• Wed, 23 October, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

غزہ: امریکی نژاد جاپانی ہدایتکار نیو سورا، نسل کشی پر فنکاروں کی خاموشی پر برہم

Updated: October 14, 2024, 10:23 PM IST | Room

امریکی نژاد جاپانی فلم ڈائریکٹر نیوسورا نے وینس، اٹلی میں انٹرنیشنل فلم فیسٹیول کے دوران غزہ میں اسرائیل کی نسل کشی کی جنگ کے خلاف فنکاروں کی خاموشی پر تنقید کی۔ انہوں نے کہا کہ ’’ غزہ میں نسل کشی کی جنگ کو ختم کرنے کیلئے مزید جدوجہد کی ضرورت ہے۔‘‘

Wearing a Palestinian Koffia at the Nusora Festival. Photo: X
نیوسورا فیسٹیول میں فلسطینی کوفیہ پہنے ہوئے۔ تصویر: ایکس

ترکی کی خبر رساں ایجنسی اناولود نے رپورٹ کیا ہے کہ جاپانی امریکی فلم ڈائریکٹر نیو سورا نے کہا کہ ’’سنیما کی دنیامیں آرٹسٹ غزہ میں نسل کشی کا جواب دینے میں ناکام ثابت ہوئے ہیں۔‘‘ انہوں نے ۲۰۲۴ء انٹرنیشنل فلم فیسٹیول کے دوران غزہ میں اسرائیل کی نسل کشی کے خلاف سخت ردعمل کی ضرورت پر زور دیا۔

یہ بھی پڑھئے: ممبئی سے نیویارک جانے والے طیارے کو بم سے اڑانے کی دھمکی، رخ تبدیل

امریکی نژاد سورا نے فیسٹیول میں فلسطین کے ساتھ اظہار یکجہتی کیلئے کوفیہ زیب تن کیا تھا اور اپنے کوٹ پر فلسطینی پرچم لگایا تھا۔انہوں نے  انادولو ایجنسی سے غزہ میں اسرائیل کی نسل کشی کے متعلق آرٹ کی دنیا کے رویہ کے تعلق سے بات چیت کی۔ انہوں نے فیسٹیول میں موصول ہوئے مثبت ردعمل کا ذکر کرتے ہوئے بتایا کہ ’’وینس، اٹلی، میں کوفیہ اور فلسطینی پرچم کیلئےزبردست تالیاں بجائی گئیں۔ سامعین سے لوگ چیخ چیخ کر ’’فلسطین کو آزاد کرو‘‘ کے نعرے لگا رہے تھےاور میں نے بھی ’’فلسطین کو آزاد کرو ‘‘ کے نعرے لگائے۔‘‘
انہوں نے مزید کہاکہ ’’فلمیں بنانا اور انٹرنیشنل فلم فیسٹیول ، جیسے وینس فلم فیسٹیول،میں شرکت میرے لئے لوگوں، خاص طور پر جاپانی مداحوں، تک اپنی آواز پہنچانے کا بہترین پلیٹ فارم ہے۔‘‘ انہوں نے فیسٹیول کی پروگرامنگ کے تعلق سے مایوسی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ’’میں تھوڑا مایوس ہوکیونکہ اوریزونٹی سیکشن میں ایک اسرائیلی اور ایک فلسطینی فلم شامل کر کے مساوات پیدا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔‘‘

یہ بھی پڑھئے: شمالی کوریا، جنوبی کوریا کو جوڑنے والی سڑکوں کو بم سے اڑا دے گا:جنوبی کوریا

۷؍ اکتوبر کو نسل کشی کی حقیقت 
انہوں نے مزید کہا کہ’’۷؍ اکتوبر ۲۰۲۳ء کو میں نیویارک، امریکہ میں تھا جب اس جنگ کی شروعات ہوئی تھی۔ حقیقی اور شدید منظر کشی ، جو میں نے اپنی زندگی میںکبھی نہیں دیکھی، کے درمیان میرے لئے اپنی فلم کیلئے متحرک رہنا مشکل ہو رہا تھا۔ مجھے لگتا ہے کہ یہ بدترین نسل کشی میں سے ایک ہے۔ میرے ذہن میں سوال تھا کہ کیا مجھے انسانی شناخت کے بارے میں فلمیں بنانا جاری رکھنا چاہئے۔ وہ بھی خاص طور پر اس وقت جب ہم ایسے خوفناک تشدد کا سامنا کر رہے ہیں جہاں لوگوں سے ان کی شناخت چھین لی جا رہی ہے۔ ایک سال بعد مجھے ۱۰۰؍ فیصد یقین ہے کہ یہ سراسر نسل کشی ہے۔‘‘ 

یہ بھی پڑھئے: شمالی غزہ: سڑکوں پر لاشیں سڑ رہی ہیں، پناہ گزینوں پراسرائیلی بمباری جاری

انہوں نے مزیدکہا کہ ’’صرف فلسطینیوں کے بیانات سے ہی مجھے یہ یقین نہیں ہوا ہے بلکہ اسرائیل نے ازخود یہ کہا ہے کہ ’’یہ آبادکار نوآبادیاتی منصوبہ ہے۔آپ داوید بن گوریون یا صہیونی تحریک کے بانی کے الفاظ سنئے ، انہوں نے ہی اسے ’’آبادکار نوآبادیاتی منصوبہ‘‘ قرار دیا تھا۔‘‘

اسرائیلی کے حامی اداروںکا بائیکاٹ کیا جائے: سورا
سورا نے اسرائیل کا تعاون کرنے والے اداروں کے بائیکاٹ کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ ’’بطور صارف بائیکاٹ کرنا اہم ہے۔ ہمیں انہیں یہ دکھانے کی ضرورت ہے کہ اگر یہ ’’ونڈر ویمن‘‘، جس میں  ’’گیل گادوت‘‘ کو کاسٹ کیا گیا ہے جو بنیادی طور پر آئی ڈی ایف کی ترجمان ہیں، جیسی فلمیں بنا سکتے ہیں توہم ان کے پروجیکٹ کا تعاون نہ کر کے ان کیلئے منافع کھونے کا باعث بن سکتے ہیں۔‘‘


انہوں نے مزید کہا کہ ’’ہم اے آئی ڈائیسٹوپیا (ایسی دنیا جہاں اے آئی کی حکومت ہوگی اور انسانیت کی قدر نہیں کی جائے گی) کے آغاز میں ہیں۔ سب سے زیادہ خوفناک یہ ہے کہ ان جنگی جرائم کی ذمہ داری اسرائیلی فوج اور سافٹ ویئر کمپنیوں کے ذریعے بنائے گئے فوجی آرٹی فیشل انٹیلی جینس (اے آئی) سسٹم کو سونپی جا رہی ہے۔ یہ تباہ کن حالات ہیں۔ ‘‘

یہ بھی پڑھئے: دنیا بھر میں ۳۷۰؍ ملین خواتین نے ۱۸؍ سال کی عمر سے پہلے جنسی تشدد کا سامنا کیا ہے: یونیسیف

نسل کشی کی جنگ ختم کرنے کیلئے مزید جدوجہد کی ضروت: نیو سورا
انہوں نے نشاہدہی کی کہ دنیابھر میں فنکار غزہ میں اسرائیل کی نسل کشی کی جنگ کے خلاف کافی آواز نہیں اٹھا رہے ہیں ۔ انہوں نے مزید کہا کہ ’’اس نسل کشی کی جنگ کو ایک سال مکمل ہو گیا ہے اور یہ جنگی جرائم لبنان اور دیگر ممالک میںبھی پھیل رہے ہیں۔ یہ ظاہر کرتا ہے کہ ہم اسے ختم کرنے کیلئے ناکافی جدوجہدکر رہے ہیں۔ ہم چاہے فلم سازی، بزنس،وکالت یا اور کسی شعبے سے تعلق رکھتے ہوں، ہمیں اس جنگ کو ختم کرنے کیلئے مزید جدوجہد کرنے کی ضرورت ہے۔‘‘

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK