورڈ مین نے کہا کہ شہریت کے قیمتی حق سے انکار ناقابل تلافی نقصان کا باعث بنے گا۔
امریکہ میں ایک وفاقی جج نے صدر ڈونالڈ ٹرمپ کی پیدائشی حق شہریت کو محدود کرنے کی کوشش کو روک دیا ہے جس سے صدر ٹرمپ کی ایک صدی سے زائد عرصے سے آئین میں درج حق کو ختم کرنے کی کوشش کو دھچکا پہنچا ہے۔ ’’ٹی آر ٹی ورلڈ ‘‘کی رپورٹ کے مطابق گرین بیلٹ میں امریکی ڈسٹرکٹ جج ڈیبورا بورڈ مین نے تارکین وطن کے حقوق کیلئے سرگرم دو گروپوں اور پانچ حاملہ خواتین کے حق میں فیصلہ دیا جنہوں نے دلیل دی تھی کہ ان کے بچوں کو ان کے والدین کے امیگریشن اسٹیٹس کی بنیاد پر غیر آئینی طور پر امریکی شہریت سے محروم کئے جانے کا خطرہ ہے۔ ڈونالڈ ٹرمپ کے پیشرو جو بائیڈن کی جانب سے مقرر کردہ جج نے ملک بھر میں ابتدائی حکم امتناع جاری کرتے ہوئے ٹرمپ کے حکم نامے کو ۱۹؍فروری کو ملک بھر میں نافذ العمل ہونے سے روک دیا۔
یہ بھی پڑھئے: ایچ آر ایف کی شکایت کے بعد سوئس حکام کی مبینہ اسرائیلی جنگی مجرم کے خلاف تحقیقات
میری لینڈ کی ایک عدالت میں سماعت کے دوران ڈسٹرکٹ جج ڈیبورا بورڈ مین نے کہا کہ شہریت کے قیمتی حق سے انکار ناقابل تلافی نقصان کا باعث بنے گا۔ انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ کی نظیر پیدائشی شہریت کے حق کا تحفظ کرتی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ٹرمپ کا حکم۱۴؍ویں ترمیم کی سادہ زبان سے متصادم ہے۔ ڈسٹرکٹ جج ڈیبورا بورڈ مین نے کہا کہ ملک کی کسی بھی عدالت نے کبھی بھی صدر کی تشریح کی توثیق نہیں کی ہے، ٹرمپ کے اقدام پر قدغن لگانے والی یہ پہلی عدالت نہیں ہے، ریاست واشنگٹن کے ایک وفاقی جج نے بھی جنوری میں جاری کئے گئے ٹرمپ کے ایگزیکٹیو آرڈر پر ۱۴؍ دن کا حکم امتناع جاری کردیا تھا۔
ٹرمپ مخالفین کو راحت
بورڈ مین کا کہنا تھا کہ آج امریکی سرزمین پر پیدا ہونے والا تقریباً ہر بچہ پیدائش کے وقت امریکی شہری ہوتا ہے، یہ ہمارے ملک کا قانون اور روایت ہے، یہ قانون اور روایت اس معاملے کے حل تک جوں کی توں ہے اور رہے گی۔ بورڈ مین کے اس حکم سے ٹرمپ کی پالیسی کے مخالفین کو سیئٹل سے تعلق رکھنے والے ایک وفاقی جج کی جانب سے۲۳؍ جنوری کو عائد کئے گئے۱۴؍ روزہ تعطل کے مقابلے میں طویل مدتی راحت ملی ہے۔ جج جان کوفینور نے ٹرمپ کے حکم نامے کو واضح طور پر غیر آئینی قرار دیا تھا۔ جان کوفینور جمعرات کو اس بات پر غور کریں گے کہ کیا اسی طرح ایک ابتدائی حکم امتناع جاری کیا جائے جو مقدمے کے حل تک نافذ العمل رہے گا۔
واضح رہے کہ ۱۴؍ویں ترمیم کے تحت امریکی آئین میں پیدائشی شہریت کا حق شامل ہے جو امریکی سرزمین پر پیدا ہونے والے کسی بھی شخص کو شہری قرار دیتا ہے۔ ٹرمپ کا حکم اس خیال پر مبنی تھا کہ امریکہ میں غیر قانونی طور پر یا ویزا پر موجود کوئی بھی شخص اس ملک کے ’دائرہ اختیار کے تابع‘ نہیں ہے، لہٰذا اسے اس زمرے سے خارج کردیا گیا ہے۔ تارکین وطن کے حقوق کیلئے کام کرنے والی تنظیموں کاسا اور پناہ گزینوں کی وکالت کرنے والے پروجیکٹ کے وکلا کا کہنا تھا کہ ٹرمپ کا حکم امریکی آئین کی۱۴؍ویں ترمیم کی شہریت کی شق میں درج حق کی خلاف ورزی ہے جس کے تحت امریکہ میں پیدا ہونے والا کوئی بھی شخص امریکی شہری ہے۔ یہ مقدمہ ڈیموکریٹک ریاستوں کے اٹارنی جنرلز، تارکین وطن کے حقوق کے حامیوں اور حاملہ خواتین کی جانب سے ٹرمپ کے حکم کو چیلنج کرنے والے کم از کم۸؍ مقدمات میں سے ایک ہے۔ انہوں نے۱۸۹۸ء میں امریکی سپریم کورٹ کے ایک فیصلے کا حوالہ دیا ہے جس میں وانگ کم آرک نامی چین نژاد امریکی شخص کے معاملے میں کہا گیا تھا، جسے اس بنیاد پر امریکہ میں داخل ہونے سے روک دیا گیا تھا کہ وہ شہری نہیں ہے۔ عدالت نے تصدیق کی کہ امریکہ میں پیدا ہونے والے بچوں بشمول تارکین وطن سے پیدا ہونے والے بچوں کو امریکی شہریت دینے سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