بالی ووڈ شائقین کئی دہائیوں سے شاہ رخ خان اور سلمان خان جیسے سپر اسٹارز کے دیوانے ہیں یہی وجہ ہے کہ یہ اسٹارز باکس آفس پر راج کررہے ہیں۔ لیکن ان کی سخت محنت کے باوجود، بہت سے ہندی فلمساز ان کی صلاحیتوں سے فائدہ اٹھانے میں ناکام رہے ہیں۔
EPAPER
Updated: December 21, 2024, 9:50 PM IST | Mumbai
بالی ووڈ شائقین کئی دہائیوں سے شاہ رخ خان اور سلمان خان جیسے سپر اسٹارز کے دیوانے ہیں یہی وجہ ہے کہ یہ اسٹارز باکس آفس پر راج کررہے ہیں۔ لیکن ان کی سخت محنت کے باوجود، بہت سے ہندی فلمساز ان کی صلاحیتوں سے فائدہ اٹھانے میں ناکام رہے ہیں۔
بالی ووڈ شائقین کئی دہائیوں سے شاہ رخ خان اور سلمان خان جیسے سپر اسٹارز کے دیوانے ہیں یہی وجہ ہے کہ یہ اسٹارز باکس آفس پر راج کررہے ہیں۔ لیکن ان کی سخت محنت کے باوجود، بہت سے ہندی فلمساز ان کی صلاحیتوں سے فائدہ اٹھانے میں ناکام رہے ہیں۔ حال ہی میں پنک ولا کے ساتھ ایک خصوصی گفتگو میں انمول جموال، ایک یوٹیوبر اور فلم نقاد، اور کئی بالی ووڈ فلموں کے مارکیٹنگ ڈائریکٹر ورون گپتا نے اس اہم مسئلے پر تبادلہ خیال کیا۔ انہوں نے گفتگو کی کہ کس طرح بالی ووڈ کے متعدد فلمسازوں نے ان ستاروں کی بہترین صلاحیتوں کو سامنے لانے کیلئے کافی جدوجہد نہیں کی جبکہ جنوبی ہند کے فلمساز اپنی صلاحیتوں کو استعمال کرتے ہوئے ان اداکاروں کی صلاحیت کو ناظرین کے سامنے پیش کیا جس کی تازہ مثال ایٹلی کمار ہیں۔ انہوں نے ’’جوان‘‘ میں شاہ رخ خان کے ساتھ جو کیا وہ قابل تعریف ہے۔ یہی کام اے آر مروگادوس نے ’’گجنی‘‘ میں عامر خان کے ساتھ کیا تھا۔
یہ بھی پڑھئے: کترینہ کیف نے اپنے صحتمند اور خوبصورت بالوں کا راز بتایا
بحث کا آغاز کرتے ہوئے، ماہرین نے اس بات پر غور کیا کہ ایٹلی نے ’’جوان‘‘ میں شاہ رخ خان کی صلاحیت اور کشش کے ساتھ کیسے انصاف کیا یا ’’اینیمل‘‘ میں رنبیر کپور کے ساتھ سندیپ ریڈی وانگا نے اداکار کی صلاحیتوں کو کیسے استعمال کیا۔ ان فلم سازوں نے ان سپر اسٹارز کو مختلف انداز میں دکھایا اور بلاک بسٹر فلمیں بنائیں۔ گفتگو کے دوران، تفریحی صحافی اور تجارتی تجزیہ کار ہمیش مانکڈ نے اس بات پر زور دیا کہ اداکار اور ہدایت کار کے درمیان اعتماد ایسے نتائج کے حصول میں کس طرح کلیدی کردار ادا کرتا ہے۔
یہ بھی پڑھئے: سری لنکا نے بحر ہند میں ۱۰۰؍ سے زائد روہنگیا پناہ گزینوں کو بچایا
انہوں نے کہا کہ ’’جب کوئی ستارہ محسوس کرتا ہے کہ وہ محفوظ ہاتھوں میں ہے، تو وہ ہدایتکار کے سامنے ہتھیار ڈال دیتا ہے۔ لیکن اگر ہدایتکار اس کے اعتماد پر پورا نہیں اترتا تو اداکار کو کچھ اور کرنا پڑتا ہے۔‘‘ ایک مثال دیتے ہوئے انہوں نے انکشاف کیا کہ ایک بار ایک بڑے فلم ساز نے وضاحت کی تھی کہ ’’سلمان خان کے پاس دس مشورے تھے، جن میں سے چھ برے تھے، لیکن چار شاندار تھے اور فلم کو کسی اور سطح پر لے جا سکتے تھے۔ یہ ہدایتکار پر ہے کہ وہ اس بات کی نشاندہی کرے کہ کون سے خیالات کو شامل کرنا ہے اور کون سے نہیں۔‘‘ پھر انمول جموال نے سوال کیا کہ کیا سپر اسٹارز تبدیل ہونے کیلئے تیار ہیں؟ انہوں نے سلمان خان کی ’’کسی کا بھائی کسی کی جان‘‘ کا حوالہ دیا اور کہا کہ ’’یہاں معمولی نوعیت کا احساس ہے جہاں مضبوط اسکرپٹ کی کمی کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ کیا آپ کو ایٹلی جیسے کسی ہدایتکار کی ضرورت ہے کہ وہ اچھا اسکرپٹ تیار کرے اور اسٹار کو مزید بلند کرے؟‘‘ ان کا سوال اس بات کی عکاسی کرتا ہے کہ ہندی فلم سازوں اور اداکاروں نے تخلیقی حدود کو آگے بڑھانے کے بجائے اکثر محفوظ آپشن کا انتخاب کیا ہے۔
یہ بھی پڑھئے: فلپ لازارینی کا عالمی برادری سے اسرائیلی پروپیگنڈے کے خلاف مزاحمت کا مطالبہ
دوسری جانب ورون گپتا نے زور دیا کہ ہدایتکاروں کو اب اپنے اداکاروں کا اعتماد حاصل کرنا ہو گا۔ انہوں نے مثالیں دیں کہ ’’رنویر سنگھ جیسے اداکار آدتیہ دھر جیسے کسی پر بھروسہ کرتے ہیں کیونکہ انہوں نے اپنی صنف میں خود کو ثابت کیا ہے۔ یہ اعتماد اداکار کو ہدایت کار کے نقطہ نظر کو مکمل طور پر قبول کرنے کی اجازت دیتا ہے۔ اس کے بغیر، انتہائی باصلاحیت ستارے بھی جدوجہد کرتے ہیں۔ ‘‘ گپتا نے مزید وضاحت کی کہ جنوبی ہند کے فلم ساز پہلے ہی اس پہلو پر کام کر چکے ہیں کیونکہ وہ ستاروں اور کہانیوں دونوں کی کامیابی کو یقینی بنانے پر کام کرتے ہیں۔ تینوں ہی نے اس بات پر روشنی ڈالی کہ ناظرین، اداکاروں یا مارکیٹنگ سے زیادہ اہم ہیں۔ ورون نے نشاندہی کی کہ جب ہندی فلم کے ناظرین کی بات آتی ہے، تو کسی کو انہیں فلم دیکھنے کیلئے راضی کرنے کی ضرورت ہوتی ہے، ممکنہ طور پر اس لئے کہ انہیں کئی بار مایوس کیا گیا ہے۔
یہ بھی پڑھئے: مقبوضہ مغربی کنارے میں غیر قانونی اسرائیلی آباد کاروں نے مسجد کو نذر آتش کر دیا
اس کے برعکس، فلمیں دیکھنا جنوبی ہندوستان میں روزمرہ کے طرز زندگی کا ایک حصہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ ’’جنوب میں، فلم دیکھنا کوئی عیش و آرام یا آرام دہ سفر نہیں ہے، یہ مندر جانے جیسی ایک رسم ہے جو اس بات کی عکاسی کرتا ہے کہ دونوں صنعتوں میں فلم ساز اپنے کام سے کیسے رجوع کرتے ہیں۔ نتیجتاً، وہ بتاتے ہیں کہ بالی وڈ کے دونوں ستاروں کے درمیان مضبوط تعاون کی ضرورت ہے، اور ’’جوان‘‘ اور ’’کبیر سنگھ‘‘ جیسی فلمیں اس بات کا ثبوت ہیں کہ جب ایک ہدایت کار اور اداکار ایک دوسرے پر بھروسہ کرتے ہیں اور مشترکہ نقطہ نظر کیلئے کام کرتے ہیں، تو نتائج بدل سکتے ہیں۔