Inquilab Logo Happiest Places to Work
Ramzan 2025 Ramzan 2025

امریکہ: ٹرمپ انتظامیہ کو بڑا جھٹکا، جج نے ایک اور فلسطین حامی طالب علم کی ملک بدری پر روک لگائی

Updated: March 21, 2025, 9:16 PM IST | Inquilab News Network | Washington

سوری کے اٹارنی نے بتایا کہ ناقدین نے سوری کی بیوی صالح کی تصویر کو معلومات کے ساتھ آن لائن شائع کیا جس میں الجزیرہ کے ساتھ ان کی سابقہ ملازمت اور غزہ شہر میں ان کی جائے پیدائش کو حماس کے ساتھ ان کے مبینہ تعلقات کے ثبوت کے طور پر پیش کیا گیا۔

Badr Khan Suri. Photo: X
بدر خان سوری۔ تصویر: ایکس

فلسطین حامی طلبہ کو ملک بدر کرنے کیلئے کوشاں ڈونالڈ ٹرمپ انتظامیہ کو عدلیہ نے ایک اور بڑا جھٹکا دیا ہے۔ ایک امریکی جج نے ٹرمپ انتظامیہ کو واشنگٹن کی جارج ٹاؤن یونیورسٹی میں زیر تعلیم ایک ہندوستانی طالب علم بدر خان سوری کو ملک بدر کرنے سے روک دیا ہے۔ ریاست ورجینیا کے شہر الیگزینڈریا میں امریکی ڈسٹرکٹ جج پیٹریشیا جائلز کے تین پیراگراف پر مشتمل حکم کے مطابق، یہ فیصلہ جمعرات کو عدالت کی طرف سے اٹھائے جانے تک نافذ العمل رہے گا۔

یہ بھی پڑھئے: امریکہ: ہندوستانی ماہر تعلیم بدر خان گرفتار، ’’حماس پروپیگنڈہ‘‘ پھیلانے کا الزام

سوری کے وکیل نے عدالت میں فائل کی گئی درخواست میں کہا کہ سوری کو ان کی اہلیہ کی "فلسطینی شناخت اور آئینی طور پر محفوظ تقریر" کی وجہ سے نشانہ بنایا گیا ہے۔ فائلنگ میں کہا گیا ہے کہ سوری کی حراست سے ان کی آزادانہ تقریر اور مناسب عمل کے حقوق کی خلاف ورزی ہوئی ہے اور کی حراست سے ان کی آزادانہ تقریر اور مناسب عمل کے حقوق کی خلاف ورزی ہوتی ہے اور وفاقی حکام نے یہ ثابت کرنے کیلئے کوئی ثبوت پیش نہیں کیا کہ سوری نے کوئی جرم کیا ہے۔ درخواست کے مطابق، سوری کا کوئی مجرمانہ ریکارڈ نہیں ہے اور ان کے پاس ایک ویزا ہے جو انہیں امریکہ میں بطور اسکالر رہنے کی اجازت دیتا ہے جبکہ ان کی بیوی ایک امریکی شہری ہیں۔ سوری کے اٹارنی حسن احمد کا کہنا ہے کہ امریکی حکام ان کے موکل پر امریکی خارجہ پالیسی کو نقصان پہنچانے کا الزام لگا رہے ہیں اور انہیں ملک بدر کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ احمد نے لکھا، "ٹرمپ انتظامیہ نے ان غیر شہریوں کو سزا دینے کیلئے امیگریشن قانون کو ہتھیار بنانے کے اپنے ارادے کا کھلے عام اظہار کیا ہے جو خاص طور پر اسرائیل سے جڑے معاملات میں امریکی پالیسی کو تنقید کا نشانہ بناتے ہیں۔" سوری کے اٹارنی نے مزید بتایا کہ سوری اور ان کی اہلیہ مفیز صالح "طویل عرصے سے بدتمیزی اور بدنامی کا سامنا کررہے ہیں۔" ناقدین نے صالح کی تصویر کو معلومات کے ساتھ آن لائن شائع کیا جس میں الجزیرہ کے ساتھ ان کی سابقہ ملازمت اور غزہ شہر میں ان کی جائے پیدائش کو حماس کے ساتھ ان کے مبینہ تعلقات کے ثبوت کے طور پر پیش کرنے کی کوشش کی گئی۔

یہ بھی پڑھئے: امریکہ: عدلیہ، ٹرمپ کے اختیارات کو "کمزور" کررہی ہے: وائٹ ہاؤس؛ مسک نے اسے "عدالتی بغاوت" قرار دیا

سوری کو پیر کی رات ان کے ورجینیا کے گھر کے باہر نقاب پوش افسران نے گرفتار کرلیا تھا۔ افسران نے محکمہ ہوم لینڈ سیکیورٹی کے ایجنٹ کے طور اپنی شناخت کی اور انہیں بتایا کہ ان کا ویزا منسوخ کر دیا گیا ہے۔ سوری کے اٹارنی کی فائلنگ کے مطابق، انہیں گرفتاری کے بعد ایک حراستی مرکز میں منتقل کر دیا گیا۔ امریکی محکمہ ہوم لینڈ سیکیورٹی نے سوری پر فلسطینی مزاحمتی گروپ حماس سے تعلقات کا الزام عائد کیا ہے اور کہا کہ سوری نے سوشل میڈیا پر یہود دشمنی پھیلانے میں حصہ لیا ہے۔ تاہم، فاکس نیوز کو جاری کردہ ڈی ایچ ایس کے بیان میں کوئی ثبوت پیش نہیں کیا گیا۔ بیان میں کہا گیا ہے کہ سکریٹری آف اسٹیٹ مارکو روبیو نے یہ طے کیا کہ سوری کی سرگرمیاں "انہیں ملک بدر کئے جانے کا مستحق بناتی ہیں۔" 

اسلامی سیاست کے پروفیسر نادر ہاشمی نے دی ایسوسی ایٹڈ پریس کو بتایا کہ سوری مشرق وسطیٰ اور جنوبی ایشیا میں مذہب اور امن کے موضوع پر تدریس اور تحقیق کررہے ہیں۔ ہاشمی نے مزید کہا کہ سوری فلسطینیوں کیلئے یکجہتی اور ہمدردی محسوس کرتے ہیں لیکن کیمپس میں سیاسی سرگرمیوں میں نمایاں نہیں تھے۔ ہاشمی نے کہا، "ہم نے ۷ اکتوبر ۲۰۲۳ء (جس دن غزہ جنگ شروع ہوئی) کے بعد، درجنوں تقریبات کا اہتمام کیا اور مجھے یاد ہے کہ ان میں سے کسی بھی تقریب میں سوری نظر نہیں آئے۔" ہاشمی الولید سینٹر فار مسلم کرسچن انڈرسٹینڈنگ کے ڈائریکٹر ہیں جہاں سوری پوسٹ ڈاکٹریٹ فیلو ہیں۔

یہ بھی پڑھئے: امریکی جج نے محمود خلیل کے قانونی چیلنج کو مسترد کرنے کی ٹرمپ انتظامیہ کی تجویز مسترد کر دی

یہ مقدمہ، حال ہی میں کولمبیا یونیورسٹی کے ایک ممتاز فلسطینی کارکن محمود خلیل کی ۸ مارچ کو گرفتاری کے بعد سامنے آیا ہے جنہیں غزہ حامی سرگرمیوں پر گرفتار کیا گیا تھا۔ ٹرمپ نے خلیل کی گرفتاری کا خیرمقدم کیا اور کہا کہ یہ "ایک شروعات ہے"۔ تاہم، انتظامیہ کو خلیل کو حراست میں لینے کے بعد شدید احتجاج کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے اور ان کی رہائی کا مطالبہ زور پکڑتا جارہا ہے۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK