• Wed, 15 January, 2025
  • EPAPER

Inquilab Logo

ایک طبع زاد کہانی: پُراسرار صندوق

Updated: May 18, 2024, 4:01 PM IST | Shahebaz Khan | Mumbai

آج زمین پر پھیلی ہر قسم کی مصیبت، پریشانی اور برائی کے خلاف ’’امید‘‘ ہی ہے جو انسانوں کو طاقت اور جینے کا حوصلہ دیتی ہے۔ اس کہانی پر ان چیزوں پر ہی روشنی ڈالی گئی ہے۔

Photo: INN
تصویر : آئی این این

دیگر طبع زاد کہانیاں

یہ بھی پڑھئے: نشوبا اور چاند

یہ بھی پڑھئے: یونانی موسیقار

یہ بھی پڑھئے: عظیم فنکار

یہ بھی پڑھئے: عظیم تباہی

یہ بھی پڑھئے: شہزادی البا

شام ہوتے ہی آسمان پر مختلف رنگ بکھر گئے۔ اگر کوئی زمین سے دیکھتا تو اسے لگتا کہ یہ کسی فنکار کا کینوس ہے۔ یہ رنگ تھے آسمان پر سجی محفل کے، جہاں پکوانوں اور مشروبات کی خوشبوئیں پھیلی تھیں۔ دیوی دیوتاؤں کے قہقہوں سے آسمان گونج رہا تھا۔ آج سبھی دیوتا ایک جگہ جمع ہوئے تھے کیونکہ ان کے بادشاہ ’’زیوس‘‘ کا جنم دن تھا۔ محفل میں موجود سب سے طاقتور ۱۴؍ دیوتاؤں کی شان ہی نرالی تھی۔ ان میں، زیوس (تمام دیوتاؤں کا بادشاہ، آسمان اور موسموں کا بادشاہ، قانون اور قسمت کا بادشاہ)، ہیرا(دیوتاؤں کی ملکہ، خواتین اور شادیوں کی دیوی ، شادی شدہ خواتین کی محافظ)، پوسیڈین (سمندر کا دیوتا)، ہیڈس (مُردوں کی دنیا کا دیوتا)، ہیستیا (مہمان نوازی اور گھر داری کی دیوی)، ایرس (جنگوں کا دیوتا)، ایتھینا (شہروں، فنکاروں اور کھیت کھلیانوں کی دیوی)، اپولو (موسیقی، روشنی، سچائی اور شفایابی کا دیوتا)، اپھروڈائٹ (محبت، خواہش اور خوبصورتی کی دیوی)، آرٹیمس (شکار، جانوروں اور بچوں کی دیوی)، ہیلیس (سورج کا دیوتا)، ڈیمیٹر (اناج کی دیوی)، ڈائنوسس (مشروبات اور تہواروں کا دیوتا)، ہیفسٹیئس (آگ، دستکاری اور مجسموں کا دیوتا) اور ہرمیس (خدا کا پیامبر، مردوں اور زندوں کی دنیا کے درمیان پُل کا کام کرنے والا فرشتہ)  شامل تھے۔ سیکڑوں ملازمین ان کی خدمت میں مصروف تھے۔ اس محفل میں ’’تیتان‘‘ (یونانی انہیں بھی دیوتا کہتے ہیں مگر ان کی شکلیں اور خدوخال انسانوں جیسے تھے) کو بھی مدعو کیا گیا تھا۔ ان میں سب سے شرارتی پرومیتھیس تھا۔
سبھی بادشاہ کیلئے تحفے لائے تھے۔ جب کھانے پینے کا دور ختم ہوا تو سبھی نے بادشاہ سے تحائف کھولنے کی التجا کی۔ سب جاننا چاہتے تھے کہ بادشاہ کو بہترین تحفہ کس نے دیا ہے۔ زیوس نے شرط رکھی کہ وہ ان تمام تحائف میں سب سے زیادہ پرکشش نظر آنے والا صرف ایک تحفہ قبول کرے گا۔ ملازمین نے تمام تحائف میز پر سجادیئے۔ زیوس اپنے تخت پر براجمان تھا۔ اس کی نظر ایک انتہائی خوبصورت اور چمکتی چیز پر پڑی۔یہ ایک چھڑی تھی جو سونے کی طرح چمک رہی تھی۔ اس نے سبھی کی نظریں کھینچ لی تھیں۔ یہ تحفہ پرومیتھیس نے دیا تھا۔ زیوس نے ملازمین کو باقی تمام تحائف لے جانے کا حکم دیا۔ طشت میں چمکتی چھڑی اس کے پاس لائی گئی۔ پرومیتھیس کافی گھبرایا ہوا تھا۔ وہ محفل سے نکلنے کا راستہ تلاش کررہا تھا۔ جب نوکروں کی فوج دربار سے نکلنے لگی تو وہ بھی ان کے ساتھ نکل گیا۔
زیوس نے جوں ہی چھڑی ہاتھ میں لی۔ سونے کا ورق اس کی انگلیوں اور ہتھیلیوں میں چسپاں ہوگیا اور جسے سبھی چھڑی سمجھ رہے تھے، وہ کسی جانور کی ہڈی تھی جس پر پرومیتھیس نے بڑی ہوشیاری سے سونے کا ورق چڑھا کر اسے پرکشش بنادیا تھا۔ دیوتاؤں کے بادشاہ کے ساتھ گھٹیا مذاق ہوا تھا۔
’’یہ عامیانہ حرکت کس کی ہے؟‘‘ زیوس کی گرجدار آواز سے آسمان لرزنے لگا۔ سبھی خاموش تھے۔ زیوس نے دربار پر ایک نظر ڈالی اور پرومیتھیس کو نہ پاکر سمجھ گیا کہ یہ حرکت اسی نے کی ہے۔ تیتان کے معمر افراد نے زیوس کو سمجھایا کہ پرومیتھیس ابھی صرف ۱۴؍ سال کا ہے، دربار کے طریقے سے ناواقف ہے۔ اسے معاف کردو۔ تاہم، ہیرا کے سمجھانے پر زیوس کا غصہ قدرے کم ہوا۔ محفل برخاست ہوئی اور سبھی اپنے اپنے گھروں کو لوٹ گئے۔
تیتان زمین پر آباد تھے۔ انہوں نے زیوس کا غصہ ٹھنڈا ضرور کردیا تھا مگر انہیں معلوم تھا کہ زیوس پرومیتھیس سے انتقام ضرور لے گا۔ 
ہیفسٹیئس دستکاری اور مجسموں کا دیوتا تھا۔ چند دنوں بعد زیوس نے اسے حکم دیا کہ وہ ایک انتہائی خوبصورت لڑکی کا مجسمہ بنائے۔ ہیفسٹیئس بادشاہ کا حکم نہیں ٹال سکتا تھا لہٰذا اس نے مجسمہ بنانا شروع کردیا۔ ادھر، زمین پر تیتان کے باشندوں نے پرومیتھیس کو خبردار کردیا کہ وہ زیوس کی جانب سے آنے والی کوئی بھی چیز قبول نہ کرے۔
ہیفسٹیئس نے مجسمہ تیار کرکے اسے زیوس کے سامنے پیش کیا۔ مجسمہ اتنا خوبصورت تھا کہ چند لمحوں کیلئے دیوتاؤں کا بادشاہ زیوس بھی اسے دیکھ کر مبہوت رہ گیا۔ وہ سونے کی طرح چمک رہا تھا۔ اس کی آنکھوں میں ہیرے لگائے گئے تھے اور سر پر پھولوں اور قیمتی دھاتوں کا تاج تھا۔ زیوس، پرومیتھیسکو گہرا زخم دینا چاہتا تھا لہٰذا اس نے محبت اور خواہش کی دیوی ’’اپھروڈائٹ ‘‘ کو کہا کہ مجسمہ کے دل میں محبت اور خواہشات بھر دی جائیں۔ اپھروڈائٹ نے ایسا ہی کیا۔ زیوس نے اپنا عصا گھمایا اور چاروں جانب سے چلنے والی ہواؤں نے اس مجسمہ میں جان ڈال دی۔ اب تو مجسمہ مزید حسین نظر آنے لگا۔ دیوی دیوتا بھی اسے دیکھتے رہ گئے۔ پھر زیوس نے تمام دیوی دیوتاؤں کو حکم دیا کہ وہ اس لڑکی کو تحائف دیں۔

یہ بھی پڑھئے: عالمی کہانیوں کا اردو ترجمہ: ڈریکولا کا مہمان

اپھروڈائٹ نے اسے خوبصورتی عطا کی۔ ہرمیس نے ذہانت دی۔ ایتھینا نے ملبوسات دیئے۔ پوسیڈین نے موتیوں کی مالا دی جو اسے ڈوبنے سے محفوظ رکھتی۔ اپولو نے اسے موسیقی اور گلوکاری سکھائی۔ غرض ہر دیوتا نے اسے کسی نہ کسی چیز سے نوازا اور آخر میں ہیرا نے اسے سب سے بہترین تحفہ دیا جسے ہم آج ’’تجسس‘‘ کہتے ہیں۔
اب وہ دن آگیا تھا جب روئے زمین پر پہلی خاتون اترنے کیلئے تیار تھی۔ زیوس نے اس کا نام ’’پینڈورا‘‘ (یونانی زبان میں اس لفظ کا معنی ہے ہر تحفہ سے معمور) رکھا۔ ہرمیس کو اسے آسمانوں سے زمین پر پہنچانے کا حکم دیا گیا۔ ہرمیس نے زیوس کی جانب سے پینڈورا کو  ہیرے جواہرات اور قیمتی پتھروں سے مزین ایک چھوٹا صندوق دیا۔ پینڈورا اسے کھولنا ہی چاہتی تھی کہ ہرمیس نے کہا، ’’پینڈورا! یہ صندوق تمہارا امتحان ہے۔ چاہے جو ہوجائے، اسے کبھی نہیں کھولنا۔‘‘ پھر ہرمیس اسے لے کر تیتان کے بادشاہ ایپی میتھیس کے پاس آیا جو پرومیتھیس کا بھائی تھا۔ 
ہرمیس نے کہا ’’زیوس نے تمہارے لئے اس لڑکی کو امن کا پیغام بنا کر بھیجا ہے۔ زیوس اس کے ذریعے کہنا چاہتے ہیں کہ وہ پرومیتھیس سے ناراض نہیں ہیں، اور وہ یہ بھی چاہتے ہیں کہ تم اس سے شادی کرلو اور ہنسی خوشی زندگی گزارو اور ساتھ ہی یہ صندوق بھی روانہ کیا ہے جو صرف پینڈورا ہی کھول سکتی ہے۔‘‘
پینڈورا اس قدر خوبصورت تھی کہ تیتان کا ہر فرد اس سے شادی کرنا چاہتا۔ ایپی میتھیس نے زیوس کا تحفہ قبول کرلیا اور پھر روئے زمین پر پہلی مرتبہ شادی ہوئی، ایپی میتھیس اور پینڈورا کی عظیم الشان شادی۔ پرومیتھیس کیلئے بھی خطرہ ٹل گیا تھا۔ پھر سبھی ہنسی خوشی زندگی گزارنے لگے۔
وہ ۱۲؍ سال کا گھنگریالے بالوں اور شہد جیسی آنکھوں والا انتہائی پیارا بچہ تھا۔ اس کا نام ’’فیتون‘‘ (یونانی زبان میں اس لفظ کا معنی ہے چمکتا ہوا) تھا۔ اس قدر متجسس طبیعت کا مالک تھا کہ اپنی ماں کلیمن سے روزانہ ڈھیر سارے سوالات پوچھتا تھا۔ ماں عقلمند تھی، اس کے ہر سوال کا جواب دیتی تھی۔ وہ اپنی ماں اور سات بہنوں کے ساتھ رہتا تھا۔ جب بھی فیتون، کلیمن سے اپنے باپ کے بارے میں سوال کرتا وہ اسے برآمدے میں لے آتی اور سورج کی طرف اشارہ کرکے کہتی کہ وہ تمہارے بابا ہیں۔ کلیمن سچ کہتی تھی۔
پینڈورا اور ایپی میتھیس کی شادی کے برسوں کے بعد زیوس نے کلیمن اور ہیلیس (سورج کا دیوتا) کی شادی کروائی تھی۔ ہیلیس کے ذمہ سورج کے طلوع اور غروب کا کام تھا۔ یونانی کہتے ہیں کہ ہیلیس روزانہ اپنا رتھ لے کر مشرق سے مغرب کی طرف جاتا تھا۔ بڑے بڑے پروں والے گھوڑے اس رتھ کو لے کر اڑتے تھے۔ گھوڑوں کی لگام ہیلیس کے ہاتھوں میں ہوتی اور سورج، رتھ کی پچھلی نشست پر براجمان ہوتا۔ زمین کے باسی سورج کو مشرق سے نکلتا اور مغرب میں ڈوبتا دیکھتے تھے مگر دراصل سورج کا یہ رتھ ہیلیس چلاتا تھا۔
فیتون ماں کی بات سن کر خوش ہوجاتا تھا۔ مگر ایک دن ضد کرنے لگا کہ اسے اپنے بابا سے ملنا ہے۔ ماں کیلئے یہ تھوڑا مشکل تھا، اس نے انکار کردیا جس کے سبب فیتون سارا دن غصے میں اپنے کمرے میں بند رہا اور بھوکا پیاسا سوگیا۔ ساتوں بہنوں نے اپنے چھوٹے بھائی کو منانے کی کوشش کی مگر وہ اپنی ضد پر اَڑا رہا۔ کلیمن پریشان ہوگئی اور پھر اس نے زیوس کے سامنے قربانی پیش کی جس کے نتیجے میں ہرمیس چند لمحوں میں اس کے سامنے حاضر ہوگیا۔ جب کلیمن نے ہرمیس کو اپنی پریشانی بتائی تو ہرمیس، فیتون کو ہیلیس سے ملوانے کیلئے تیار ہوگیا۔ ماں نے بیٹے کو قیمتی لباس پہنایا اور آسمان کے سفر کیلئے تیار کردیا۔ فیتون بہت خوش تھا کیونکہ وہ پہلی بار اپنے باپ سے ملنے جارہا تھا۔
جب وہ ہیلیس کے دربار میں پہنچا تو حیران رہ گیا۔ ہیروں سے بنے تخت پر ہیلیس براجمان تھا جو اپنے بیٹے کو دیکھتے ہی آبدیدہ ہوگیا اور اسے گلے سے لگا لیا۔ ہیلیس نے بیٹے کو چند روز ساتھ رہنے کی دعوت دی اور فیتون تیار ہوگیا۔ فیتون روز دیکھتا کہ ہیلیس بڑی شان سے سورج کے رتھ پر سوار ہوکر نکلتا ہے جسے چمکیلی آنکھوں والے گھوڑے کھینچتے ہیں۔ ایک دن اس نے سوچا کہ کیوں نہ مَیں بھی سورج کا رتھ چلاؤں۔ اس میں بڑا لطف آئے گا مگر زیوس نے رتھ چلانے کی ذمہ داری  ہیلیس کو سونپی تھی۔ فیتون ذہین تھا۔ اس نے سورج کا رتھ چلانے کا ایک منصوبہ بنایا۔
برسوں بیت چکے تھے۔ اب زمین پر انسانوں کی آبادی بڑھ گئی تھی، اور یہ پوری زمین پر پھیل گئے تھے۔ زیوس کی طرف سے ملنے والے صندوق کو سبھی بھول گئے تھے مگر پینڈورا کو صندوق یاد تھا جسے اس نے اب بھی سنبھال کر رکھا تھا۔ وہ ہر صبح اسی خیال کے ساتھ بیدار ہوتی تھی کہ آج صندوق کھولے گی لیکن بڑی مشکل سے اپنے آپ پر قابو رکھ پاتی اور سوجاتی۔ مگر ایک دن ہیرا کا تحفہ یعنی ’’تجسس‘‘ پینڈورا پر اس قدر غالب آگیا کہ اس نے صندوق کھولنے کا منصوبہ بنایا۔
ہیلیس اپنے عالیشان کمرے میں سورہا تھا۔ ابھی اس کے جاگنے میں وقت تھا۔ فیتون وقت سے پہلے بیدار ہوچکا تھا۔ وہ چپکے سے اصطبل میں پہنچا جہاں گھوڑے سورج کا رتھ لئے کھڑے تھے۔ وہ جلدی سے رتھ پر سوار ہوگیا اور لگام ہاتھ میں لے لی۔ گھوڑے حکم کے غلام تھے، انہوں نے رتھ لئے مشرق سے مغرب کا اپنا سفر شروع کردیا۔ ابتداء میں سب کچھ ٹھیک رہا مگر پھر ہوائیں تیز ہونے لگیں اور ناتجربہ کار فیتون گھوڑوں کو نہیں سنبھال سکا۔

یہ بھی پڑھئے: عالمی کہانیوں کا اردو ترجمہ: دیوار کے پار

سورج کا رتھ زمین کی طرف گرنے لگا۔ چند لمحوں میں رتھ زمین کے انتہائی قریب آگیا۔ زمین کے اس علاقے میں آگ لگ گئی، سمندر اور دریاؤں کا پانی جلنے لگا، شدید تپش کے سبب لوگوں کی جلد سیاہ پڑگئی۔ کرہ ارض پر تپش اس قدر بڑھ گئی تھی کہ انسانوں کو لگا قیامت آگئی ہے۔ پینڈورا نے سوچا کہ قیامت سے پہلے ہی اسے صندوق کھول کر دیکھ لینا چاہئے۔ 
 وہ تیزی سے اپنی خوابگاہ میں آئی اور صندوق میز پر رکھ کر بیٹھ گئی۔ وہ گھبرا رہی تھی مگر ہمت کر کے اس نے صندوق کا ڈھکن تھوڑا سا اٹھایا تبھی اسے ایک ہلکی سی آواز سنائی دی اور ایک عجیب بو ہوا میں پھیل گئی۔ پینڈورا کو احساس ہوا کہ اس نے صندوق کھول کر بہت بڑی غلطی کی ہے۔
اس صندوق میں زیوس کا انتقام تھا۔ پینڈورا سمجھ گئی تھی کہ وہ دیوتاؤں کے ذریعے کھیلے گئے اس عظیم کھیل میں محض ایک پیادہ ہے۔ دیوتاؤں کے بادشاہ زیوس نے پرومیتھیس کی شرارت کا انتقام لیا تھا۔ انتہائی خوبصورت صندوق میں انتہائی خطرناک چیزیں تھیں۔ زیوس نے اس میں وہ سب کچھ چھپا رکھا تھا جو انسانوں کو قیامت تک پریشان اور الجھائے رکھے گا۔ اس صندوق میں بیماری، موت، انتشار، ہوس، جھگڑا، فساد، حسد، نفرت، جنگ، قحط، برائی اور مختلف قسم کے جذبات تھے، جو ڈبہ کھولتے ہی انتہائی تیزی سے پوری زمین پر پھیل گئے۔
زمین پر بیک وقت دو خطرناک واقعات وقوع پذیر ہوئے تھے۔ ایک واقعہ نے زیوس کو بہت خوش کیا تھا تو دوسرے سے وہ سخت ناراض تھا۔ وہ پرومیتھیس سے صدیوں بعد انتقام لے سکا تھا۔ اس نے صرف پرومیتھیس ہی نہیں بلکہ پوری انسانیت سے بدلہ لیا تھا۔ دوسری طرف اس نے فیتون کی جب یہ حرکت دیکھی تو اپنا عصا اٹھایا جس سے ایک چمکدار بجلی نکلی اور فیتون کے سینے میں پیوست ہوگئی۔ فیتون فوراً مرگیا اور اس کا مردہ جسم تیزی سے زمین کر طرف گرنے لگا۔ ہیلیس بے بسی سے اپنے شرارتی بیٹے کو زمین کی طرف گرتے دیکھتا رہا۔ وہ کچھ نہیں کرسکتا تھا۔ ہرمیس نے ہیلیس کو اپنے پروں پر بٹھایا اور اسے سورج کے رتھ پر چھوڑ دیا جسے ہیلیس نے فوراً سنبھال لیا اور اسے زمین سے دور لے گیا۔
فیتون کی لاش اٹلی کے دریائے پو میں گری۔ کلیمن نے بیٹے کو آسمان سے گرتے دیکھ لیا تھا لہٰذا اس نے زیوس کو قربانی پیش کی اور ہرمیس حاضر ہوگیا۔ کلیمن نے ہرمیس سے بیٹے کو بچانے کی التجا کی مگر دیر ہوچکی تھی۔ فیتون کی ساتوں بہنیں پاس کھڑی زار و قطار رو رہی تھیں۔ ہرمیس کو ان پر ترس آگیا اور اس نے چشم زدن میں انہیں دریائے پو کے قریب پہنچا دیا۔
وہ دریا کے کنارے کھڑی آنسو بہاتی رہیں۔ کہتے ہیں کہ وہ چالیس دنوں تک اپنے بھائی کے غم میں وہیں کھڑی روتی رہیں اور فیتون کی حفاظت میں وہاں سے نہ ہٹنے کی قسم کھائی۔ ان کی حالت پر زیوس کو رحم آگیا اور اس نے ساتوں بہنوں کو چنار کے درخت میں تبدیل کردیا۔
دوسری جانب پینڈورا پشیمان تھی کہ اس نے پوری دنیا کو خطرے میں ڈال دیا ہے۔ لیکن تبھی ڈبے سے تتلی کی طرح ایک چمکتی ہوئی چیز باہر نکلی جو پینڈورا کے گالوں کو چھوتی ہوئی باہر نکل گئی۔ وہ ’’امید‘‘ تھی۔ پینڈورا نے سوچا کہ اس جاذب نظر ڈبے میں زیوس نے صرف ایک ہی اچھی چیز چھپائی تھی۔ لہٰذا پینڈورا ’’پُر امید‘‘ ہوگئی کہ بعد میں آنے والی نسلیں اسے اس کی متجسس طبیعت کے سبب برا بھلا نہیں کہیں گی۔ 

