Inquilab Logo

علی گڑھ ہجومی تشدد: مہلوک فرید کو مسلمان ہونے کے سبب نشانہ بنایا گیا: فیکٹ فائنڈنگ رپورٹ میں انکشاف

Updated: July 01, 2024, 3:46 PM IST | Lucknow

کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا لبریشن اور آل انڈیا سینٹرل کاؤنسل آف ٹریڈ یونیز کی رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ علی گڑھ ہجومی تشدد میں مہلوک محمد فرید کو اس لئے نشانہ بنایا گیا تھا کیونکہ وہ مسلمان تھا۔ فرید کے اہل خانہ نے الزام عائد کیا ہے کہ ’’پولیس ملزمین کو بچانے کیلئے تفتیش میں تاخیر کر رہی ہےـ۔‘‘

Violence against muslim esclate in yogi govt. Photo: INN
یوگی آدتیہ ناتھ کی حکومت میں مسلمانوں کے خلاف تشدد میں اضافہ ہوا ہے۔ تصویر: آئی این این

کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا (مارکسسٹ۔ لیننسٹ) لبریشن اور آل انڈیا سینٹرل کاؤنسل آف ٹریڈ یونینز کی ایک فیکٹ فائنڈنگ رپورٹ میں یہ انکشاف ہوا ہے کہ اترپردیش کے علی گڑھ میں ۱۸؍ جون کو مہلوک محمد فرید کو ہجوم نے اس لئے نشانہ بنایا تھا کہ وہ مسلم تھا۔ رپورٹ کے مطابق محمد فرید (۳۵؍ سال) کے ساتھ ہونے والا ظلم ہجومی تشدد اور نفرت انگیز جرائم کے زمرے میں آتا ہے۔ یہ رپورٹ، جو ۲۹؍ جون کو جاری کی گئی، میں کہا گیا ہے کہ محمد فرید اپنا کام مکمل کرنے کے بعد گھر لوٹ رہا تھا اور ۱۸؍ جون کی شب کو ضلع کے ماموں بھانجا علاقے میں مقامی ہجوم نے اسے گھیر لیا۔ ہجوم نے پہلے بطورمسلم اس کی شناخت کی اور قتل کے ارادے سے اس پر حملہ کیا۔ محمد فرید کو شدید زخم آئے تھے اور اسے علاقے کے ملکھن اسپتال داخل کیا گیا تھا۔

یہ بھی پڑھئے: ’من کی بات‘ میں مودی نے ۶۵؍ کروڑ ووٹروں کا شکریہ ادا کیا

فرید کی بے رحمی سے موت
پوسٹ مارٹم رپورٹ یہ کہتی ہے کہ فرید کو ہجوم نے لاٹھی سے ماراتھا جس کی وجہ سے اس کے جسم پر ۲۲؍ زخم آئے تھے۔ اس کی تین پسلیاں ٹوٹ گئی تھیں، ایک پھیپھڑا پنکچر ہو گیا تھا اوربہت زیادہ خون بہنے کی وجہ سے کھوپٹری پھٹ گئی تھی۔ فیکٹ فائنڈنگ رپورٹ میں مزید بتایا گیا ہے کہ ’’۱۸؍ جون کی رات کو ۱۳۸؍ سیکنڈ کے ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ تقریباً ۱۵؍ افراد، جن میں سے متعدد کے ہاتھوں میں لاٹھیاں ہیں، نے محمد فرید کو گھیر لیا تھا اور بے رحمی سے پیٹا۔ ویڈیو میں محمد فرید کو ہجوم سے انہیں چھوڑنے کی التجا کرتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے۔ 
تاہم، ۱۰۹؍ سیکنڈ کے دوسرے ویڈیومیں دیکھا جا سکتا ہے کہ ہجوم محمد فرید سے اپنے ان ساتھیوں کی شناخت کرنے کیلئے کہہ رہا ہے جو مبینہ طور پر فرید کے ساتھ گشتی معائنہ کر رہے تھے۔ تاہم، ویڈیو کے مطابق ہجوم میں ایک فرد کہہ رہا ہے’’اس کے گھٹنے توڑ دو۔‘‘ اس ویڈیو کے ذریعے محمد فرید کے بھائیوں کو معلوم ہوا کہ اسے ہجومی تشدد کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔‘‘

یہ بھی پڑھئے: مرکزی حکومت کے بجٹ ۲۰۲۴ءسے ۵؍ بڑی توقعات

 فرید اپنے گھر کا واحد کفیل تھا
رپورٹ کے مطابق ماموں بھانجا ، جہاں محمد فرید کو ہجومی تشدد کا نشانہ بنایا گیا، علی گڑھ جنکشن سے قریب مرکزی علی گڑھ میں ایک مارکیٹ ہے۔پورے مارکیٹ میں جے شری رام کے بڑے بڑے پوسٹر لگے ہیں (ملک بھر کے ان تمام علاقوں کی صورتحال ایسی ہی ہے، جہاں اعلیٰ ذات کے ہندو مقیم ہیں) ۔ رپورٹ میں محمد فرید اور اس کے اہل خانہ کی بھی نشاندہی کی گئی ہے ’’محمد فرید کے پاس ایک سفری تندور تھا جسے وہ ساتھ رکھتا تھا تاکہ تقریبات میں اس میں روٹیاں بنائی جاسکیں۔ فرید کا انحصار یومیہ کمائی پر تھا اور وہ یومیہ۴۰۰؍ روپے کماتا تھا۔ وہ اپنے گھر کا واحد کفیل تھا۔ اس کی والدہ، فالج سے متاثر ہیں اور متعدد دائمی امراض کا سامنا کر رہی ہیں۔ وہ بھی اپنے علاج کیلئے محمد فرید پر منحصر تھیں۔ فرید کے تمام پڑوسیوں نے اسے ایک اچھا انسان بتایا ۔ تاہم، فرید کے ۲؍ بھائی اور تین بہنیں ہیں۔ اس کا ایک بھائی اور ۲؍ بہنیں اسی کے محلے میں رہتے ہیں۔ ۱۸؍ جون کی رات ۱۰؍ بجکر ۳۰؍ منٹ میں فرید کے بھائی کے ایک پڑوسی نے اسے ویڈیو دکھایا جس میں فرید کو تشدد کا نشانہ بنایا جارہا تھا۔ فرید کا بھائی جو گزشتہ کچھ برسوں سے بلبھ گڑھ میں رہائش پذیر ہے، یہ خبر ملنے کے بعد علی گڑھ کیلئے روانہ ہوا۔ 

یہ بھی پڑھئے: علی گڑھ: ہجومی تشدد میں مسلم نوجوان کا قتل، ۴؍ حراست میں

مقامی بزنس مین عینی شاہدین کو دھمکارہا ہے
رپورٹ کے مطابق جائے وقوع پر جب فرید کو نشانہ بنایا جارہا تھا، تب کچھ افراد اس کی مدد کیلئے آئے، لیکن ہجوم نے انہیں بھی تشدد کا نشانہ بنایا۔ فرید کے اہل خانہ نے بتایا کہ واردات کے بعد علاقے کے مقامی بزنس مین نے عینی شاہدین کو مسلسل دھمکا رہا ہے اور ان پر دباؤ ڈال رہا ہے کہ وہ اس واقعے کے بارے میں پولیس اور حکام کو کچھ نہ بتائیں۔ اس علاقے سے متصل متعدد مسلمان دکانداروں کا کہنا ہے کہ شہر کے ہندو قیادت والے علاقوں میں مسلمانوں کو بلاوجہ پریشان کرنا اور انہیں نشانہ بنانا عام ہے۔

یہ بھی پڑھئے: بی این ایس کے تحت پہلی ایف آئی آر دہلی میں ٹھیلہ لگانے والے ایک شخص کیخلاف درج

فرید نے کوئی چوری نہیں کی تھی: ایک مسلمان دکاندار
تاہم، ایک مسلمان دکاندار نے بتایا کہ ’’ محمد فرید نے ہجوم کی جانب سے پریشان کئے جانے پر ردعمل کا اظہار کیا اس لئے اسے تشد د کا نشانہ بنایا گیا۔ مَیں اسے جانتا ہوں۔ وہ ایک محنتی شخص تھا۔ اس نے کوئی چوری نہیں کی تھی۔‘‘ 

وہ فرید کو پولیس کے حوالے بھی کر سکتے تھے، اسے قتل کیوں کیا ؟فرید کی بہن
فرید کی بہن نےفیکٹ فائنڈنگ ٹیم کو بتایا کہ ’’قانون ہم سب کیلئے یکساں ہے۔ اللہ جانتا ہے کہ یہ لوگ جھوٹ بول رہے ہیں۔ لیکن جو کچھ وہ کہہ رہے ہیں اگر سچ ہے تو ان کا فرض تھا کہ محمد فرید کو پولیس کے حوالے کیا جاتا۔ یہ لوگ اسے اتنی بے رحمی سے کیسے مار سکتے ہیں؟ ان کے پاس لوہے کی سلاخیں کیسے آئیں؟ انہوں نے اسے قتل کیوں کیا؟‘‘

یہ بھی پڑھئے: لوناؤلہ کے بھوشی ڈیم میں پونے کے ۵؍افراد غرقاب

فرید کو جے شری رام کے نعرے لگانے پر مجبور کیا گیا تھا: رپورٹ
رپورٹ میں یہ بھی انکشاف کیا گیاہے کہ ’’فرید کے اہل خانہ نے یہ بھی الزام عائد کیا ہے کہ ہجوم نے اسے مارنے سے قبل زبردستی اس کا پاجامہ اتارا تھا تاکہ اس بات کی تصدیق کی جاسکے کہ وہ مسلمان ہے۔‘‘ فیکٹ فائنڈنگ رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ فرید کے پڑوسیوں اور اہل خانہ نے الزام عائد کیا ہے کہ جن لوگوں نے اسے ماراپیٹا، انہوں نے اسے جے شری رام کے نعرے لگانے پر مجبور بھی کیا تھا۔ پڑوسیوں میں سے ایک نے الزام عائد کیا ہےکہ کلیدی مجرم، جس کا نام انکیت بتایا جا رہا ہے، وہ مقامی بی جے پی لیڈر کا رشتہ دار ہے اور یہ لوگ شہر میں ہنگامہ آرائی کرتے رہتے ہیں۔ اس نے ہی دیگر ملزمین کی حراست کے خلاف احتجاجاً دکانیں بند کروائی تھیں۔


کسی بھی بی جے پی ایم ایل اے نے ہمارے گھر کا دورہ نہیں کیا: اہل خانہ
فریدکے اہل خانہ نے بتایا کہ ’’دیگر بی جے پی عہدیدار بھی ملزمین کی حمایت میں آواز بلند کر رہے ہیں۔ تاہم، کسی بھی بی جے پی ایم ایل اے نے اس واردات کے بعد ان کے گھر کا دورہ نہیں کیا اور نہ ہی اس واردات کے تعلق سے ان سے رابطے میں ہے۔‘‘ 

کسی کو اتنی بے رحمی سے کیسے مارا جا سکتا ہے: رہائشی
جائے وقوع کے ایک رہائشی نے فیکٹ فائنڈنگ ٹیم کو بتایا کہ ’’بی جے پی نے اس علاقے میں تناؤ پھیلانے کی کوشش کی ہے۔ اس واردات کے بعد علاقے میں ہندو اور مسلمانوں کے درمیان تناؤ میں اضافہ ہوا ہے۔ یہ لوگ یہاں پتھراؤ کی افواہیں اُڑا رہے ہیں۔ یہ لوگ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ ہم مسائل کھڑے کر رہے ہیں البتہ اصل میں یہی مسائل کھڑے کررہے ہیں۔ کسی کو بھی اتنی بے رحمی سے نہیں مارنا چاہئے تھا۔‘‘

یوگی کے بلڈوزر صرف ہمارے لئے ہی کیوں ہیں: فرید کے بڑے بھائی
 فرید کے بڑے بھائی نے دعویٰ کیا ہےکہ ملزمین کو بچانے کیلئے جان بوجھ کر تفتیش میںتاخیر کی جا رہی ہے۔‘‘ انہوں نے تفتیشی ٹیم سے کہا کہ ’’یوگی کے بلڈوزر صرف ہمارے لئے ہی کیوں ہیں؟ انہوں نے اسے اس لئے موت کے گھاٹ اتار دیاکیونکہ وہ مسلمان تھا اور اس وقت تنہا تھا۔ اسے ہجومی تشدد میں بے دردی سے مار دیا گیا۔ متعدد سیاستداں یہاں ہم سے ملاقات کیلئے آتے ہیں لیکن کیامیرے بھائی کو انصاف ملے گا؟جائے واردات کے قریب متعدد سی سی ٹی وی کیمرے ہیںجن میں ہم دیکھ سکتے ہیں کہ وہ گھر میں داخل ہو رہا ہے۔ پولیس بآسانی سی سی ٹی وی تصاویر حاصل کر سکتی ہے اور معلوم کر سکتی ہے کہ حقیقت کیا ہے۔ پھر آخر یہ لوگ دیر کیوں کر رہے ہیں؟حالانکہ یہ لوگ جانتے ہیں کہ یہ معاملہ بالکل واضح ہے۔‘‘

 مجرمین کو سبق سکھانے کیلئے ایسے بلڈوزر چلائے جائیں گے: بجرنگ دل یونٹ کے کنوینر
رپورٹ میں انڈین ایکسپریس کی رپورٹ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا گیا ہے کہ ’’علاقے میں بجرنگ دل کے کارکنوں نے جائے وقوع کے قریب کشیدگی بڑھانے کی کوشش کی تھی۔‘‘ تاہم، بجرنگ دل کے مقامی یونٹ کے کنوینر گورو شرما نے کہا کہ ’’میں نہیں سمجھتا کہ ہجومی تشدد جائز ہے۔ جو لوگ چور کو بچانے کی کوشش کر رہےہیں، انہیں واضح طور پر یہ سمجھ لینا چاہئے کہ یو پی اب بھی وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ کے زیر قیادت ہےجن کی حکومتجرائم کیلئے رتی برابر بھی روادارنہیں۔ یہ کوئی نہ بھولے کہ ایسے بلڈوزر کے ذریعے اس طرح کے عناصر کے گھر توڑے گئے ہیں اور آئندہ بھی مجرمین کو سبق سکھانے کیلئے بلڈوزر چلائے جائیں گے۔‘‘
 رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ اس طرح کے تشددکے واقعات میں دیکھا گیا ہے کہ آر ایس ایس ، بی جے پی ، وی ایچ پی نے نہ صرف اس طرح کے تشدد کو ہوا دی ہے بلکہ وہ تشدد کی حقیقت کو تبدیل کر دیتے ہیں اورمتاثرین مسلمانوںکو بطور مجرم پیش کرتے ہیں۔‘‘ رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ ’’بی جے پی رکن پارلیمان نے واضح طور پران بیانات کو تبدیل کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے اور وہ ملزمین کو مسلسل بچانے کی کوشش کر رہا ہے۔ پولیس مقامی مسلمان طبقے پر دباؤ ڈال رہی ہے۔ ‘‘

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK