امریکی ڈسٹرکٹ جج جیسی فرمن نے اپنے تازہ ترین حکم میں خلیل کی درخواست کو نیو جرسی منتقل کرنے کی تجویز کو قبول کرلیا جبکہ انہیں لوزیانا کی عدالت میں منتقل کرنے کی انتظامیہ کی تجویز کو مسترد کر دیا۔
EPAPER
Updated: March 20, 2025, 10:02 PM IST | Washington
امریکی ڈسٹرکٹ جج جیسی فرمن نے اپنے تازہ ترین حکم میں خلیل کی درخواست کو نیو جرسی منتقل کرنے کی تجویز کو قبول کرلیا جبکہ انہیں لوزیانا کی عدالت میں منتقل کرنے کی انتظامیہ کی تجویز کو مسترد کر دیا۔
ایک امریکی جج نے کولمبیا یونیورسٹی کے زیر حراست طالب علم محمود خلیل کی اپنی گرفتاری کی قانونی حیثیت کے چیلنج کو مسترد کرنے کی ٹرمپ انتظامیہ کی درخواست کو قبول کرنے سے انکار کردیا اور خلیل کی درخواست کو نیو جرسی کی عدالت میں منتقل کرنے کا حکم دیا۔ بدھ کو مین ہٹن میں مقیم امریکی ڈسٹرکٹ جج جیسی فرمن نے اپنے تازہ ترین حکم میں امریکی حکومت کے ساتھ اتفاق رائے کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ خلیل کی درخواست مین ہٹن ضلع میں نہیں سنی جا سکتی۔ تاہم، انہوں نے خلیل کی درخواست کو نیو جرسی منتقل کرنے کی تجویز کو قبول کیا، جبکہ انہیں لوزیانا کی عدالت میں منتقل کرنے کی ٹرمپ انتظامیہ کی تجویز کو مسترد کر دیا۔ لوزیانا کی عدالت کو قدامت پسند اور حکومت کیلئے زیادہ سازگار سمجھا جاتا ہے۔
جج فرمن نے محکمہ انصاف کے اس موقف سے بھی اتفاق کیا کہ ان کے پاس اس کیس کا دائرہ اختیار نہیں ہے۔ انہوں نے حکم دیا کہ کیس کو ریاست نیو جرسی کی وفاقی عدالت میں منتقل کیا جائے، جہاں خلیل کی گرفتاری کو ان کے وکلاء نے چیلنج کیا تھا۔ تاہم، جج نے خلیل کی نظر بندی سے ضمانت پر رہا ہونے کی درخواست پر کوئی فیصلہ نہیں دیا۔
یہ بھی پڑھئے: امریکہ: ہندوستانی ماہر تعلیم بدر خان گرفتار، ’’حماس پروپیگنڈہ‘‘ پھیلانے کا الزام
خلیل کے وکلاء نے استدلال کیا کہ ان کی نظر بندی امریکی آئین کی پہلی ترمیم کے تحت آزادی اظہار کے تحفظات کی خلاف ورزی کرتی ہے۔ انہوں نے عدالتی حکم کو ایک "اہم قدم" قرار دیا۔ خلیل کے وکیل سامہ سیسے نے ایک بیان میں کہا، "مسٹر خلیل کو آزاد اور اپنی بیوی کے ساتھ گھر میں اپنے پہلے بچے کی پیدائش کا انتظار کرنا چاہئے، اور ہم اسے یقینی بنانے کیلئے ہر ممکن کوشش جاری رکھیں گے۔"
نیویارک سول لبرٹیز یونین کی ایگزیکٹیو ڈائریکٹر ڈونا لائبرمین نے ایک بیان میں کہا کہ یہ فیصلہ، انتظامیہ کے غیر آئینی عمل کو روکنے اور خلیل کو نیویارک میں اپنے خاندان کے ساتھ دوبارہ ملانے کی جانب اہم قدم ہے۔
یہ بھی پڑھئے: غزہ: اسرائیلی حملوں میں ۲؍ دنوں میں۴۳۶؍ شہید، ۱۸۳؍ بچے اور ۸۹؍ خواتین شامل
گرفتاری، اظہار رائے کا نتیجہ: خلیل
ممتاز فلسطین حامی کارکن اور امریکی باشندے خلیل، جنہیں امریکی حکام نے کولمبیا یونیورسٹی میں فلسطین حامی سرگرمیوں کی وجہ سے حراست میں لیا تھا، نے لوزیانا میں نظر بندی سے اپنا پہلا خط بھیجا ہے جس میں انہوں نے کہا کہ ان کی گرفتاری آزادی اظہار کا براہ راست نتیجہ ہے اور طلبہ کے احتجاج کی طاقت کا ثبوت ہے۔ خلیل نے اپنے خط میں لکھا، "میرا نام محمود خلیل ہے اور میں ایک سیاسی قیدی ہوں۔ میں لوزیانا میں ایک حراستی مرکز سے آپ کو یہ خط لکھ رہا ہوں، جہاں میں سرد صبح جاگتا ہوں اور قانون کے تحفظ سے محروم بہت سے لوگوں کے خلاف جاری خاموش ناانصافیوں کی گواہی دیتے ہوئے طویل دن گزارتا ہوں۔"
انہوں نے مزید کہا کہ گرفتاری کے وقت ان کی واحد پریشانی ان کی حاملہ بیوی تھی، وفاقی ایجنٹوں نے بیوی کا ساتھ نہ چھوڑنے پر انہیں گرفتاری کی دھمکیاں دیں۔ خلیل نے اپنے خط میں بتایا کہ انہیں ۲۶، فیڈرل پلازہ سے نیو جرسی میں دوسری جگہ منتقل کیا گیا، جہاں انہیں فرش پر سونا پڑا اور ان کی درخواست کے باوجود انہیں کمبل دینے سے انکار کر دیا گیا۔
یہ بھی پڑھئے: فلسطین، پاکستان اور الجیریا کا سلامتی کونسل سے اسرائیل پر لگام کسنے کا مطالبہ
واضح رہے کہ خلیل کو ۸ مارچ کو ہوم لینڈ سیکیورٹی کے ایجنٹوں نے گرفتار کیا تھا۔ صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے خلیل کی گرفتاری کا خیرمقدم کیا اور کہا کہ یہ شروعات ہے۔ تاہم، ہزاروں افراد نے خلیل کی گرفتاری پر احتجاج کیا اور ان کی رہائی کا مطالبہ کیا۔ خلیل کا کیس اب نیو جرسی کی عدالت میں جاری رہے گا، جہاں ان کے وکلاء ان کی رہائی کے لیے قانونی جنگ جاری رکھیں گے۔