Updated: June 18, 2024, 7:57 PM IST
| New Delhi
اے آئی ایم آئی ایم کے سربراہ اور حیدرآباد کے رکن پارلیمان اسد الدین اویسی نے بارہویں کی پولیٹکل سائنس کی کتابوں سے بابری مسجد کا نام حذف کرنے کے تعلق سے کہا کہ ’’ہندوستانی بچوں کو بابری مسجد کے بارے میں معلوم ہونا چاہئے کہ سپریم کورٹ نے مسجد کی انہدامی کارروائی کو ’’سنگین مجرمانہ فعل قرار دیا تھا۔‘‘
۱۹۹۲ء میں شرپسندوں نے بابری مسجد کو مسمار کیا تھا۔ تصویر: آئی این این
آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین (اے آئی ایم آئی ایم) کے سربراہ اور حیدرآباد کے رکن پارلیمان اسد الدین اویسی نے این سی ای آر ٹی کو بابری مسجد کو کتابوں کے نصاب سے ہٹانےپر تنقید کا نشانہ بنایا۔ خیال رہے کہ این سی ای آر ٹی نے ۱۲؍ ویں جماعت کی سیاست کی کتاب میں ترمیم کی ہے اور اس میں سے ’’بابری مسجد‘‘ کو ہٹا دیا ہے۔
اس ضمن میں اویسی نے اپنے ایکس پوسٹ میں لکھا کہ ’’ہندوستانی بچوں کو بابری مسجد کے انہدام کے بارے میں معلوم ہونا چاہئے اور وہ ’مجرمانہ کارروائیوں کی تعریف ‘ کرتے ہوئے بڑے نہیں ہو سکتے۔‘‘
یہ بھی پڑھئے: نیٹ معاملہ: اگر غلطی کی ہے تو اسے قبول بھی کیجئے: سپریم کورٹ
انہوں نے اپنے ایکس پوسٹ میں مزید لکھا ہے کہ این سی ای آر ٹی نے بابری مسجد کے لفظ کو ’’تین گنبد والی عمارت ‘‘ سے تبدیل کرنے کا فیصلہ کیاہے۔تعلیمی ادارے نے ایودھیا کے فیصلے کو ’اتفاق رائے‘ کی مثال قرار دینے کا بھی فیصلہ کیا ہے۔
اویسی کے مطابق ’’ہندوستانی بچوں کو معلوم ہونا چاہئے کہ سپریم کورٹ نے بابری مسجد کے انہدام کو ’’سنگین مجرمانہ فعل ‘‘ قراردیا تھا۔ انہیں یہ بھی معلوم ہونا چاہئے کہ ۱۹۴۹ء میں مسجد کی بے حرمتی کی گئی تھی اور ۱۹۹۲ء میں ہجوم نے اسے مسمار کر دیا تھا۔ ہندوستانی بچے مجرمانہ کارروائیوں کی ستائش کرتے ہوئے بڑے نہیں ہو سکتے۔‘‘
یہ بھی پڑھئے: ایران: اسپتال میں آتشزدگی، ۹؍ مریض ہلاک، دیگر زخمی
این سی ای آر ٹی نےبارہویں جماعت کی پولیٹیکل سائنس کی کتاب سے جن حصوں میں ترمیم کی ہے یا جو چیزیں ہٹائی ہیں ان میں بی جے پی کی گجرات کے سومناتھ سے ایودھیا تک بی جے پی کی رتھ یاترا، کار سیوکوں کے کردار، ۶؍ دسمبر کو بابری مسجد کے انہدام کے بعد ہونے والا مسلم مخالف تشدد ، بی جے پی کے اقتدار والی ریاستوں میں صدر راج اور زعفرانی پارٹی کا ایودھیا میں ہونے والے واقعات پر اظہار افسوس شامل ہے۔
یہ بھی پڑھئے: فرانس: ہتھیاروں کی نمائش میں عدالت کی اسرائیلی کمپنیوں اور ملازمین پر پابندی
این سی ای آر ٹی کی سابقہ کتاب میں بابری مسجد کے حوالے سے یہ لکھا ہوا تھا ’’بابری مسجد کو ۱۶؍ ویں صدی میں مغل بادشاہ بابر کے جنرل میر باقی نے تعمیر کروایاتھا۔ تاہم، نئی کتاب میں بابری مسجد کے لفظ کو ’’تین گنبدوں والے ڈھانچے‘‘ سے تبدیل کیا گیا ہےجسے ۱۵۲۸ء میں شری رام کی جائے پیدائش پر بنایا گیا تھا۔ لیکن مسجد کے ڈھانچے کے اندرونی و بیرونی حصوں ہندو علامتیں اور آثار نمایاں تھے۔ تاہم نئی کتاب میں ۲۰۱۹ء میں سپریم کورٹ کا سنایا گیا فیصلہ بھی شامل ہے جبکہ اس میں یہ نہیں بتایا گیا ہے کہ اس فیصلے کو مسلم لیڈران اور قانونی ماہرین نے وسیع پیمانے پر تنقید کا نشانہ بنایا تھا۔
یہ بھی پڑھئے: این سی ای آر ٹی کی کتابوں میں ’’انڈیا‘‘ اور ’’بھارت‘‘ دونوں مستعمل
این سی ای آر ٹی کے اس فیصلے کی حمایت کرتے ہوئے این سی ای آر ٹی کے ڈائریکٹر پرساد ساکلانی نے کہا کہ ’’کیا طلبہ کو کتابوں میں تشدد کے بارے میں پڑھایا جانا درست ہے؟‘‘انہوں نے مزید کہا کہ ’’ہم بچوں کو مثبت شہری بنانا چاہتے ہیں ، متشدد اور افسردہ افراد نہیں۔طلبہ کو یہ بتایا جائے کہ یہ کیا ہوا تھا اور کیسے ہوا تھا ، لیکن تب جب وہ بڑے ہو جائیں۔ اس تبدیلی کے بارے میں شور وغل بے معنی ہے۔‘‘