اتراکھنڈ کے نئے عبدالکلام مدرسوں میں رامائن پڑھائی جائے گی، فوجی نظم و ضبط نافذ کیا جائے گا اور قومی ترانے کے ساتھ کلاس کا آغاز ہوگا۔
EPAPER
Updated: March 12, 2025, 10:09 PM IST | Dehradun
اتراکھنڈ کے نئے عبدالکلام مدرسوں میں رامائن پڑھائی جائے گی، فوجی نظم و ضبط نافذ کیا جائے گا اور قومی ترانے کے ساتھ کلاس کا آغاز ہوگا۔
اتراکھنڈ کے دہرادون میں پہلا ڈاکٹر اے پی جے عبدالکلام ماڈرن مدرسہ کھولنے کی تیاری ہے، جو اسلامی مدرسوں کی ریاستی حمایت یافتہ تنظیم نو کے آغاز کی علامت ہے۔تاہم، مذہبی رہنما اور مدرسہ منتظمین اس کی مخالفت کر رہے ہیں، اور حکومت کے اس اقدام کو مدرسوں کی شناخت اور مقصد کو ختم کرنے کی کھلی سازش قرار دے رہے ہیں۔اتراکھنڈ وقف بورڈ نے مدرسوں کے جدید کاری کے اپنے منصوبے کے تحت نئے ضوابط متعارف کرائے ہیں۔ مدرسوں میں اب رام اور کرشن کے اصولوں کے بارے میں تعلیم دی جائے گی۔ کلاسز کا آغاز قومی ترانے سے ہوگا، اور ریٹائر فوجی اہلکار نظم و ضبط اور جسمانی تندرستی کو فروغ دینے کی ذمہ داری نبھائیں گے۔ اس کے علاوہ، بورڈ نے ان اداروں میں ریاست سے باہر کے طلبہ کے داخلے پر پابندی عائد کر دی ہے۔
یہ بھی پڑھئے: شاہجہاں پور، یوپی: لاٹ صاحب ہولی، ۶۰؍ سے زائد مساجد کو ترپال سے ڈھانپ دیا گیا
اس اقدام کو آگے بڑھاتے ہوئے، پہلا ’’ماڈرن مدرسہ‘‘دہرادون ریلوے اسٹیشن کے قریب ایک مسلم اکثریتی علاقے میں قائم کیا جائے گا۔ حکومت نے اس منصوبے کو سرکاری طور پر منظور کر لیا ہے، اور وزیر اعلی پُشکر سنگھ دھامی نے اسے مسلم طلبہ کیلئے تعلیم کو بہتر بنانےکیلئےوالامنصوبہ قرار دیا ہے۔ اتراکھنڈ وقف بورڈ کے چیئرمین شاداب شمس نے دی نیو انڈین ایکسپریس کو بتایا کہ دہرادون مدرسہ کا افتتاح اپریل میں ہوگا، اور بورڈ کے دائرہ اختیار میں آنے والے مزید۱۱۷؍ مدرسوں کو اپ گریڈ کرنے کی منصوبہ بندی ہے۔تاہم، ان کے بیان نے تنازعہ کھڑا کر دیا۔ پاکستان کے زیر قبضہ کشمیر میں مدرسوں کو ’’دہشت گردی کے مراکز‘‘سے تشبیہ دیتے ہوئے، شمس نے کہا کہ اتراکھنڈ کے مدرسے ریاستی تعلیمی ماڈل کے تحت ’’قوم پرست اصولوں‘‘ پر مبنی ہوں گے۔وقف بورڈ کا دعویٰ ہے کہ کچھ مسلم گروہ اس اقدام کی حمایت کر رہے ہیں۔ تاہم، دارالعلوم جیسے نمایاں مذہبی اداروں نے اس کی سخت مخالفت کی ہے۔دارالعلوم اتراکھنڈ کے صدر مولانا محمد عارف نے ان تبدیلیوں کو غیر ضروری مداخلت قرار دیتے ہوئے مسترد کر دیا۔ انہوں نے کہا، ’’اگر طلبہ رامائن اور ویدوں کا مطالعہ کرنا چاہتے ہیں، تو وہ دوسرے اسکولوں میں داخلہ لے سکتے ہیں۔ مدرسے مذہبی تعلیم کیلئے ہیں، اور ہم ان مضامین کو اپنے اوپر مسلط ہونے نہیں دیں گے۔‘‘
دیگر علماء نے بھی اسی جذبے کا اظہار کیا، اور سوال کیا کہ حکومت مدرسہ اصلاحات کو ترجیح کیوں دے رہی ہے، جبکہ ملازمت کی کمی یا مسلم نوجوانوں کیلئے مرکزی دھارے کی تعلیم کو بہتر بنانے جیسے مسائل پر توجہ نہیں دی جا رہی۔عام آدمی وکاس پارٹی کے صدر عقیل احمد نے وقف بورڈ کے ممبران پر سیاسی فوائد کیلئےبی جے پی کے ساتھ ہم آہنگی کرنے کا الزام لگایا۔ انہوں نے کہا کہ ’’ اگر وہ واقعی جامعیت کی حمایت کرتے ہیں، تو انہیں آر ایس ایس کے ذریعے چلائے جارہے گروکل میں قرآنی تعلیم کی وکالت بھی کرنی چاہیے۔‘‘
نئی ساخت کے تحت، طلبہ صبح ۸؍ بجے سے۱۲؍ بجے تک سائنس پڑھیں گے، اور دوپہر۲؍ بجے کے بعد قرآنی تعلیم حاصل کریں گے۔ سابق فوجی اہلکار قومی ترانے کی مشقوں کی قیادت کریں گے اور جسمانی تربیت کی نگرانی کریں گے۔ اہلکاروں کا کہنا ہے کہ اس کا مقصد تعلیم کے ساتھ طلبہ میں محب وطن جذبہ پیدا کرنا ہے۔واضح رہے کہ حالیہ دنوں میں اتراکھنڈ میں حکومت کے متعدد منصوبے اور پالیسی ہندوتوا نظریہ سے متاثر نظر آتے ہیں۔حکومت کی مدرسہ تعلیم کو نئے سرے سے تشکیل دینے کی کوششوں نے مسلم اداروں میں ریاستی مداخلت کے وسیع تر منصوبےکے بارے میں تشویش پیدا کر دی ہے۔ناقدین کا کہنا ہے کہ ایسی پالیسیاں جان بوجھ کر مذہبی اداروں کی خود مختاری کو کمزور کرتی ہیں۔
یہ بھی پڑھئے: ’’ ہر مسجد کے نیچے مندر تلاش کی گئی تو خانہ جنگی شروع ہوسکتی ہے‘‘
دریں اثنا، اتراکھنڈ مدرسہ بورڈ کے چیئرمین مفتی شمعون قاسمی نے تنازعہ کو کم کرنے کی کوشش کی، یہ دعویٰ کرتے ہوئے کہ ہندو صحیفوں کے پہلوؤں کو پہلے ہی این سی ای آر ٹی کے نصاب میں شامل کیا جا چکا ہے۔لیکن جیسے جیسے ریاست اپنے ایجنڈے کو آگے بڑھا رہی ہے، ہندوستان کے سیکولر جمہوریت میں مذہبی تعلیم اور معاشرے کی خود مختاری پر جنگ ختم ہونے سے بہت دور ہے۔