ڈیفنس فار چلڈرن انٹرنیشنل – فلسطین (ڈی سی آئی پی) نے جمعرات کو ایک بیان میں کہا کہ اسرائیلی فوج نے گزشتہ ہفتے شمالی مقبوضہ مغربی کنارے میں ایک فوجی چھاپے کے بعد دو فلسطینی بچوں کو زبردستی برہنہ کیا، ذلیل کیا، دہشت زدہ کیا اور حراست میں لیا۔
EPAPER
Updated: March 22, 2025, 2:30 PM IST | Gaza
ڈیفنس فار چلڈرن انٹرنیشنل – فلسطین (ڈی سی آئی پی) نے جمعرات کو ایک بیان میں کہا کہ اسرائیلی فوج نے گزشتہ ہفتے شمالی مقبوضہ مغربی کنارے میں ایک فوجی چھاپے کے بعد دو فلسطینی بچوں کو زبردستی برہنہ کیا، ذلیل کیا، دہشت زدہ کیا اور حراست میں لیا۔
ڈیفنس فار چلڈرن انٹرنیشنل فلسطین (ڈی سی آئی پی) نے جمعرات کو ایک بیان میں کہا کہ اسرائیلی فوج نے گزشتہ ہفتے شمالی مقبوضہ مغربی کنارے میں ایک فوجی چھاپے کے بعد دو فلسطینی بچوں کو زبردستی برہنہ کیا، ذلیل کیا، دہشت زدہ کیا اور حراست میں لیا۔دستاویزات کے مطابق، اسرائیلی فوج نے ۱۰؍ مارچ کی صبح سویرے جنین کے مغرب میں واقع سات سالہ ابراہیم ابو غالی اور۱۳؍ سالہ عمر محمد ضرار زابن کے نانا کے گھر پر چھاپہ مارا، جہاں وہ تھوڑے وقت قیام کیلئے گئے تھے۔ تقریباً ۴؍ بجکر ۲۰؍ منٹ پر، جب ابراہیم کی دادی اذان سننے کیلئے باہر نکلی، اسرائیلی فوجیوں نے فائرنگ کر دی، جس سے باقی خاندان گھر کے اندر پھنس گئے۔
یہ بھی پڑھئے: غزہ پر حملوں کے متعلق ٹرمپ نے کہا کہ وہ مکمل طور پر اسرائیل کی حمایت کرتے ہیں
فوجیوں نے ابراہیم، عمر اور ان کے نانا کو حراست میں لے لیا، اور انہیں بندوق کی نوک پربرہنہ ہونے پر مجبور کیا۔ اسرائیلی فوجیوں نے ان کے ہاتھ پلاسٹک کی رسیوں سے باندھ دیے اور انہیں کھلے میں، سرد درجہ حرارت میں تقریباً ایک گھنٹے تک روکے رکھا۔ اس کے بعد انہیں فوجی گاڑی کے پچھلے فرش پر اسی حالت میں دھکیل دیا گیا، اور پھر انہیں شمالی اسرائیل میں واقع جلامہ انٹروگیشن سینٹر لے جایا گیا۔ڈی سی آئی پی کے اکاؤنٹیبلٹی پروگرام کے ڈائریکٹر آیید ابو اقتیش نے کہاکہ ’’ چھوٹے بچوں کو برہنہ کرنے پر مجبور کرنا، انہیں ذلت آمیز حالات میں حراست میں لینا، اور انہیں نفسیاتی دہشت کا نشانہ بنانا بین الاقوامی قانون کی واضح خلاف ورزی ہے اور ظالمانہ، غیر انسانی اور ذلت آمیز سلوک کے مترادف ہے۔ اسرائیلی فوج کا فلسطینی بچوں کے ساتھ منظم بدسلوکی کوئی الگ تھلگ واقعہ نہیں ہے بلکہ یہ فلسطینیوں پر کنٹرول اور ظلم کے نظام کا حصہ ہے۔‘‘
یہ بھی پڑھئے: اسرائیلی حملوں میں گزشتہ منگل سے۷۰۰؍ سے زائد فلسطینی شہید: وزارت صحت
عمر نے یاد کرتے ہوئے کہا کہ ’’ فوجیوں نے ہماری طرف اپنے ہتھیار تان لیے، جس سے ہمارا خوف اور گھبراہٹ بڑھ گئی۔ہم خوف اور بے چینی سے کانپ رہے تھے۔ ہم نےفوجیوں کا حکم مان لیا، اپنے کپڑے اتار دیے، اپنے ہاتھ اپنے سروں پر اٹھائے، اور آہستہ آہستہ فوجیوں اور ان کی گاڑیوں کی طرف بڑھے۔ اس پورے صدمے کے دوران، ہم خوف سے کانپتے رہے۔ مجھے آگے بڑھنا مشکل لگ رہا تھا، لیکن مجھے اپنے نانا کے پیچھے رہنا پڑا تاکہ فوجیوں کو میری اطاعت کے بارے میں شک نہ ہو۔ خوف کا غلبہ ہم دونوں پر طاری تھا۔‘‘تقریباً ۱۲؍گھنٹے کی خودساختہ حراست کے بعد، عمر اور ابراہیم کو فوجی گاڑی کے پچھلے فرش پر دھکیل دیا گیا، جہاں سے انہیں گھر لے جایا گیا، ابھی بھی انہوں نے اندرونی کپڑے پہنے ہوئے تھے، اور انہیںصرف ایک ورقہ (فوائل) ڈھکنے کیلئے دیا گیا تھا۔ گھر واپس آنے پر، انہیں پتہ چلا کہ چھاپے کے دوران ان کی دادی اسرائیلی گولیوں سے ہلاک ہو گئی ہیں۔
یہ بھی پڑھئے: چین نے اسرائیل پر زور دیا کہ وہ غزہ میں ’طاقت کے استعمال کا جنون ترک کر دے‘
واضح رہے کہ اسرائیلی فوجی قانون کے تحت مجرمانہ ذمہ داری کی عمر۱۲؍ سال ہے، یعنی۱۲؍ سال سے کم عمر کے بچوں، جیسے کہ سات سالہ ابراہیم، کو اسرائیلی فوجی عدالتوں میں مقدمہ چلانے کی اجازت نہیں ہے، اور اس طرح ایسے حراستی مراکز میں ان کی موجودگی بچے کے حق اوراسرائیلی فوجی قانون دونوں کی خلاف ورزی ہے۔ تاہم،ڈی سی آئی پی کے جمع کردہ دستاویزات کے مطابق، اسرائیلی فوج فلسطینی بچوں کو حراست میں لینے اور ہراساں کرنے پر قائم ہے۔چھاپوں کے دوران اسرائیلی فوجیوں کے ذریعے اس قسم کے قوانین کی خلاف ورزی عام بات ہے۔ اسرائیلی فوج نے مقبوضہ مغربی کنارے میں فوجی کارروائیوں میں ڈرامائی طور پر اضافہ کیا ہے، جس میں بڑے پیمانے پر گرفتاریوں، گھروں پر چھاپوں، اور فوجداری قتل میں اضافہ ہوا ہے۔ چھاپوں، جبری بے دخلی، اور بے دریغ تشدد کے ذریعے فلسطینی بچوں کو نشانہ بنانا ان جنگی جرائم کی نشاندہی کرتا ہے جو بے خوف جاری ہیں۔