• Sat, 22 February, 2025
  • EPAPER

Inquilab Logo Happiest Places to Work

امریکہ: ٹرمپ انتظامیہ جج کے فیصلے کیخلاف سپریم کورٹ پہنچی، جلد سماعت متوقع

Updated: February 17, 2025, 10:00 PM IST | Texas

امریکہ کے صدر ڈونالڈ ٹرمپ کی انتظامیہ نے عدالت سے درخواست کی ہے کہ وہ وفاقی جج کے اس فیصلے کو کالعدم قرار دے جو ہیمپٹن ڈیلنگر کو دوبارہ ان کے عہدے پر بحال کرنے کے حق میں دیا گیا تھا۔ یہ کیس صدر ٹرمپ کے اختیارات کا ایک بڑا امتحان ثابت ہو سکتا ہے۔ سپریم کورٹ آئندہ چند دنوں میں اس مقدمے پر اپنا فیصلہ سنا سکتی ہے۔

Donald Trump and Hampton Dellinger. Photo: INN.
ڈونالڈ ٹرمپ اور ہیمپٹن ڈیلنگر۔ تصویر: آئی این این۔

امریکہ کے صدر ڈونالڈ ٹرمپ کی جانب سے حکومتی افسران کو برطرف کرنے کے اختیارات کا پہلا بڑا قانونی امتحان سپریم کورٹ میں پہنچ گیا۔ ٹرمپ انتظامیہ نے عدالت سے درخواست کی ہے کہ وہ وفاقی جج کے اس فیصلے کو کالعدم قرار دے جو ہیمپٹن ڈیلنگر کو دوبارہ ان کے عہدے پر بحال کرنے کے حق میں دیا گیا تھا۔ ہیمپٹن ڈیلنگر جو آفس آف اسپیشل کونسل کے سربراہ ہیں، ایک آزاد ادارے کی قیادت کرتے ہیں جو حکومتی بدعنوانیوں، اخلاقیات کی خلاف ورزیوں اور سرکاری ملازمین کے تحفظ کو یقینی بناتا ہے، یہ عہدہ محکمہ انصاف کے خصوصی مشیر سے الگ ہے۔ 

یہ بھی پڑھئے: `آپ صدر نہیں ہیں`: ایلون مسک کے بیٹے نے ٹرمپ سے کیا کہا؟ انٹرنیٹ صارفین کے درمیان بحث جاری

ٹرمپ انتظامیہ نے ڈیلنگر کو۷؍ فروری کو ایک مختصر ای میل کے ذریعے بغیر کسی وجہ کے فوری طور پر برطرف کر دیا تھا تاہم، انہوں نے اس اقدام کو غیر قانونی قرار دیتے ہوئے مقدمہ دائر کیا، جس کے نتیجے میں ضلعی عدالت کی جج ایمی برمن جیکسن نے ان کی عارضی بحالی کا حکم جاری کیا۔ بعد ازاں اپیلز کورٹ کے ججوں نے بھی ٹرمپ انتظامیہ کی درخواست مسترد کر دی جس کے بعد معاملہ سپریم کورٹ میں پہنچ گیا۔ ٹرمپ انتظامیہ کا کہنا ہے کہ صدر کو حکومتی افسران کو برطرف کرنے کا مکمل اختیار ہونا چاہئے اور کسی بھی وفاقی جج کو یہ حق حاصل نہیں کہ وہ صدر کی انتظامی طاقت میں مداخلت کرے۔ ان کے وکیل، قائم مقام سالیسٹر جنرل سارہ ایم ہیرس نے درخواست میں کہا’’یہ عدالت نچلی عدالتوں کو یہ اجازت نہیں دے سکتی کہ وہ عارضی احکامات کے ذریعے صدر کے اختیارات سلب کریں اور انہیں مجبور کریں کہ وہ کسی عہدیدار کو اپنی مرضی کے خلاف برقرار رکھیں۔ ‘‘

یہ بھی پڑھئے: غزہ: جنگ کے بعد اسپتالوں میں آکسیجن کی شدید قلت: وزارت صحت نے خبردار کیا

ڈیلنگر اور ان کے وکلا کا کہنا ہے کہ ان کی برطرفی قانونی اصولوں کی خلاف ورزی ہے کیونکہ۲۰۲۴ء میں جب انہیں سینیٹ کی منظوری سے تعینات کیا گیا تھا تو ان کے عہدے کی مدت پانچ سال کیلئے طے کی گئی تھی۔ امریکی قانون کے مطابق صدر کسی آزاد ادارے کے سربراہ کو صرف غفلت، نااہلی یا سنگین بدعنوانی کی بنیاد پر برطرف کر سکتے ہیں۔ لیکن ٹرمپ انتظامیہ نے انہیں برطرف کرنے کی کوئی قانونی وجہ نہیں بتائی۔ اس ضمن میں سپریم کورٹ کے قدامت پسند ججوں کی اکثریت ماضی میں صدر کے انتظامی اختیارات کو وسعت دینے کے حق میں فیصلے دے چکی ہے۔ اس کیس میں بھی یہ امکان موجود ہے کہ عدالت صدر کو سرکاری افسران کو برطرف کرنے کا مکمل اختیار دے دے۔ اگر ٹرمپ کی دلیل تسلیم کر لی جاتی ہے تو اس کا مطلب ہوگا کہ مستقبل میں صدر کو کسی بھی آزاد حکومتی ادارے کے سربراہ کو برطرف کرنے کا لامحدود اختیار حاصل ہو جائے گا جو امریکی انتظامی ڈھانچے میں ایک بڑی تبدیلی ہوگی۔ 

یہ بھی پڑھئے: لندن میں امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ کے غزہ منصوبے کیخلاف ہزاروں افراد کا مارچ

کچھ قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر سپریم کورٹ۱۹۳۵ء کے تاریخی فیصلے Humphrey’s Executor v. United States کو ختم کر دیتی ہے تو یہ وفاقی حکومت کی ساخت کو انتہائی کمزور کر دے گا اور صدر کو ایک طاقتور ترین انتظامی قوت فراہم کر دے گا، یہ کیس صدر ٹرمپ کے اختیارات کا ایک بڑا امتحان ثابت ہو سکتا ہے۔ اگر عدالت نے ان کے حق میں فیصلہ دیا تو وہ مستقبل میں دیگر آزاد حکومتی اداروں کے سربراہان کو بھی بآسانی برطرف کر سکیں گے، جبکہ اس کے مخالف فیصلہ امریکی صدور کے اختیارات کو محدود کر دے گا۔ سپریم کورٹ آئندہ چند دنوں میں اس مقدمے پر اپنا فیصلہ سنا سکتی ہے۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK