• Tue, 17 September, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

افسانہ: درد کی آنچ

Updated: September 04, 2024, 1:18 PM IST | Professor. Zahra Morak | Mumbai

رات کے گیارہ بج رہے تھے۔ گھر کے کاموں سے نپٹ کر میں برآمدے میں چلی آئی۔ برسات کا حسین موسم تھا۔ بھیگی رات جادو جگا رہی تھی۔ بارش کے قطرے موتیوں کی طرح زمین کے گلے کا ہار بن رہے تھے۔

Photo: INN
تصویر : آئی این این

رات کے گیارہ بج رہے تھے۔ گھر کے کاموں سے نپٹ کر میں برآمدے میں چلی آئی۔ برسات کا حسین موسم تھا۔ بھیگی رات جادو جگا رہی تھی۔ بارش کے قطرے موتیوں کی طرح زمین کے گلے کا ہار بن رہے تھے۔ ریان، عفان اور سارہ سو چکے تھے۔ جمال مجھے اکیلا دیکھ برآمدے میں چلے آئے پر مَیں تو خیالوں میں گم تھی۔ میرا تخلیل تو پنچھی بن کر بھیگے موسم کے مزے لوٹ رہا تھا۔ کبھی کبھی ہوا کے تیز جھونکوں سے پانی کی بوچھار برآمدے میں مجھے گدگدا دیتی۔ جی چاہتا عمر کی ساری بندشوں کو توڑ اس رم جھم کا لطف اٹھانے باہر نکل پڑوں۔ ان ننھے تھرکتے قطروں کو اپنے چہروں پر محسوس کروں۔ ان کی نمی اپنے بھیتر سمیٹ لوں۔ کالج کے زمانے میں یہ موسم میرے اور رجّی کے درمیان ہمیشہ تناؤ پیدا کر دیتا تھا۔ مَیں اور رجّی بچپن سے ایک دوسرے کے دوست تھے۔ لیکن میرے اور اس کے مزاج میں زمین اور آسمان کا فرق تھا۔ وہ سنجیدہ، شائستہ اور بردبار تھی اور میں بالکل غیر سنجیدہ، شریر اور مضطرب۔ میری فطرت تو جنگل میں بہتے جھرجھر کرتے جھرنے کی طرح بے کل تھی اور بارش میری سب سے بڑی کمزوری۔ جب بھی بارش برستی میرا من ناچ اٹھتا اور تن بارش کی ہر پھوار کو اپنے اندر سمیٹ لینے کے لئے بے قرار ہوجاتا۔
 میں اور رجّی پرسٹیج کالج میں آرٹس کے طالب علم تھے۔ کالج کی عمارت پہاڑی کے اوپر تھی۔ اسٹیشن سے اوپر پہنچنے کیلئے ایک لمبا راستہ تھا۔ راستے کے دونوں طرف تاڑ کے درخت تھے جو نہ سایہ دیتے اور نہ بارش سے بچاتے۔ چھتری تو بس نام کیلئے ہوتی کیونکہ ہوائیں چھتری کو ہم سے دو قدم آگے دھکیل ہمارا منہ چڑھاتیں۔ ایسے موسم میں تو میری بن آتی۔ رجّی کے لاکھ منع کرنے کے باوجود میں اپنا چھاتا بند کرکے اُس کے ہاتھ میں تھما دیتی اور خوشی سے سرشار برسات سے لطف اٹھاتی۔ وہ جھنجھلاتی، خفا ہوتی۔ بات نہ کرنے کی دھمکی دیتی مگر مجھ پر کوئی اثر نہ ہوتا۔ میں جانتی تھی کہ اس کی خفگی میں بھی بہت محبت چھپی ہوئی تھی۔ میں جانتی تھی کہ ہم ایک دوسرے کے بغیر رہ نہیں سکتے تھے۔ تھک کر وہ خاموش ہوجاتی گویا اپنی شکست تسلیم کر لی ہو۔ زندگی نے بھی تو اس کے ساتھ میری طرح کا سلوک کیا۔ اس وقت بھی وہ خفا ہوئی، چلّائی اور آخرکار ہار تسلیم کرلی۔ لیکن آج رجّی کی یاد رہ رہ کر کیوں ستا رہی ہے؟

یہ بھی پڑھئے:افسانہ : خوشبو کا کرب

ذہن سے رجّی کے خیال کو جھٹک میں موسم کی رعنائیوں میں مخمور ہوگئی کہ اچانک فون کی گھنٹی بجی۔ اس وقت کون ہوگا؟ میرا دل دھک دھک کرنے لگا۔ رات دیر سے آنیوالے فون اکثر پریشان کن ہوتے ہیں۔ بھاری دل سے مَیں نے فون اٹھایا۔ فون پر رجّی کے شوہر وسیم تھے۔ روتے روتے انہوں نے خبر دی کہ رجّی دنیا سے رخصت ہوگئی۔ ریسیور میرے ہاتھ سے گر گیا۔ سانسیں گم سی گئیں۔ آنکھیں ساون بھادوں بن گئیں۔ میری جگری دوست، میری ہمدم اب نہیں رہی۔ جی چاہتا تھا چیخ چیخ کر روؤں۔ دل و دماغ ماؤف ہوگئے پر سچ مچ کیا رجّی آج ابدی نیند میں سوگئی؟ اُس کے ارمان سات برس پہلے ہی خون ہوگئے تھے۔ وہ زندہ تھی مگر زندگی سے خالی تھی۔ سانسوں کی آمد و رفت تھی سو وہ بھی آج ختم ہوگئی میں پھوٹ پھوٹ کر رو پڑی۔ میرا دل چاہتا تھا کہ وسیم کو بتاؤں کہ وسیم تم قاتل ہو! ہاں! تم میری دوست کے قاتل ہو۔ اس کی مامتا کے قاتل ہو! اُس کے درد کی آنچ کو تم کیسے محسوس نہ کر پائے؟
 رجّی حسین اور تعلیم یافتہ تھی۔ والدین کی اکلوتی اولاد ہونے کی وجہ سے لاڈ و پیار میں پلی بڑھی تھی۔ اس کے والد شمس الدین کا شمار شہر کے متمول لوگوں میں تھا۔ بہت شریف اور رحم دل آدمی تھے۔ غریبوں کیلئے ان کے گھر کے دروازے ہمیشہ کھلے تھے۔ ان کی بیگم ریحانہ بڑی خلیق اور ملنسار تھیں۔ غریب رشتہ داروں کے سر پر ان کی شفقت کا سایہ تھا۔ وسیم ان کی سگی بہن روزینہ کی اکلوتی اولاد تھا۔ روزینہ کے شوہر شادی کے پانچ سال بعد ہی ایک کار حادثے میں چل بسے تھے۔ وسیم بچپن سے ہی حادثات کے طمانچوں کا شکار تھا۔ ان حادثات نے اسے غیر معمولی طور پر حساس اور سنجیدہ بنا دیا تھا مگر بلا کا ذہین تھا اسی لئے تعلیمی میدان میں کامیابی حاصل کرتا رہا۔ شمس الدین اور ریحانہ اسے بیٹے کی طرح پیار کرتے تھے۔ وسیم نے جب میڈیکل میں داخلہ لیا تو ریحانہ بیگم نے پورے خاندان میں مٹھائی تقسیم کروائی۔ پلک جھپکتے وسیم نے ایم بی بی ایس میں کامیابی حاصل کرلی۔ بیٹے کی ڈگری پانے کے بعد ایک طرف تو روزینہ خوشیوں سے سرشار تھی تو دوسری طرف شمس الدین اور ریحانہ بیگم مسرت سے پھولے نہ سمائے۔ خوشیوں کے اسی ماحول میں روزینہ نے اپنی بہن اور بہنوئی سے وسیم کیلئے رجّی کا رشتہ مانگ لیا۔ دونوں کے دل تو صرف میں جانتی تھی۔ رجّی محسن اور برد باری میں بے مثال تھی تو وسیم ذہانت اور وجاہت میں بے نظیر تھے۔ دونوں ایک دوسرے کو چاہتے تھے مگر زبان پر تہذیب اور تربیت کی مہر لگی تھی۔ روزینہ کو شادی کی جلدی تھی۔ وسیم ابھی آگے پڑھنا چاہتے تھے مگر ماں کی ضد کے آگے ان کی ایک نہ چلی۔ ڈھولک کی تھاپ اور شہنائیوں کی گونج میں رجّی دلہن بنا دی گئی۔ اُف! کتنی پیاری لگ رہی تھی۔ سرخ جوڑے میں اس کا معصوم حسین چہرہ قیامت ڈھا رہا تھا۔ سفید سوٹ میں وسیم بھی وجاہت کی بے مثال تصویر بنے ہوئے تھے۔ چاند اور سورج کی جوڑی معلوم ہورہی تھی۔ میں جب رجّی کو چھیڑتی وہ شرم سے گلگلوں ہوجاتی۔ اُسے وداع کرتے ہوئے ہم سب پھوٹ پھوٹ کر روئے۔ میں جب دوسرے دن اُسے میکے لانے کیلئے پہنچی تو اُسے پھول کی طرح شگفتہ پایا۔ سارے جہاں کی خوشیاں اُسکے چہرے پر رقصاں تھیں۔ پھر تو گیا دنوں کو پر لگ گئے۔ ہماری ملاقاتوں کا سلسلہ بھی جاری رہا۔ شادی کے بعد رجّی اور نکھر آئی۔

یہ بھی پڑھئے:افسانہ : ہم سفر

زندگی اپنی رفتار سے رواں دواں تھی کہ اچانک ایک دن ریحانہ آنٹی کا فون آیا۔ ’’شمّی فوراً گھر آجاؤ!‘‘ مَیں نے فکرمند لہجے میں پوچھا، ’’آنٹی سب خیریت تو ہے؟ انکل کیسے ہیں؟ کیا رجّی آئی ہے؟ رجّی تو اچھی ہے نا؟‘‘ انہوں نے کوئی جواب نہ دیتے ہوئے مجھے گھر پہنچنے پر اصرار کیا۔ دل میں ہزار وسوسے اٹھ رہے تھے۔ میں فوراً چل پڑی۔ جوں ہی رجّی کے گھر پہنچی آنٹی کو منتظر پایا۔ انہوں نے بتایا کہ آج رجّی جب سے آئی ہے کمرہ بند کرکے رو رہی ہے۔ کسی کو کچھ بتانے کو راضی نہیں۔ بات کرتے کرتے اُن کی آنکھیں نم ہوگئیں۔ مَیں نے انہیں تسلی دی اور سیڑھیاں پھلانگتے رجّی کے کمرے میں پہنچی۔ رجّی بستر پر اوندھی پڑی سسکیاں بھر رہی تھی۔ مجھے دیکھتے ہی بلک پڑی۔ میں نے آنسو پونچھے، چپ کرایا اور اس سے پوچھا کہ آخر ماجرا کیا ہے؟ وسیم سے لڑائی تو نہیں ہوئی؟ اس نے انکار میں گردن ہلا دی۔ پھر کیا بات ہے رجی رانی؟ خالہ نے کچھ کہہ دیا؟ نہیں وہ تو بہت پیار کرتی ہیں۔ پھر کیا بات ہے بتا تو سہی؟ آبدیدہ رجّی نے بتایا وہ ماں بننے والی ہے۔ مَیں نے ایک زور دار قہقہہ لگایا اور کہا، ’’بیوقوف یہ بھی کوئی رونے کی بات ہے؟ یہ تو خوشی کی بات ہے۔ چل میں جاکر آنٹی کو یہ خوشخبری سناؤں وہ بہت پریشان ہیں۔‘‘ یہ کہہ کر میں کمرے سے باہر جانے لگی مگر اُس نے میرا ہاتھ پکڑ لیا اور سسکتے ہوئے وہ کہہ ڈالا جس کی وسیم سے بالکل توقع نہیں تھی۔ ’’وسیم ابھی یہ ذمہ داری اٹھانا نہیں چاہتے۔ وہ قدرت کے اس فیصلے کے خلاف ہیں۔ مَیں نے لاکھ سمجھایا، منتیں کیں مگر وہ ٹس سے مس نہیں ہوئے۔ کہتے ہیں ابھی تو میری جدوجہد شروع ہوئی ہے میں اس پیشے میں قدم جما لوں پھر گھر گرہستی کی طرف توجہ دوں گا تاکہ اپنے بچوں کو ایک بہترین مستقبل دے سکوں۔ میں نے یہ وعدہ بھی کیا کہ میں تمہارے نصب العین میں کسی طرح کی کمی نہ ہونے دوں گی مگر وہ نہیں مانتے۔ ضد پر اڑے ہوئے ہیں۔‘‘ میں نے رجّی کو تسلی دی کہ فکر نہ کرو ہم سب مل کر وسیم کو منا لیں گے۔ ریحانہ اور روزینہ کو جب یہ بات معلوم ہوئی تو دونوں نے وسیم کو سمجھانے کی پوری کوشش کی، پیار کی ممتا کی دہائی دی مگر وسیم ٹس سے مس نہیں ہوئے۔ وسیم کے بدلتے تیور رجّی کے لئے سوہان روح تھے اسی لئے اُس نے آخرکار ہار مان لی۔ اسپتال میں داخل ہوتے وقت اس کا کرب ناقابل برداشت تھا۔ اس وقت مجھے وسیم پر بہت غصہ آرہا تھا۔ آخر اسے ماں کی خوشیاں چھیننے کا کیا حق تھا؟ مجھے ڈاکٹر وسیم کا قد بہت چھوٹا لگ رہا تھا۔ رجّی اسپتال سے گھر آئی تو پھول کی طرح شگفتہ نظر آنے والی رجّی نہ تھی۔ خاموش، لٹی لٹائی، گم سم اور کمزور بھی۔ اسی لئے والدین نے اسے میکے میں روک رکھا تھا۔ ماں باپ اسے خوش رکھنے کی ہر ممکن کوشش میں لگے رہتے۔ میں بھی اس کے پاس زیادہ وقت گزارتی مگر ایسا معلوم ہوتا گویا اس کے بھیتر کچھ ٹوٹ سا گیا ہے۔ وسیم روزانہ شام آکر چلے جاتے۔ وسیم اس کے احساس سے بے خبر نظر آئے۔ نہ جانے رجّی کے کرب کی آنچ اُن کو محسوس تک نہ ہوئی۔ جب رجّی کے چہرے پر بشاشت نظر آنے لگی تو روزینہ آنٹی اسے لینے آئیں۔ انہیں بہو کی جدائی بالکل گوارا نہ تھی اور بہو بھی ان سے بہت پیار کرتی تھی۔ کسی نے انکار نہیں کیا اور رجّی خوشی خوشی سسرال روانہ ہوگئی۔
 کبھی کبھی رجّی میرے گھر آجاتی تو بس ایک ہنگامہ ہوجاتا۔ وہ میرے بچوں کے ساتھ مل کر دھما چوکڑی کرتی۔ بچوں کے ساتھ اس کے چہرے کے گلاب کھل جاتے۔ اسے وقت کا احساس نہ رہتا۔ شام ہونے پر روزینہ آنٹی کے فون پر فون آنے شروع ہوجاتے۔ گاڑی دروازے پر آجاتی۔ ڈرائیور کئی مرتبہ دروازے پر دستک دیتا تب کہیں وہ گھر جانے کیلئے رضا مند ہوتی۔ میں اس کا درد سمجھتی تھی۔ وقت بھی دھیمے پاؤں گزر رہا تھا۔

یہ بھی پڑھئے:افسانہ: ’’زری آپا....‘‘

پانچ سال ہوچکے تھے۔ ایک دن بچوں کے ساتھ کھیلتے کھیلتے رجّی کی طبیعت اچانک بگڑنے لگی۔ میں نے فوراً گرم گرم کافی اُسے دے کر لٹا دیا اور فوراً آنٹی کو فون کیا۔ وہ فوراً فیملی ڈاکٹر سیما کے ساتھ آگئیں۔ چیک اَپ کرنے کے بعد جب ڈاکٹر سیما نے خوشخبری سنائی کہ رجّی ماں بننے والی ہے تو ہم سب خوشی سے اُچھل پڑے۔ اب تو وسیم کا شمار بھی شہر کے مشہور اور مقبول ڈاکٹروں میں ہونے لگا تھا۔ عزت، شہرت اور دولت اس کے قدم چوم رہی تھی۔ اس کی زندگی میں صرف اولاد کی کمی تھی۔ مَیں نے فون کرکے وسیم کو خوشخبری سنائی تو وہ فوراً رجّی کو لینے میرے گھر پر آگیا۔ وسیم اسے اپنے بازوؤں میں لئے اپنے گھر روانہ ہوا تو طمانیت کا احساس میرے رگ و پے میں سما گیا۔
 دوسرے دن ماں اور ساس دونوں رجّی کو ڈاکٹر مسز دارو والا کے پاس لے گئے۔ ڈاکٹر مسز دارو والا کا شمار شہر کی مشہور گائنالوجسٹ میں تھا۔ ان کے ہاتھ میں اللہ تعالیٰ نے ماؤں کی خوشیاں لکھ دی تھیں۔ اُن کے نرسنگ ہوم میں جگہ مشکل سے ملتی تھی۔ وہ ڈاکٹر وسیم کی دوست تھیں۔ انہوں نے فوراً رجّی کا معائنہ کیا اور خون کے رپورٹ لکھ دیئے۔
 ڈاکٹر کے خیال میں رجّی کے بدن میں خون کی کمی تھی۔ وسیم کی خوشی کا یہ عالم تھا کہ اپنی تمام مصروفیات ترک کرکے خود رپورٹ لینے پہنچے۔ رپورٹ دیکھ کر وسیم کچھ پریشان ہوگئے۔ رجّی کے خون کا گروپ ’او نگیٹیو‘ تھا۔ وہ جانتے تھے کہ اس گروپ والی خواتین کو تخلیقی عمل میں پریشانیاں ہوسکتی ہیں۔ ڈاکٹر دارو والا سے جب انہوں نے اپنی پریشانی کا ذکر کیا تو ڈاکٹر نے نہ صرف وسیم کو تسلی دی بلکہ اپنی مریضوں کا ثبوت بھی پیش کیا البتہ وسیم کو ہدایت دی کہ وہ رجّی کی صحت کا خیال رکھے۔ وسیم گھر جانے سے پہلے ساری تفصیل بتانے میرے پاس آئے۔ مَیں نے دلاسہ دیا کہ اللہ بڑا کارساز ہے ان شاء اللہ سب اُس کے کرم سے ٹھیک ہوگا مگر مَیں نے سخت تاکید کی کہ اس کی بھنک بھی رجّی تک نہ پہنچے۔

یہ بھی پڑھئے:افسانہ : جو یقیں کی راہ پہ چل پڑے

 رجّی کے تو انگ انگ سے خوشیاں پھوٹ رہی تھیں۔ ماں بننے کے حسین تصور نے اُسے اور بھی نکھار دیا تھا۔ سب کے لاکھ منع کرنے پر بھی اس نے چھوٹے چھوٹے کپڑے سینے شروع کر دیئے۔ اپنے ہاتھوں سے چھوٹے چھوٹے موزے اور سوئٹر بُن رہی تھی۔ دوڑ دوڑ کر ہر کام کرنے لگی تھی۔ ایسا لگ رہا تھا گویا اس کا بچپن جاگ اٹھا ہو۔ جیسے جیسے اس کے بھیتر کا وجود اسے اپنی موجودگی کا احساس دلانے لگا اس کی خوشیوں کو پَر لگنے لگے۔ وسیم مطمئن تھے اور مَیں اکثر اُس کے پاس چلی جاتی۔ اُسے زیادہ اُچھل کود کرنے سے منع کرتی مگر وہ کہاں مانتی؟ رجّی کی گود بھر گئی تو آنٹی نے سارے رشتہ داروں کو مدعو کیا اور اس تقریب کو ہر طرح سے منفرد بنانے میں کوئی کسر نہ چھوڑی۔ رجّی پر تو نگاہ ٹکتی ہی نہیں تھی۔ ماں بننے کا سرور اس کے حسن کو دوبالا کر رہا تھا۔ ’’اللہ چشم بد سے بچائے‘‘ مَیں دل ہی دل میں دعا مانگ رہی تھی۔ دعوت طعام کا اہتمام بڑا شاندار تھا۔
 کھانا کھا کر مہمان ایک ایک کرکے رخصت ہونے لگے تو مَیں اور رجّی آنٹی کے ساتھ سب سامان سمیٹنے میں لگ گئے۔ مَیں نے کئی مرتبہ رجّی کو کمرے میں لے جا کر لٹانے کی کوشش کی اور کہا کہ مَیں اور آنٹی سب نمٹا لیں گے مگر وہ کب مانتی؟ مَیں نے چینی کا ڈنر سیٹ صاف کرکے کچن سے آنٹی کو آواز دی کہ وہ ڈنر سیٹ الماری میں رکھ دیں۔ ڈنر سیٹ ٹیبل پر رکھ کر اُن کا انتظار کئے بنا مَیں باور چی خانے کی صفائی میں جٹ گئی کہ اچانک ایک زور دار دھماکہ سنائی دیا اور کانچ کے برتنوں کے ٹوٹنے کی آواز نے دل دہلا دیا۔ ارے ارے آنٹی گر تو نہیں گئیں؟ مَیں دوڑ کر ہال میں پہنچی مگر وہاں پہنچ کر دل چیرنے والا منظر تھا۔ رجّی خون میں لت پت زمین پر تڑپ رہی تھی۔ اس کے بدن پر اور چاروں طرف کرچیں ہی کرچیں تھیں۔ مَیں چلّائی دوڑ کر اُسے گود میں لے کر رجّی رجّی آواز دی مگر وہ ہوش میں ہوتی تو جواب دیتی۔ وہ تو بیہوش پڑی تھی۔ ہم سب اُسے ایمبولینس میں ڈال کر ڈاکٹر دارو والا کے اسپتال کی طرف دوڑ پڑے۔ رجّی کی زندگی خطرے میں تھی۔ ڈاکٹر نے بتایا کہ زچہ یا بچہ، دونوں میں سے کسی ایک کو بچایا جاسکتا ہے۔
 ہم سب سانس روکے کھڑے تھے۔ ہر پل بھاری ہر آواز گراں۔ آج تخلیق کرب بن گئی تھی۔ رجّی موت و حیات کی کشمش میں تھی اور ہمارے لئے لمحے صدیاں بن گئے تھے۔ رجّی کو بچا لیا گیا مگر اس کے بھیتر کے وجود کو بچایا نہیں جاسکا۔ ڈاکٹر نے یہ فیصلہ سنا کر کہ رجّی اب کبھی ماں نہیں بن سکتی ہم سب کو افسردگی کی دنیا میں دھکیل دیا۔
 چند دنوں بعد ہم رجّی کو اسپتال سے گھر تو لے آئے مگر اس کی خوشیاں نہ لوٹا پائے مامتا کی پیاس اُسے دیمک کی طرح چاٹ رہی تھی۔ اس کو خوش رکھنے کی کوئی تدبیرکارگر نہ ہوتی دیکھ سب نے وسیم پر زور ڈالا کہ وہ کسی بچے کو گود لے لے تاکہ رجّی کی مامتا کی پیاس بجھ جائے مگر وہ راضی نہیں ہوئے رجّی کے درد کی آنچ کو وہ محسوس ہی نہ کر پائے وہ اکیلی اس آگ میں سلگتی رہی اور آج ہم سب کو سسکتا چھوڑ اس دنیا سے منہ موڑ گئی۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK