وکلاء نے خلیل پر عائد یہود دشمنی کے الزامات کی تردید کیلئے عدالت کے سامنے شواہد پیش کئے جن میں سی این این پر شائع ہوا ایک مضمون شامل ہے جس میں ان کے اس بیان کا حوالہ دیا گیا کہ فلسطینی اور یہودی آزادی منسلک ہیں اور ان کی تحریک میں یہود دشمنی کیلئے کوئی جگہ نہیں ہے۔
محمود خلیل۔ تصویر: آئی این این
کولمبیا یونیورسٹی کے سابق طالب علم اور فلسطینی کارکن محمود خلیل، جو یونیورسٹی کیمپس میں فلسطین حامی مظاہروں کی قیادت کرنے کے الزام میں زیر حراست ہیں اور ملک بدری کے خطرے کا سامنا کر رہے ہیں، کے وکلاء نے امریکی حکومت کے الزامات کو چیلنج کرنے والے شواہد پیش کئے ہیں۔ خلیل کے خلاف ملک بدری کے مقدمے میں، حکومت نے وسیع دستاویزات پیش کئے تھے لیکن خلیل کی قانونی ٹیم نے رہائشی درخواست، میڈیا کوریج اور ملازمت کی تاریخ جیسے شواہد عدالت میں پیش کرکے امریکی انتظامیہ کے دعوؤں میں خامیوں جیسے غیر مصدقہ ٹیبلائڈ ذرائع پر انحصار اور متضاد ٹائم لائنز کو بھی اجاگر کیا۔
این بی سی نیوز نے بتایا کہ اس کی ٹیم نے “حکومت کی جانب سے خلیل کو ملک بدر کرنے کی کوشش میں پیش کی گئی ۱۰۰ سے زائد صفحات کی دستاویزات کا جائزہ لیا۔ ساتھ ہی خلیل کی قانونی ٹیم کی جانب سے دائر کردہ شواہد، جن میں خلیل کی مستقل رہائش کی درخواست، ان کی سرگرمیوں کے بارے میں کئی مضامین اور انٹرن شپ و ملازمت کے تجربات کی تفصیلات پر مشتمل معاہدوں اور خطوط شامل ہیں، کی بھی جانچ کی۔”
یہ بھی پڑھئے: امریکہ: ہارورڈ کا ٹرمپ کے آگے جھکنے سے انکار، یونیورسٹی کی ۲ء۲ ارب ڈالر کی امداد منجمد کردی گئی
ٹرمپ انتظامیہ، جو سیاسی طور پر فعال بین الاقوامی طلبہ کو نشانہ بنا رہی ہے، نے خلیل کے خلاف مختلف الزامات عائد کرتے ہوئے دعویٰ کیا ہے کہ انہوں نے اپنی رہائشی درخواست میں جھوٹ بولا، جو ان کی ملک بدری کا باعث بن سکتا ہے۔ امریکی حکام نے خلیل پر “حماس سے منسلک سرگرمیوں” میں ملوث ہونے کا الزام لگایا اور دعویٰ کیا کہ ان کی سرگرمیوں سے یہودی طلبہ غیر محفوظ محسوس کرتے ہیں اور ان کی موجودگی “امریکی خارجہ پالیسی کیلئے سنگین نتائج” کا باعث ہوگی، حالانکہ اس ضمن میں کوئی ثبوت پیش نہیں کیا گیا۔
گزشتہ ہفتے لوزیانا کے ایک امیگریشن جج نے فیصلہ دیا کہ خلیل کو ایک وفاقی قانون کے تحت، سیکریٹری آف اسٹیٹ مارکو روبیو کے صوابدیدی فیصلے پر ملک بدر کیا جا سکتا ہے۔ گزشتہ ہفتے عدالت میں پیش کردہ اور روبیو کے دستخط شدہ میمو، جو حکومت کا بنیادی ثبوت ہے، میں یہ دلیل پیش دی گئی کہ اگرچہ خلیل کے اقدامات قانونی ہو سکتے ہیں، لیکن انہیں امریکہ میں رہنے کی اجازت دینا یہود دشمنی سے نمٹنے اور یہودی طلبہ کو ہراسانی اور تشدد سے بچانے کی کوششوں کو نقصان پہنچائے گا۔ خلیل کے وکلاء نے یہود دشمنی کے الزامات کی تردید کیلئے عدالت کے سامنے شواہد پیش کئے۔ ان شواہد میں سی این این پر شائع ہوا ایک مضمون شامل ہے جس میں ان کے اس بیان کا حوالہ دیا گیا کہ فلسطینی اور یہودی آزادی منسلک ہیں اور ان کی تحریک میں یہود دشمنی کیلئے کوئی جگہ نہیں ہے۔
یہ بھی پڑھئے: بین الاقوامی طلباء نے امریکی ویزا منسوخی پر ٹرمپ انتظامیہ کے خلاف مقدمات دائرکیا
