• Fri, 10 January, 2025
  • EPAPER

Inquilab Logo

دہلی فساد ۲۰۲۰ء: شاہین باغ `نانی دادی` احتجاج نہیں، سازش کا مقام تھا: دہلی پولیس

Updated: January 09, 2025, 8:44 PM IST | Inquilab News Network | New Delhi

دہلی پولیس نے عدالت کو بتایا کہ شاہین باغ احتجاج، `نانی دادی` کا احتجاج نہیں بلکہ مصنوعی اور منصوبہ بند تھا، اس کے ذریعے دہلی فساد کی سازش رچی گئی تھی۔ عدالت نے دہلی پولیس سے پوچھا کہ کیا صرف احتجاجی مقام قائم کرنے پر ملزمین پر یو اے پی اے لگایا جاسکتا ہے؟

Photo: INN
تصویر: آئی این این

دہلی پولیس نے بدھ کو دہلی فسادات ۲۰۲۰ء کے ملزمین کی درخواست ضمانت پر سماعت کے دوران دہلی ہائی کورٹ کو بتایا کہ شاہین باغ کا احتجاج "نانی، دادی کا احتجاج" نہیں تھا بلکہ اصل مقصد کو چھپانے کیلئے استعمال کیا گیا۔ "بڑے پیمانے پر تشدد" کو ہوا دینا شاہین باغ مظاہرین کا اصل منصوبہ تھا۔ پولیس نے عدالت کو مزید بتایا کہ دسمبر ۲۰۱۹ء سے مارچ ۲۰۲۰ء تک چلنے والا شاہین باغ احتجاج مصنوعی تھا اور اس کی منصوبہ بندی شرجیل امام اور آصف مجتبیٰ نے کی تھی۔ پولیس نے دہلی ہائی کورٹ میں مزید کہا کہ ڈی پی ایس جی واٹس ایپ گروپ پر ۱۷ فروری ۲۰۲۰ء کے پیغامات واضح طور پر تشدد کیلئے اکسانے کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔ گروپ رکن اویس سلطان خان کے پیغام سے واضح ہو جاتا ہے کہ یہ صرف تشدد کو بھڑکانے کی تجویز نہیں تھی، بلکہ وہ خود بھی اپنے دوستوں یعنی سازش کرنے والوں کے ساتھ تشدد میں شریک تھے۔

پولیس نے عدالت کو بتایا کہ احتجاجی مقامات کا فیصلہ ایک سوچی سمجھی سازش کے تحت کیا گیا تھا۔ خاص طور پر، شاہین باغ کے احتجاج کو `نانی دادی احتجاج` کے طور پر شہرت دی گئی لیکن تحقیقات سے پتہ چلتا ہے کہ یہ احتجاجی مقامات سوچ سمجھ کر طے کئے گئے تھے۔ پولیس کے مطابق، شرجیل امام کی اپنے بھائی مزمل امام کے ساتھ بات چیت سے واضح ہو جاتا ہے کہ دوسرے احتجاج کے ماسٹر مائنڈ "شرجیل امام اور آصف مجتبیٰ تھے۔ پولیس نے عدالت میں کہا کہ شاہین باغ احتجاج میں مقامی حمایت کی کمی تھی اس لئے دوسرے علاقوں سے لوگوں کو لایا گیا۔ ۱۹ دسمبر ۲۰۱۹ء کو شرجیل امام کی آفرین فاطمہ کے ساتھ واٹس ایپ چیٹ کا حوالہ دیتے ہوئے، پولیس نے عدالت کو بتایا کہ مقامی کالونی کے رہائشی احتجاج کی مخالفت کر رہے تھے اور شرجیل امام نے کہا تھا کہ وہ جواہر لال نہرو یونیورسٹی (جے این یو) سے لوگوں کو بلائیں گے۔

یہ بھی پڑھئے: چیف جسٹس نے الہ آباد ہائی کورٹ سے جج کے مسلم مخالف تبصرے پر تازہ رپورٹ طلب کی

احتجاج کا پہلا مرحلہ `ناکام` کیوں ہوا؟

دہلی پولیس نے عدالت کو ۲۰۱۹ء میں احتجاج کے پہلے مرحلہ کے ناکام ہونے اور اس دوران تشدد نہ ہونے کی وجوہات بھی پیش کیں جو مندرجہ ذیل ہیں۔ 

۱) ناکافی مقامی متحرک کاری - پولیس کا کہنا ہے کہ احتجاج کے پہلے مرحلے کے دوران مقامی طور پر حمایت کم تھی اور اس کمی کو دور کرنے کے لئے فوراً JACT، ایک واٹس ایپ گروپ بنایا گیا جس کا مقصد صرف "آگاہی" پیدا کرنا تھا اور اسے خاص طور پر کسی بھی دوسری سرگرمی کے انعقاد سے منع کیا گیا تھا۔  

۲) فرقہ وارانہ لیبل - پولیس نے عدالت کو بتایا کہ پورے احتجاج کے ساتھ "حد سے زیادہ فرقہ وارانہ" لیبل لگا ہوا تھا۔ احتجاج کی شروعات "جے این یو کے مسلم طلبہ" کے ذریعہ ہوئی تھی اور اس کے بعد جامعہ ملیہ اسلامیہ اور علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے ساتھ شراکت کی گئی۔ پولیس نے شرجیل امام کے مسلم شناخت کو برقرار رکھنے اور سیکولرزم سے گریز کرنے کی ہدایت دینے والے پیغامات کا حوالہ بھی دیا۔ 

۳) مقامی لوگوں کی حمایت کا فقدان - پولیس کے مطابق، مقامی لوگوں کی کم حمایت کی وجہ سے پہلے مرحلے کے ہنگاموں کے بعد، "اسپاٹ ہینڈلرز"؛ "ریموٹ سپروائزر" اور "باہری لیڈرز" کے ذریعے گہرے دخول اور لائیو رپورٹنگ کا طریقہ کار تیار کیا گیا۔

۴) احتجاجی مقامات کے درمیان ہم آہنگی کی عدم موجودگی - پولیس نے بتایا کہ فسادات کے پہلے مرحلے کے دوران، کوئی واضح ہم آہنگی نہیں تھی، جسے دوسرے مرحلے میں مضبوطی سے تیار کیا گیا تھا۔

۵) موثر پولیس ایکشن - پولیس نے عدالت کو بتایا کہ کس طرح مظاہروں کے پہلے مرحلے میں پولیس نے سخت اور موثر کارروائی کی جس کے نتیجے میں "پہلے مرحلے کے فسادات میں درج ایف آئی آر میں متعدد فسادیوں کا نام لیا گیا اور آخرکار فسادات کا مقدمہ درج کیا گیا۔"

یہ بھی پڑھئے: دنیا کی۵۰۰؍ بااثر مسلم شخصیات: اردن کے رائل اسلامک سینٹر کی فہرست میں برصغیر کے متعدد نام شامل

عدالت کا دہلی پولیس سے سوال: `کیا صرف احتجاجی مقامات قائم کرنے کی بنیاد پر ملزمین پر یو اے پی اے لگایا جاسکتا ہے؟ 

دہلی ہائی کورٹ نے بدھ کو دہلی فسادات ۲۰۲۰ء سے جڑے مقدمات کی سماعت کے دوران پولیس سے سوال کیا کہ کیا ملزمین کا احتجاج کیلئے مقامات قائم کرنا، ان کے خلاف غیر قانونی سرگرمیوں کی روک تھام قانون (یو اے پی اے) کے تحت کارروائی کرنے کیلئے کافی ہے؟ قومی دارالحکومت میں شہریت ترمیمی قانون کے خلاف مظاہروں کے درمیان ۲۰۲۰ء میں ہوئے فسادات سے متعلق مقدمات کی سماعت کرتے ہوئے جسٹس نوین چاولہ اور شلیندر کور نے یہ تبصرہ کیا جب دہلی پولیس، میسجنگ ایپلی کیشن واٹس ایپ پیغامات کا حوالہ دیتے ہوئے اس معاملے میں ملزم ۸ طلبہ کارکنوں کی ضمانت کی درخواست کی مخالفت کی اور ان کے خلاف `سخت رویہ` اپنانے کی اپیل کی۔ بنچ نے پولیس سے پوچھا، "کیا آپ کا کیس صرف اتنا ہی ہے کہ آپ نے صرف احتجاج کی جگہ کے قیام کرنے کو کافی سمجھ کر ملزمین پر یو اے پی اے لگا دیا ہے یا احتجاج کا مقام جس کے نتیجے میں تشدد ہوا، یو اے پی اے کے تحت کیس کے لئے کافی ہے؟" عدالت نے پولیس پر واضح کیا کہ وہ "ملزمین کے ارادے اور نیت" کو فوقیت دے گی۔ عدالت نے کہا کہ "ہمارے لئے سب سے اہم بات یہ ہے کہ ملزمین کا ارادہ کیا تھا؟ یو اے پی اے کیلئے ارادہ اہم ہوتا ہے جسے آپ کو ثابت کرنا باقی ہے۔" 

بدھ کو، خصوصی پبلک پراسیکیوٹر امیت پرساد نے، دہلی پولیس کی نمائندگی کرتے ہوئے، عدالت کو کئی واٹس ایپ پیغامات دکھائے اور دعویٰ کیا کہ "پوری سازش کو متعدد واٹس ایپ گروپس کے ذریعے انجام دیا گیا تھا۔" جب پرساد نے دو افراد کے درمیان پیغامات کا حوالہ دیا جو اس معاملے میں نامزد نہیں تھے، تو بنچ نے پوچھا: "آپ ان دونوں کو کیسے چھوڑ سکتے ہیں؟" پرساد نے جواب دیا کہ پولیس اپنا مقدمہ قائم کرنے کے لئے ان کے پیغامات پر انحصار کر رہی ہے۔ عدالت نے یہ بھی کہا کہ بیشتر مظاہرین ایک قانون کے خلاف احتجاج کر رہے تھے اور انہیں لگا ہوگا کہ چکہ جام یا سڑک بلاک کرنا بھی احتجاج کی ایک درست شکل ہے۔ عدالت نے پوچھا کہ کیا چکہ جام کرنے یا اس میں حصہ لینے سے یو اے پی اے کا اطلاق ہوگا؟ بنچ نے مزید کہا کہ آپ واٹس گروپ کی سازش کو بے نقاب کررہے ہیں اور گروپ میں (اگر) اشتعال انگیزی کا اشارہ ملتا ہے اور حقیقتاً تشدد ہوتا ہے۔ تب تک اگر وہ اس میں ملوث ہیں تو آپ کہہ سکتے ہیں کہ ان پر یو اے پی اے لگایا جاسکتا ہے۔ لیکن اگر آپ توجہ دیں... تو آپ کی دلیل یہ ہے کہ وہ احتجاجی مقامات کو منظم کر رہے تھے۔ کیا یہ (دلیل یو اے پی اے لگانے کیلئے) کافی ہے؟"

یہ بھی پڑھئے: مالیگائوں اردو کتاب میلے کا خوشگوار اختتام ، ۴۰؍ لاکھ روپے کی کتابیں فروخت

واضح رہے کہ دہلی ہائی کورٹ، عمر خالد، شرجیل امام، محمد سلیم خان، شفاء الرحمٰن، شاداب احمد، اطہر خان، خالد سیفی اور گلفشہ فاطمہ کی دائر کردہ درخواست ضمانت کی درخواست پر سماعت کررہی ہے جو گزشتہ ۴ سال سے جیل میں قید ہیں۔ ان پر شہریت ترمیم قانون کے حامیوں اور مخالفین کے درمیان شمال مشرقی دہلی میں ۲۳ فروری سے ۲۶ فروری ۲۰۲۰ء کے دوران ہونے والی پرتشدد جھڑپوں کے سلسلے میں تعزیرات ہند، عوامی املاک کو نقصان کی روک تھام قانون، اسلحہ ایکٹ اور غیر قانونی سرگرمیوں کی روک تھام قانون کے تحت مقدمات درج کئے گئے تھے۔ اس تشدد میں ۵۳ افراد ہلاک اور سینکڑوں زخمی ہوئے تھے۔ مہلوکین میں بیشتر مسلمان تھے۔

دہلی فسادات معاملہ میں آٹھ ملزم کارکنان - عمر خالد، شرجیل امام، محمد۔ سلیم خان، شفا الرحمان، شاداب احمد، اطہر خان، خالد سیفی اور گلفشہ فاطمہ نے کیس میں ضمانت کے لئے ہائی کورٹ سے رجوع کیا تھا۔ وہ چار سال سے زیادہ عرصے سے جیل میں ہیں۔ دہلی پولیس نے دعویٰ کیا کہ تشدد وزیر اعظم نریندر مودی کی حکومت کو بدنام کرنے کی ایک بڑی سازش کا حصہ تھا اور اس کی منصوبہ بندی ان لوگوں نے کی تھی جنہوں نے ترمیم شدہ شہریت قانون کے خلاف مظاہروں کا اہتمام کیا تھا۔ منگل کو گزشتہ سماعت میں، دہلی پولیس نے ہائی کورٹ کی ڈویژن بنچ پر زور دیا تھا کہ وہ آٹھ کارکنوں کی ضمانت کی درخواستوں پر "انتہائی سخت نطریہ" اختیار کرے۔ اس نے دعویٰ کیا کہ فسادات ایک "سازش" تھے جو "کلینکل، پیتھولوجیکل" تھے اور ان کی منصوبہ بندی "ہندوستان دشمن قوتوں" کے ذریعہ کی گئی تھی۔

یہ بھی پڑھئے: دہلی فساد ۲۰۲۰ء: پولیس کی عمر خالد اور دیگر کے خلاف ’’انتہائی سخت رویہ‘‘ اپنانے کی اپیل

اس معاملہ کی سماعت جمعرات کو بھی جاری رہے گی۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK