امریکی ٹیرف نے پہلے ہی صارفین کے اعتماد اور کارپوریٹ منصوبہ بندی کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ ایک سروے کے مطابق، ۷۵ فیصد امریکیوں نے قیمتوں میں اضافے کی توقع ظاہر کی ہے۔
EPAPER
Updated: April 09, 2025, 5:03 PM IST | Inquilab News Network | Washington
امریکی ٹیرف نے پہلے ہی صارفین کے اعتماد اور کارپوریٹ منصوبہ بندی کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ ایک سروے کے مطابق، ۷۵ فیصد امریکیوں نے قیمتوں میں اضافے کی توقع ظاہر کی ہے۔
امریکی انتظامیہ نے منگل کو تصدیق کی کہ چینی درآمدات پر نئے اور سخت محصولات جو ۱۰۴ فیصد تک جا پہنچے ہیں، نصف شب سے نافذ ہو جائیں گے۔ دوسری طرف، انتظامیہ، جاپان اور جنوبی کوریا سمیت اہم اتحادیوں کے ساتھ تجارتی مذاکرات شروع کرنے کیلئے تیزی سے کام کر رہا ہے۔ امریکہ-چین تجارتی جنگ میں اس ڈرامائی اضافہ کے بعد سرمایہ کاروں کو اسٹاک مارکیٹ میں مسلسل چوتھے دن نقصان اٹھانا پڑا۔ ایس اینڈ پی ۵۰۰ انڈیکس تقریباً ایک سال میں پہلی بار ۵ ہزار پوائنٹس کے نشان سے نیچے چلاگیا اور ۱۹ فروری کی بلند ترین سطح سے ۱۹ فیصد کمی کے ساتھ بند ہوا۔ ایل ایس ای جی کے اعدادوشمار کے مطابق، ایس اینڈ پی ۵۰۰ میں شامل کمپنیوں گزشتہ بدھ کو ٹرمپ کے محصولات کے اعلان کے بعد سے ۸ء۵ کھرب ڈالر کا نقصان اٹھا چکی ہیں۔ یہ ۱۹۵۰ کی دہائی میں انڈیکس کی شروعات کے بعد کی بدترین چار روزہ گراوٹ ہے۔
یہ بھی پڑھئے: شیئر بازار نے کروٹ بدلی، ۱ء۵؍ فیصد کا اضافہ
عالمی منڈیاں ابتدائی طور پر مذاکرات کی امید پر قائم تھیں لیکن جاپان کے نکئی میں تیز گراوٹ ریکارڈ کے بعد بدھ کی صبح ایشیاء میں مزید خدشات پیدا ہوگئے ہیں۔ ٹرمپ کے محصولات کے اثر انداز ہونے کے ساتھ ہی ایشیائی منڈیوں میں مزید اتار چڑھاؤ دیکھنے مل سکتا ہے۔ ٹرمپ نے قریبی شراکت داروں جیسے جاپان، جنوبی کوریا، اور اٹلی کے ساتھ فوری تجارتی مذاکرات کا شیڈول طے کیا ہے۔ اطالوی وزیراعظم جارجیا میلونی اگلے ہفتے امریکہ کا دورہ کریں گی۔ وائٹ ہاؤس کے حکام نے واضح کیا کہ چین کو مذاکرات میں ترجیح نہیں دی جائے گی۔ انتظامیہ نے بیجنگ پر جوابی بلیک میلنگ کا الزام لگاتے ہوئے مضبوطی سے ڈٹ جانے کا عزم ظاہر کیا۔ ٹرمپ نے کہا، "یہ انتہائی مخصوص معاہدے ہیں۔" انہوں نے زور دیا کہ ۷۰ سے زائد ممالک نے تجارتی مذاکرات میں دلچسپی ظاہر کی ہے۔ وائٹ ہاؤس کے مشیر کیون ہیسٹ نے تصدیق کی کہ مذاکرات کیلئے ابتدائی توجہ اتحادیوں کو دی جائے گی۔ دریں اثنا، امریکی تجارتی نمائندے جیمیسن گریئر نے قانون سازوں کو بتایا کہ انتظامیہ محصولات میں فوری طور پر چھوٹ یا استثنیٰ دینے کا ارادہ نہیں رکھتی۔
ٹیرف نے پہلے ہی صارفین کے اعتماد اور کارپوریٹ منصوبہ بندی کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ ایک سروے کے مطابق، ۷۵ فیصد امریکیوں نے قیمتوں میں اضافے کی توقع ظاہر کی ہے۔ مائیکرون نے بدھ سے سرچارج کی وارننگ دی ہے اور وہ ملبوسات کے خوردہ فروش آرڈرز اور بھرتیوں میں تاخیر کر رہے ہیں۔ فی الحال، ۱۵۵ ڈالر میں فروخت ہونے والے، ویتنام میں بنے اسپورٹس جوتوں کی قیمت، ۴۶ فیصد نئے محصول کی وجہ سے ۲۲۰ ڈالر تک پہنچ سکتی ہے۔
کنیڈا کے وزیراعظم مارک کارنی نے کچھ گاڑیوں پر ۲۵ فیصد جوابی محصولات کا اعلان کیا اور کہا، "صدر ٹرمپ نے یہ تجارتی بحران پیدا کیا اور کنیڈا مقصد اور طاقت کے ساتھ جواب دے رہا ہے۔" کنیڈا اور میکسیکو پر پہلے کے امریکی محصولات اب بھی نافذ ہیں۔ یورپی یونین، جو پہلے ہی امریکی کاروں اور دھاتوں پر محصولات کے بوجھ تلے ہے، سویابین اور ساسیجز سمیت اشیاء پر ۲۵ فیصد جوابی محصولات تیار کر رہی ہے۔ یورپی دواسازی کمپنیوں نے خبردار کیا کہ ٹرمپ کی تجارتی جنگ صنعت کے امریکہ کی طرف ہجرت کو تیز کر سکتی ہے۔
یہ بھی پڑھئے: امریکہ کے سبب ہندوستان پر ’ڈمپنگ ‘ کا خطرہ
کاروباری رہنماؤں کی جانب سے راستہ تبدیل کرنے کی کالوں کے باوجود، ٹرمپ اپنے موقف پر ڈٹے ہوئے ہیں۔ ریپبلکن قانون سازوں سے خطاب میں، انہوں نے دوائیوں کی درآمدات پر "بڑے" محصولات کا وعدہ کیا تاکہ دواسازی کو امریکی سرزمین پر واپس لایا جا سکے۔