"ٹرمپ انتظامیہ `غیر مصدقہ ٹیبلائڈ ذرائع` پر انحصار کر رہی ہے"
حکومت کی جانب سے پیش کئے گئے ثبوتوں میں خلیل کی مارچ ۲۰۲۴ء کی رہائشی درخواست شامل ہے جس میں بیروت میں برطانوی سفارت خانے میں ان کے سابقہ کردار کا ذکر ہے۔ اس کی بنیاد پر خلیل پر الزام لگایا گیا کہ انہوں نے ۲۰۲۲ء کے بعد ملازمت جاری رکھی اور اسے چھپایا اور ۲۰۲۵ء کے سوسائٹی فار انٹرنیشنل ڈیولپمنٹ کانفرنس کے پروفائل کا حوالہ دیا جس میں غلطی سے یہ درج ہے کہ وہ اب بھی اس تنظیم کیلئے کام کرتے ہیں۔ تاہم، برطانوی حکومت نے تصدیق کی کہ خلیل نے دو سال سے زائد عرصے سے وہاں کام نہیں کیا۔ خلیل کا معاہدہ دسمبر ۲۰۲۲ء میں ختم ہوا تھا اور سوسائٹی فار انٹرنیشنل ڈیولپمنٹ نے کہا کہ وہ ۲۰۲۰ء میں شرکت کے باوجود ۲۰۲۵ء کی کانفرنس میں شریک نہیں ہوں گے۔
حکومت نے خلیل کے لنکڈ اِن پروفائل اور مضامین کا حوالہ دیتے ہوئے ان پر الزام لگایا کہ انہوں نے ۲۰۲۳ء میں اقوام متحدہ کی فلسطینی پناہ گزینوں کیلئے سرگرم تنظیم ریلیف اینڈ ورکس ایجنسی (انروا) میں “پالیٹیکل افیئرز آفیسر” کے طور پر کردار اور کولمبیا یونیورسٹی اپارٹائیڈ ڈی ویسٹ (سی یو اے ڈی) کے ساتھ شمولیت کو چھپایا۔ انروا نے تصدیق کی کہ خلیل نے بغیر تنخواہ کے ۶ ماہ کی انٹرن شپ مکمل کی، یہ کوئی مستقل عہدہ نہیں تھا اور ایجنسی میں “پالیٹیکل افیئرز آفیسر” کا کوئی عہدہ موجود نہیں ہے۔ خلیل کی قانونی ٹیم نے انروا اور کولمبیا یونیورسٹی کے خطوط سمیت شواہد پیش کئے، جو ان کی انٹرن شپ اور تعلیمی کریڈٹس کی تصدیق کرتے ہیں۔
یہ بھی پڑھئے: فلسطین حامی مواد پر اسرائیل کا کریک ڈاؤن، میٹا نے۹۰؍ ہزار سے زائد پوسٹس حذف کیں
این بی سی نے رپورٹ کیا کہ کچھ معاملات میں، حکومت نے خلیل کے بارے میں غیر مصدقہ ٹیبلائڈ مضامین پر انحصار کیا ہے۔ دیگر معاملات میں حکومتی دعوے واضح طور پر غلط ہیں کیونکہ ٹائم لائنز مطابقت نہیں رکھتیں۔ حکومت نے قدامت پسند روزنامہ نیویارک پوسٹ، ہندوستانی روزنامہ ٹائمز آف انڈیا اور قدامت پسند نیوز سائٹ واشنگٹن فری بیکن کے مضامین کا حوالہ دیتے ہوئے یہ دعویٰ کیا کہ خلیل نے اپنی رہائشی درخواست میں سی یو اے ڈی کے ساتھ شمولیت کو چھپایا۔ یہ سبھی مضامین ان کی درخواست جمع کرانے کے بعد شائع ہوئے۔ مارچ ۲۰۲۵ء کے نیویارک پوسٹ کے ایک مضمون میں خلیل پر سی یو اے ڈی کی قیادت کا الزام لگایا۔
کولمبیا کے سابق طالب علم کے وکلاء نے عدالت کو بتایا کہ خلیل نے یونیورسٹی کے طلبہ مظاہرین کیلئے مذاکراتی اور ترجمان کے طور پر خدمات انجام دیں جن میں سی یو اے ڈی سمیت دیگر گروہوں کا ایک بڑا اتحاد شامل تھا۔ ان کے وکیل نے مزید بتایا کہ سی یو اے ڈی ایک اتحاد ہے، نہ کہ انفرادی رکنیت والی تنظیم، جس سے الزامات بے بنیاد ہیں۔
یہ بھی پڑھئے: امریکی معیشت کو تجارتی جنگ اور ٹرمپ کی پالیسی کے سبب ۲۰؍ ارب ڈالر کا نقصان
جج نے خلیل کو اپیل دائر کرنے کیلئے ۲۳ اپریل تک مہلت دی ہے۔ اگر وہ اس مہلت کو پورا کرنے میں ناکام رہے تو رپورٹس کے مطابق، جج کی جانب سے انہیں شام یا الجزائر ملک بدر کرنے کا حکم جاری کیا جائے گا۔