نوٹ:
(۱) زمین کے جس حصے پر سورج کا رتھ گرا تھا، آج وہ دنیا کا گرم ترین براعظم افریقہ ہے جہاں صحارا ریگستان ہے۔ 
(۲) یونانی کہتے ہیں کہ فیتون نے زیوس کا مقرر کردہ سورج کا راستہ تباہ کردیا تھا جس کا اثر موسموں پر پڑا اور زمین پر سرما، گرما، بہار، خزاں اور باراں کا آغاز ہوا۔ علاوہ ازیں، چاند اور سورج کو گہن لگنے لگے۔
(۲) اٹلی کے دریائے پو کے قریب چنار کے ہزاروں درخت ہیں جن کی تعداد میں ہر گزرتے سال کے ساتھ اضافہ ہورہا ہے۔ قدیم یونانی اور رومی انہیں ’’ہیلیڈیز‘‘ (فیتون کی بہنیں) کہتے ہیں۔
(۳) کہتے ہیں کہ زمین پر سب سے پہلے عنبر (ایک قیمتی پتھر) دریائے پو میں پایا گیا تھا جو دراصل فیتون کی بہنوں کے آنسو ہیں۔
(۴) دورِ حاضر میں ’’پینڈوراز باکس‘‘ (پینڈورا کا صندوق) کی اصطلاح اُن موقعوں کیلئے استعمال کی جاتی ہیں جب بہت سی مصیبتیں ساتھ آنے کا خدشہ ہوتا ہے مگر لوگوں کو اچھے دنوں کی امید بھی ہوتی ہے۔
(۵) آج زمین پر پھیلی ہر قسم کی مصیبت، پریشانی اور برائی کے خلاف ’’امید‘‘ ہی ہے جو انسانوں کو طاقت اور جینے کا حوصلہ دیتی ہے۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK