یونیسیف ترجمان جیمس ایلڈر نے ان نام نہاد عالمی لیڈران پر سخت تنقید کی جو لیڈر ہونے کا دکھاوا کرتے ہیں لیکن زمینی سطح پر کوئی اقدام اٹھانے سے کتراتے ہیں حالانکہ جنگوں سے لے کر دماغی صحت کے بحران سے نپٹنے کیلئے وہ کئی اقدامات اٹھا سکتے ہیں۔
EPAPER
Updated: November 20, 2024, 11:20 PM IST | New Delhi
یونیسیف ترجمان جیمس ایلڈر نے ان نام نہاد عالمی لیڈران پر سخت تنقید کی جو لیڈر ہونے کا دکھاوا کرتے ہیں لیکن زمینی سطح پر کوئی اقدام اٹھانے سے کتراتے ہیں حالانکہ جنگوں سے لے کر دماغی صحت کے بحران سے نپٹنے کیلئے وہ کئی اقدامات اٹھا سکتے ہیں۔
ہر سال ۲۰ نومبر کو بچوں کے حقوق اور فلاح کیلئے عالمی یوم اطفال منایا جاتا ہے لیکن اس سال، یوم اطفال کے موقع پر دنیا بھر میں لاکھوں بچے زندہ رہنے کیلئے جدوجہد کررہے ہیں۔ اقوامِ متحدہ کے ادارہ انٹرنیشنل چلڈرنس ایمرجنسی فنڈ (یونیسیف) کے ترجمان جیمس ایلڈر نے نیوز ایجنسی انادولو کو بتایا کہ جنگ و تنازعات، آب و ہوا کے بحران اور انتظامی ناکامیوں کی وجہ سے بچوں کی زندگیاں تباہی کے دہانے پر ہیں۔ ایلڈر نے مزید کہا کہ عالمی یوم اطفال، جشن کا موقع ہونا چاہئے لیک غزہ اور لبنان کے بچوں کیلئے جشن کوئی معنی نہیں رکھتا۔ وہ اپنی بقا کیلئے فکرمند ہیں اور زندہ رہنے کیلئے جدوجہد کررہے ہیں۔
یہ بھی پڑھئے: نتیش رانے کا اشتعال انگیز پوسٹ: ’’سدھی ونائیک مندر پر وقف بورڈ نے دعویٰ پیش کیا‘‘
ایلڈر نے سوڈان میں جاری تنازع کا حوالہ بھی دیا۔ انہوں نے کہا کہ سوڈان میں جاری تنازع سے تقریباً ۵۰ لاکھ بچے متاثر ہوئے ہیں جن میں ۵ سال سے کم عمر ۱۰ لاکھ بچے پرتشدد ہنگاموں کی وجہ سے بے گھر ہوگئے ہیں۔ ایلڈر نے روس یوکرین جنگ پر تشویش ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ حالیہ دنوں میں یوکرین میں حملوں میں کئی گنا اضافہ ہوا ہے۔ ایلڈر نے عالمی یوم اطفال سے ایک دن قبل کہا کہ یہ دن بہت بوجھل اور غمگین ہوگا۔ ایلڈر نے ان لیڈران پر تنقید کی جو لیڈر ہونے کا دکھاوا کرتے ہیں لیکن زمینی سطح پر کوئی اقدامات نہیں کرتے حالانکہ جنگوں سے لے کر دماغی صحت کے بحران سے نپٹنے کیلئے وہ کئی اقدامات اٹھا سکتے ہیں۔
غزہ جنگ کے دوران غزہ کے بچوں کیلئے زندگی مشکل ہوچکی ہے۔ تصویر: ایکس
واضح رہے کہ اقوام متحدہ نے ۱۹۵۴ میں ہر سال ۲۰ نومبر کو عالمی یوم اطفال منانے کا اعلان کیا تھا تاکہ بین الاقوامی اتحاد، بچوں کے حقوق کے بارے میں آگاہی اور ان کی فلاح و بہبود کو بہتر بنانے کے اقدامات کو فروغ دیا جا سکے۔ اسی دن، ۱۹۵۹ء میں بچوں کے حقوق کا اعلان اور ۱۹۸۹ء میں بچوں کے حقوق سے متعلق کنونشن کو بھی اپنایا گیا تھا۔ تاہم، اس سال یوم اطفال کے جشن پر سیاہ بادل چھائے ہوئے ہیں جو عالمی بحرانوں کی لپیٹ میں آئے بچوں کی حالت زار کو اجاگر کرتے ہیں۔ ایلڈر نے عالمی رہنماؤں پر زور دیا کہ وہ بین الاقوامی انسانی قانون اور معاہدوں کے تحت بچوں کے تحفظ اور ان کی بھلائی کو ترجیح دینے کے اپنے وعدوں کو یاد رکھیں۔ انہوں نے لیڈران سے اپیل کی کہ وہ عالمی یوم اطفال پر ۱۰ منٹ کیلئے اس بات پر غور کریں کہ اگر ان کی ۷ سالہ بیٹی یا ان کا ۱۵ سالہ بیٹا، ان ہولناکیوں کو برداشت کر رہا ہو تو وہ اس صورتحال میں ان کا ردعمل کیا ہوگا؟ اپنے اثر و رسوخ کا استعمال کرتے ہوئے وہ ان حالات سے کیسے نمٹیں گے؟
یہ بھی پڑھئے: پوتن از خود باز نہیں آئیں گے زیلنسکی نے یوکرین جنگ کے ۱۰۰۰ ویں دن خبردار کیا
عالمی کارروائی کا مطالبہ
غزہ، لبنان اور سوڈان کے بحران، اخباروں کی سرخیوں میں چھائے ہوئے ہیں۔ اس درمیان یونیسیف نے عالمی سطح پر بچوں کی تمام مسائل ور جدوجہد کو حل کرنے کی اہمیت پر زور دیا۔ انہوں نے کہ کہ جنوبی افریقہ میں غربت میں زندگی گزارنے والے بچے، ملاوی کے یتیم بچے، بنگلہ دیش میں مزدوری کرنے والے بچے اور سڈنی میں ذہنی صحت کے مسائل کے شکار بچے، یہ سب برابر ہیں۔ بچے چاہے جہاں بھی ہوں، وہ بچے ہی ہیں۔
یہ بھی پڑھئے: امریکہ: وہائٹ ہاؤس عملے نے بائیڈن کو اسرائیل پرجمود کیلئے تنقید کا نشانہ بنایا
انہوں نے مزید کہا کہ ان علاقوں میں اثر و رسوخ رکھنے والے افراد اور مقامی حکومت کے خاندانوں کو بچوں کے عالمی دن پر ایک قدم اٹھانے کی ضرورت ہے۔ انہیں جائزہ لینا چاہئے کہ وہ اپنے اردگرد موجود بچوں کی زندگیوں کو بہتر بنانے کے لئے کیا کرسکتے ہیں۔ عالمی سطح پر مختلف تنازعات سے متاثر بچوں پر متوازن توجہ کو یقینی بنانے کے لئے میڈیا اور بین الاقوامی تنظیموں کو درپیش چیلنجز کے متعلق ایک سوال کے جواب میں جیمس ایلڈر نے کہا کہ عالمی مسائل کے متعلق ثبوت اور اعداد و شمار موجود ہیں، لیکن خبروں کا دَور کافی پراسرار ہوتا ہے۔ اگر ہم آنے والے دس یا بیس سالوں میں بہتری کی امیدین رکھتے ہیں تو ہمیں نفسیاتی اور جسمانی طور پر سرمایہ کاری کرنی ہوگی۔