Updated: March 21, 2025, 6:29 PM IST
| Washington
امریکی شہری آزادی کی تنظیموں نے محمود خلیل کے حق میںفرینڈ آف کورٹ بریف دائر کی، فاؤنڈیشن فار انڈیویژوئل رائٹس اینڈ ایکسپریشن اور دیگر گروپوں کی جانب سے دائر کردہ امیکس کیوریا میں کہا گیاکہ سیاسی اظہار پر لوگوں کو جیل میں ڈالنا امریکہ کے آزادی اظہار کے عہد سے غداری ہے۔
محمود خلیل۔ تصویر: آئی این این
امریکہ کے کئی شہری آزادی کے گروپوں نے نیو جرسی کی عدالت میں `فرینڈ آف کورٹ، دائر کیا ہے، جس میں ٹرمپ انتظامیہ کی کولمبیا یونیورسٹی کے گریجویٹ محمود خلیل کو ان کے بیان اور فلسطین کی حمایت میں سرگرمیوں کی وجہ سے ملک بدر کرنے کی کوشش کی مذمت کی گئی ہے۔
جمعرات کو فاؤنڈیشن فار انڈیویژوئل رائٹس اینڈ ایکسپریشن ،نیشنل کوئلیشن اگینسٹ سینسرشپ، دی ردرفورڈ انسٹی ٹیوٹ، پین امریکہ، اور فرسٹ امینڈمنٹ لائیرز ایسوسی ایشن کی جانب سے دائر کردہ بریف میں کہا گیا کہ’’اس معاملے میں کوئی غلط فہمی نہیں ہونی چاہیے۔ یہ مقدمہ امریکہ کے آئین اور اس دستاویز کے ذریعے فراہم کردہ تحفظات کے بارے میں ہے جو اس ملک کے شہریوں اور ان غیر شہریوں کو حاصل ہیں جو قانونی طور پر یہاں موجود ہیں اور اس طرح ہمارے مہمان ہیں۔‘‘
یہ بھی پڑھئے: امریکہ: عدلیہ، ٹرمپ کے اختیارات کو "کمزور" کررہی ہے: وائٹ ہاؤس؛ مسک نے اسے "عدالتی بغاوت" قرار دیا
واضح رہے کہ `فرینڈ آف کورٹ (یا امیکس کیوریا) ایک باہر کی جماعت کی جانب سے عدالت میں پیش کردہ درخواست ہوتی ہے، جو عدالت کے فیصلہ سازی میں مدد کیلئے قانونی دلائل اور سفارشات فراہم کرتی ہے۔ بریف میں دلیل دی گئی کہ ٹرمپ انتظامیہ کی جانب سے خلیل کو ملک بدر کرنے کی کوشش، جو کسی جرم میں ملوث نہیں ہیں، پہلی ترمیم کی خلاف ورزی کرتے ہوئے نقطہ نظر پر مبنی امتیاز اور انتقام کی مثال ہے۔اس سے قبل ٹرمپ نے بغیر کسی ثبوت کے خلیل پر فلسطین میں حماس مزاحمتی گروپ کی حمایت کرنے کا الزام لگایا ہے۔ خلیل کی قانونی ٹیم کا کہنا ہے کہ ان کا اس گروپ سے کوئی تعلق نہیں ہے جسے امریکہ نے `غیر ملکی دہشت گرد تنظیم قرار دیا ہے۔
یہ بھی پڑھئے: امریکی جج نے محمود خلیل کے قانونی چیلنج کو مسترد کرنے کی ٹرمپ انتظامیہ کی تجویز مسترد کر دی
ٹرمپ نے فلسطین کی حمایت میں مظاہرہ کرنے والوں پر یہودی مخالف ہونے کا الزام لگایا ہے۔ فلسطین کی حمایت کرنے والے، جن میں بہت سے یہودی گروپس بھی شامل ہیں، کہتے ہیں کہ اسرائیل کی غزہ پر نسل کشی کی جنگ پر تنقید اور فلسطینی حقوق کی حمایت کو امریکی حکومت اور اسرائیل کی جانب سے غلط طور پر یہودی مخالف قرار دیا جا رہا ہے۔ تنظیم نے سپریم کورٹ کے سابق فیصلوں کا حوالہ دیتے ہوئے ایک بیان میں کہا، ۱۹۴۵ءمیں سپریم کورٹ نے فیصلہ دیا تھا کہ غیر شہریوں کو پہلی ترمیم کے مکمل تحفظات کا حق حاصل ہے۔ اور یہ تحفظات غیر مقبول اظہار پر بھی نافذ ہوتے ہیں، خاص طور پر جب یہ اظہار سیاسی بیان ہو۔‘‘
شہری آزادی کے گروپ نے کہا کہ ٹرمپ انتظامیہ سرد جنگ کے دور کے ایک کم استعمال ہونے والے قانون پر انحصار کر رہی ہے جو وزیر خارجہ کو یہ اختیار دیتا ہے کہ وہ قانونی طور پر موجود کسی غیر شہری کو ملک بدر کر سکتا ہے اگر وزیر کو لگتا ہے کہ ان کی موجودگی یا سرگرمیاں امریکی خارجہ پالیسی پر "ممکنہ طور پر سنگین اثر ڈالتی ہیں۔ بریف میں دلیل دی گئی کہ ’’یہ قانون آئینی طور پر مبہم ہے اور وزیر خارجہ کو قانونی مستقل رہائشیوں کو بغیر کسی نوٹس کے ملک بدر کرنے کا غیر محدود اختیار دیتا ہے۔ یہ نہ صرف سرد جنگ کے دور کا قانون ہے، بلکہ یہ قانون `اظہار رائے کو شدید خطرے میں ڈالتا ہے۔ گروپ کے وکیل کولن میکڈونل نے کہا، ’’طالب علموں کو ان کی شہریت کی حیثیت کی بنیاد پر بنیادی سیاسی اظہار پر مختلف معیاروں پر پرکھنا کیمپس میں آزادی اظہار کے لیے زہر ہے۔‘‘
یہ بھی پڑھئے: امریکہ: ہندوستانی ماہر تعلیم بدر خان گرفتار، ’’حماس پروپیگنڈہ‘‘ پھیلانے کا الزام
ٹرمپ انتظامیہ کے غیر شہری مظاہرین کو ملک بدر کرنے اور یونیورسٹیوں کو وفاقی فنڈنگ کاٹنے کی دھمکیوں کے ساتھ، امریکی یونیورسٹی کیمپسز میں آزادی اظہار، خاص طور پر فلسطین کی حمایت میں سرگرمیوں کے لیے، مخالفانہ ماحول بنتا جا رہا ہے۔ خلیل کے علاوہ، کئی طلباء کو حراست میں لیا گیا ہے اور انہیں یونیورسٹی سے نکالے جانے کا سامنا ہے۔ ایک انتہائی دائیں بازو کی صیہونی گروپ، جس نے خلیل کی گرفتاری کا سہرا اپنے سر لیا ہے، نے دعویٰ کیا ہے کہ اس نے اسی طرح کے اقدامات کیلئے ہزاروں نام جمع کرائے ہیں۔