Inquilab Logo Happiest Places to Work
Ramzan 2025 Ramzan 2025

امریکہ: ٹرمپ انتظامیہ کے خلاف اب تک ۱۳۳؍ قانونی مقدمہ درج

Updated: March 25, 2025, 10:04 PM IST | Washington

وفاقی عدالتوں نے ٹرمپ انتظامیہ کے اقدامات جیسے کہ اخراجات، پیدائشی شہریت، ملک بدری اور وفاقی ملازمین کی برطرفی کو عارضی طور پر روک دیا ہے یا مسترد کر دیا ہے۔ ہم ان میں سے کچھ مقدمات کی موجودہ صورتحال پر نظر ۔

US Supreme Court. Photo: INN
امریکی سپریم کورٹ۔ تصویر: آئی این این

صدر ڈونالڈ ٹرمپ کے ایجنڈے کو عدالتوں میں جزوی طور پر رکاوٹ کا سامنا ہے جہاں ججوں نے امیگریشن پر سخت اقدامات اور ایلون مسک کی حکومتی فضول خرچی کی تحقیقات کو محدود کرنے کی کوششوں کو روک دیا ہے، حالانکہ انتظامیہ کو کچھ فتوحات بھی ملی ہیں اور وہ اپنی شکست کے خلاف اپیل کر رہی ہے۔ قانونی خبروں کی ویب سائٹ ’’جسٹ سیکورٹی‘‘ کے مطابق، عدالتیں ٹرمپ انتظامیہ کے خلاف تقریباً ۱۳۳؍ قانونی مقدمات پر غور کر رہی ہیں۔   

یہ بھی پڑھئے: کولمبیا یونیورسٹی کی فلسطین حامی طالبہ کو ملک بدر کرنے کا حکم، طالبہ نے ٹرمپ انتظامیہ پر مقدمہ کیا

ان مقدمات میں ایک ملک بدری ہے ۔ ایک وفاقی جج نے عارضی طور پر ٹرمپ انتظامیہ کو ہدایت کی ہے کہ وہ ایل سلواڈور کے ایک بڑے جیل میں سینکڑوں مبینہ وینزویلا گینگ اراکین کو ملک بدر کرنے سے روکے۔ اس حکم کے بعد تین ملک بدری کی پروازیں وہاں پہنچیں،لیکن حکومت نے اس کی خلاف ورزی کی۔انتظامیہ کا کہنا ہے کہ مقدمے کی سماعت کرنے والے جج جیمز بوسبرگ کے پاس ’’ ایلین اینیمیز ایکٹ ‘‘کے تحت ملک بدری کو روکنے کا اختیار نہیں ہے۔بوسبرگ نے کہا کہ انہیں شک ہے کہ انتظامیہ اس قانون کو ملک بدری پر نافذ کر سکتی ہے کیونکہ یہ جنگ کے دوران دشمنوں کیلئے بنایا گیا تھا۔ انہوں نے پروازوں کے صحیح اوقات اور انتظامیہ کی طرف سے ان کے حکم کی تعمیل کے بارے میں جوابات بھی طلب کیے ہیں، اور اب تک کے جوابات کو ’’ناقابل قبول ‘‘قرار دیا ہے۔ پیر کو، بوسبرگ نے ٹرمپ انتظامیہ کی درخواست مسترد کر دی جس میں اس ماہ کے شروع میں عارضی طور پر ملک بدری پر لگائی گئی پابندی ہٹانے کی درخواست کی گئی تھی۔ ججوں نے انتظامیہ کو کئی طلباء اور اساتذہ کو ملک بدر کرنے سے بھی عارضی طور پر روک دیا ہے جنہوں نے کالج کیمپس میں فلسطین کے حق میں مظاہرے کیے تھے۔ مظاہرین کے وکلاء کا کہنا ہے کہ وہ قانونی طور پر امریکہ میں رہ رہے ہیں اور سیاسی وجوہات کی بنا پر ناجائز طور پر نشانہ بنائے جا رہے ہیں۔  

یہ بھی پڑھئے: امریکہ سے ملک بدر کئے گئے جنوبی افریقہ کے سفیر ابراہیم رسول کا زبردست استقبال

اس کے علاوہ ۲۰؍مارچ کو ایک جج نے ایلون مسک کی ’’ڈیپارٹمنٹ آف گورنمنٹ ایفیشنسی‘‘ (ڈوج) کو سوشل سیکورٹی ایڈمنسٹریشن کے لاکھوں امریکیوں کے ڈیٹا تک ’’لامحدود رسائی‘‘ سے روک دیا، یہ کہتے ہوئے کہ یہ انتظامیہ پرائیویسی قوانین کی خلاف ورزی کرسکتی ہے۔ یہ فیصلہ مسک اور (ڈوج) میں ان کے نائبین کیلئے اب تک کا سب سے بڑا قانونی دھچکا تھا، جنہیں ٹرمپ نے حکومت میں فضول خرچی اور دھوکہ دہی کو ختم کرنےکیلئے مقرر کیا تھا۔
۱۹؍مارچ کو ایک اور جج نے مسک کے اقدامات کو امریکی ایجنسی فار انٹرنیشنل ڈویلپمنٹ( یو ایس ایڈ)کو بند کرنےکو غیر آئینی قرار دیا کیونکہ وہ سینیٹ کی طرف سے نامزد کابینی عہدیدار نہیں ہیں۔ عدالتوں نے ڈوج کے ڈھانچے اور شفافیت کی کمی پر بھی تشویش کا اظہار کیا ہے۔ اس کے علاوہ ایک جج نے محکمہ کو ہدایت کی ہے کہ وہ اپنے کام کاج کی تفصیلات ظاہر کرنے والے ریکارڈز پیش کرے، جو مسک کے اختیارات کو چیلنج کرنے والے ایک مقدمے میں درخواست کی گئی ہے۔  ججوں نے ڈوج کو لیبر، ہیلتھ اینڈ ہیومن سروسز، انرجی اور دیگر محکموں کے کمپیوٹر سسٹم تک رسائی سے روکنے سے انکار کردیا ہے، حالانکہ اس ٹیم کو خزانہ محکمہ کے حساس ادائیگی کے نظاموں تک رسائی سے روک دیا گیا ہے۔  
انہیں مقدمات میں سے ایک وفاقی ملازمین کی برطرفی ہے۔اس میں دو ججوں نے الگ الگ فیصلہ دیا ہے کہ ٹرمپ انتظامیہ کی طرف سے ۲۵؍ ہزار عارضی وفاقی ملازمین کی برطرفی ممکنہ طور پرغیر قانونی تھی اور انہیں مزید قانونی کارروائی تک بحال کرنے کا حکم دیا ہے۔ان احکامات کے تحت آنے والے محکموں میں زراعت، کامرس، تعلیم، توانائی، صحت اور انسانی خدمات، ہوم لینڈ سیکورٹی، ہاؤسنگ اینڈ اربن ڈویلپمنٹ، انٹیریئر، لیبر، ٹرانسپورٹیشن، خزانہ اور ویٹرنز افئیر کے محکمے شامل ہیں۔ 

یہ بھی پڑھئے: امریکہ میں تارکین وطن کو وا پس جانے کیلئے چند ہفتوں کی مہلت

۱۰؍مارچ کو ایک جج نے یہ کہتے ہوئے کہ تعلیم محکمہ نے فنڈز میں تخفیف کی کوئی معقول وجہ نہیں بتائی ٹرمپ انتظامیہ کو ہدایت دی کہ وہ استادوں کی تربیت کیلئے امداد  کو عارضی طور پر بحال کرے جو تنوع، مساوات اور شمولیت کے اقدامات کو ختم کرنے کے حصے کے طور پر ختم کی گئی تھیں، ۔تاہم ایک اپیل کورٹ نے نچلی عدالت کے حکم کو کالعدم قرار دیا، جس نے اس اقدام کو روک دیا تھا۔
اس کے علاوہ ججوں نے پیدائشی شہریت ختم کرنے کی ٹرمپ کی کوشش کو روک دیا۔جبکہ ٹرمپ کا یہ دعویٰ کہ پیدائشی شہریت غیر آئینی ہے، غیر معیاری ہے، کیونکہ سپریم کورٹ نے۱۲۷؍ سال قبل اس کے خلاف فیصلہ دیا تھا، اور یہ فیصلہ اب تک برقرار ہے۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK