Updated: January 03, 2025, 11:37 AM IST
| Dhaka
بنگلہ دیش میں ۲۰۱۰ء سے شروع ہونے والے ’’رِکتہ اختر بانو لرننگ ڈس ایبیلٹی اسکول‘‘ میں تقریباً ۳۰۰؍ معذور طلبہ زیر تعلیم ہیں۔ رِکتہ بانو کو بی بی سی ۲۰۲۴ء کی ۱۰۰؍ متاثر کن خواتین کی فہرست میں شامل کیا گیا ہے۔بیٹی کی معذوری نے انہیں معذور بچوں کیلئے خاص اسکول شروع کرنے کی ترغیب دی۔
رِکتہ اختر بانو اسکول کے احاطے میں بچوں کے ساتھ۔ تصویر: ایکس
اپنی آٹسٹک بیٹی کو مقامی اسکول میں داخل کروانے کیلئے تین سال کی جہد مسلسل کے بعد ناکامی ملنے پر رِکتہ اختر بانو نے ہتھیار ڈالنے کے بجائے اپنا اسکول شروع کرنے کا فیصلہ کیا۔ ۲۰۰۷ء میں برستی مونی، جو اَب ۲۳؍ سال کی ہیں، کو مقامی اسکول میں داخلہ دینے سے اس لئے انکار کیا گیا تھا کہ وہ دماغی فالج کا شکار تھیں ۔ عرب نیوز سے گفتگو کے دوران مونی کی ماں رکتہ اختر بانو نے بتایا کہ ’’جب میں نے پہلی مرتبہ ۲۰۰۷ء میں مونی کے داخلے کیلئے کوشش کی تو مجھے بتایا گیا کہ خصوصی توجہ کے حامل بچوں کو عام اسکول میں داخل نہیں کیا جاتا۔ لیکن مونی اسکول جانے کیلئے بے تاب تھی۔ میں نے اگلے سال دوبارہ کوشش کی، لیکن ایک بار پھر میری کوشش ناکام ہوگئی۔
یہ بھی پڑھئے: غزہ: اسرائیل کے ذریعے بشمول ۲۳۸؍ نومولود ، ۱۰۹۱؍ بچوں کا قتل
بعد ازاں رکتہ بانو ڈھاکہ سے وزارت تعلیم گئیں اور انہیں معلوم ہوا کہ ہر پرائمری اسکول میں پانچ معذور بچوں کو داخل کرنے کا کوٹہ ہے۔ انہوں نے دوبارہ اپنے مقامی اسکول سے رابطہ کیا اور اس اصول کا حوالہ دیا۔ لیکن منتظمین نے اسکول میں معذور بچوں کی دیکھ بھال کیلئے درکار وسائل کی عدم دستیابی کی وجہ سے ان سے درخواست کی کہ وہ اپنی بیٹی کیلئے ایک اٹینڈنٹ فراہم کرے۔ کچھ عرصے کیلئے مونی کا ایک دوست، جو اسی اسکول میں زیرِ تعلیم تھا، نے اپنی خدمات فراہم کیں لیکن یہ انتظام موزوں نہیں تھا۔ لہٰذا ۲۰۰۹ء میں رکتہ بانو نے اپنے طور پر ایک اسکول شروع کرنے کا فیصلہ کیا۔ بانو کے مطابق، ’’میں ہار ماننے کو تیار نہیں تھی، میرے شوہر نے اسکول کی تعمیر کیلئے آبائی زمین کا ایک ٹکڑا فراہم کیا۔ نیز میں نے زمین کا ایک ٹکڑا بیچ دیا جو مجھے اپنے والد سے وراثت میں ملا تھا۔ مجموعی طور پر، اسکول کی تعمیر میں مجھے تقریباً ۸؍ ہزار ڈالر کی لاگت آئی۔‘‘
یہ بھی پڑھئے: بہار: پرائیویٹ اسکولوں میں اردو پڑھانے کی ہدایت پر تنازع کھڑا ہو گیا
۲۰۱۰ء میں، کریگرام ضلع کے چلماری میں `رِکتہ اختر بانو لرننگ ڈس ایبلٹی اسکول میں طلبہ کے داخلے کا آغاز ہوا۔ ابتداء میں اس اسکول میں ایسے بچوں کو داخلہ دیا جاتا تھا جو آٹسٹک ہیں یا سیکھنے کی معذوری کا شکار ہیں، اب اس اسکول میں مختلف ذہنی اور جسمانی معذوری کے شکار ۳۰۰؍ طلبہ زیرِ تعلیم ہیں۔ بانو کے مطابق، ’’ہم طلبہ کو مختلف اشاروں کی زبانیں، زبان، کھیل، موسیقی، سلائی وغیرہ سکھاتے ہیں۔ اس کے علاوہ، ہم انہیں بنیادی صحت کی دیکھ بھال، کھانے اور دیگر خدمات فراہم کرتے ہیں۔ ہم پانچویں جماعت تک تعلیم فراہم کرتے ہیں۔ مزید یہ کہ ہمارا اسکول محکمہ سماجی بہبود کے ساتھ رجسٹرڈ ہے، اور اس طرح، ہمارا نصاب بھی حکومت سے منظور شدہ ہے۔ ہمارے اسکول میں اساتذہ اور معاون عملہ کی کل تعداد ۲۱؍ ہے۔ جن کی تنخواہوں کا ایک حصہ حکومت ادا کرتی ہے۔‘‘
یہ بھی پڑھئے: جیلوں میں ذات پات کی تفریق کو روکنے کیلئے جیل کتابچے میں ترمیم کی گئی
واضح رہے کہ تقریباً ۳ء۴؍ ملین بنگلہ دیشی مختلف قسم کی معذوری کا شکار ہیں۔ ان میں سے ۵۰؍ فیصد سے زیادہ نے کسی قسم کی تعلیم حاصل نہیں کی۔ معذور افراد پر ۲۰۲۱ء کا قومی سروے ظاہر کرتا ہے کہ ان میں سے صرف ۲۳؍ فیصد نے پرائمری اسکول تک تعلیم حاصل کی ہے۔ اس صورتحال میں بانو معذور بچوں کے لئے مسیحا کی حیثیت رکھتی ہیں ۔ ادارے کو چلانے کیلئے بانو سالانہ تقریباً ۲۵۰۰؍ ڈالر خرچ کرتی ہیں۔ چونکہ حکومتی امداد محدود ہے، اس لئے زیادہ تر رقم ان کی اپنی بچت، اساتذہ کے تعاون اور عطیہ دہندگان سے حاصل ہوتی ہے۔ بانو کہتی ہیں کہ ’’میں تمام معذور بچوں کیلئے رہائشی انتظامات کے ساتھ ایک اسکول چلانے کا خواب دیکھتی ہوں، تاکہ دور دراز علاقوں کے بچے یہاں داخلہ لے سکیں۔ بعض اوقات، والدین ان بچوں کو گھر تک محدود رکھتے ہیں، میرا خواب ہے کہ یہ بچے یہاں رہ کر حصول تعلیم کے ساتھ مختلف مہارتیں سیکھیں، اور باعزت طریقے سے زندگی گزاریں۔ مجھے امید ہے کہ اس اسکول کی شہرت پورے ملک اور دنیا بھر میں پھیلے گی، اس طرح دیگر معذور بچوں کو سیکھنے کے مواقع ملیں گے۔ یہ بات یاد رکھیں کہ انہیں تعاون اور حمایت کی ضرورت ہے، ہمدردی کی نہیں۔‘‘
یہ بھی پڑھئے: ممبئی: نئے سال کے موقع پر ٹرافک قوانین کی خلاف ورزی پر۸۹؍ لاکھ روپئے جرمانہ وصول
واضح رہے کہ گزشتہ ماہ، رکتہ اختر بانو لرننگ ڈس ایبلٹی اسکول کو ’’معذوری کے متعلق کمیونٹی کے خیالات پر مثبت اثرات مرتب کرنے والے ادارے‘‘ کے طور پر تسلیم کیا گیا۔ اور بانو کو بی بی سی ۲۰۲۴ء کی ۱۰۰؍ متاثر کن خواتین کی فہرست میں شامل کیا گیا۔ بنگلہ دیش کی سب سے بڑی ترقیاتی تنظیم ’’بی آر اے سی‘‘ میں تعلیم، مہارت کی ترقی اور نقل مکانی کے ڈائریکٹر صفی رحمان خان کے مطابق، ’’یہ اسکول امید کی علامت بن گیا ہے، یہ ظاہر کرتا ہے کہ کس طرح ہمارا ایک قدم معاشرے میں مثبت تبدیلی لا سکتا ہے۔ رِکتہ کے کام نے نہ صرف معذور بچوں کو حصول تعلیم کے مواقع فراہم کئے بلکہ کمیونٹی کے نقطۂ نظر کو بھی تبدیل کیا ہے۔‘‘ انہوں نے مزید کہا کہ، ’’ان کا کام شمولیت کی طاقت کا ثبوت ہے اور ہم سب کو ایسے اقدامات میں سرمایہ کاری کرنے کی دعوت دیتا ہے۔ رکتہ جیسے لیڈروں کا ساتھ دے کر، ہم ایک ایسا مستقبل بنا سکتے ہیں جہاں کوئی بچہ پیچھے نہیں رہے گا، اور ہر شخص منصفانہ اور ہمدرد معاشرے میں اپنا کردار ادا کر سکتا ہے۔‘‘