• Sun, 08 September, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

غزہ: اسرائیلی حملوں کے درمیان معذور فلسطینی تباہ کن حالات میں زندگی گزار رہے ہیں

Updated: July 25, 2024, 10:28 PM IST | Jerusalem

اسرائیلی جارحیت کے دوران غزہ کی ۲۱؍ فیصد آبادی معذور ہوئی ہے۔ ڈرون اور بم کی آوازیں ذہنی طور پر معذور افراد کو کرب میں مبتلا کرتی ہیں۔ قوت گویائی اور بصارت سے محروم افراد کے پاس ضروری طبی آلات نہیں ہیں جس کی وجہ سے انہیں پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

Palestinians can be seen struggling for water. Image: X
فلسطینیوں کو پانی کیلئے جدوجہد کرتے دیکھا جا سکتا ہے۔ تصویر: ایکس

غزہ میں اسرائیلی جنگ کے نتیجے میں غزہ کی ۲۱؍ فیصد آبادی یعنی ۴؍ لاکھ ۴۱؍ فیصد افراد معذوری کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ جنگ کے علاوہ معذوری اور بیماری نے غزہ کے لوگوں کی زندگی کو مزید مشکل بنا دیا ہے۔ اس درمیان غزہ میں ذہنی بیماری ’’اوٹیسم ‘‘ سے متاثرہ ایک نوجوان، جسے ڈرون کی آوازیں ذہنی تکلیف میں مبتلاکرتی تھیں،نے اپنے ذہنی کرب سے فرار پانے کیلئے خود کشی کر لی۔ایک۴؍ سالہ بچی، جس نے اسرائیلی حملوں کےنتیجے میں اپنے پاؤں کھو دیئے تھے، کے عمل جراحی کیلئے ڈاکٹروں کو موروفین دستیاب نہ تھااور غزہ میں آپریشن اور تھیرپی تک رسائی حاصل نہ تھی۔ 

یہ بھی پڑھئے: پرتاپ گڑھ: بارش نہ ہونے سے فصلیں سوکھنے کا خدشہ، بعض مقاما ت پر فوارے سے سنچائی

غزہ میں قوت گویائی سے محروم افراد بکھری ہوئی لاشوں سے خوف میں مبتلا ہو جاتے ہیں جبکہ بصارت سے محروم افراد بوسیدہ لاشوں کی بدبو سےخود کو محفوظ نہیں رکھ سکتے جو انہیں کرب میں مبتلا کرتی ہیں۔ ایک شخص نے بتایا کہ ان کا ۲۷؍ سالہ بیٹا آدم دماغی فالج کا شکار ہے۔اسے اس جنگ کی وجہ سے کتنی تکلیفوں کا سامنا کرنا پڑا، یہ دیکھ کر دل دہل جاتا ہے۔ جب بم پھٹتا ہے وہ پتھر کی مانند ہو جاتا ہے۔ وہ حرکت نہیں کر سکتا، نہ کھا سکتا تھا اور نہ ہی پی سکتا تھا اور کبھی کبھار وہ خوف کی وجہ سے سانس بھی نہیں لے پاتاتھا۔میری عمر ۵۹؍ سال ہے، مجھے اپنے بیمار بیٹے کو اٹھانے میں پریشانی کا سامنا کرنا پڑتا ہے لیکن میں اسے محفوظ رکھنے کیلئے یہ کرتاہوں۔ میں اور میری بیوی طے کرتےتھے کہ ہم کب سوئیں گے کیونکہ میرا بیٹا فالج کے سبب حرکت کرنے سے بھی قاصر تھااس لئے ہم میں سے ایک کو اس کی دیکھ بھال کیلئے جاگنا ہوتا تھا۔

یہ بھی پڑھئے: جاپان: آبادی میں مسلسل ۱۵؍ ویں سال کمی، غیر ملکیوں کی تعداد میں ریکارڈ اضافہ

بہت سے خاندانوں نے اپنے گھروں کے مختلف حصوں میں پناہ لی ہوئی ہے تا کہ بمباری ہو تو کسی نہ کسی کے بچنے کی امید ہو۔کچھ خاندان ایسے بھی ہیں جو مختلف مقامات پر پناہ نہیں لے سکتے اس لئے انہوں نے ساتھ رہنے یا ساتھ مرنے کو ترجیح دی ہے۔ ہم بھی انہی میں سے ایک تھے۔ معذوری کے ساتھ زندگی گزارنے والے افراد کے حالات تباہ کن ہیں۔ جب پہلی مرتبہ شمالی غزہ کے انخلاء کا حکم جاری کیا گیا تھا، بہت سے افراد انخلاء کرنے سے قاصر تھے جبکہ ان کے خاندان انہیں وہاں چھوڑ کر نہیں جا سکتے تھے۔جنہیں ہجرت کرنی تھی انہیں کاروں، گاڑیوں میں سامان کی طرح پیک کیا گیا تھا۔ بہت سے معذور افراد اپنی وہیل چیئر، طبی آلات، کینس اور دیگر سامان پیچھے ہی چھوڑ گئے تھے۔ بہت سے معذور افراد کے آلات سماعت، آنکھوں کے چشمے اور دیگر ضروری سامان یا تو تباہ ہو گئے تھے یا کھو گئے تھے۔ 

یہ بھی پڑھئے: بہار: ’آپ عورت ہیں‘ وزیر اعلیٰ نتیش کمار کے تضحیک آمیز تبصرے پر چوطرفہ تنقیدیں

خیمے اتنے چھوٹے تھے کہ اس میں حرکت کرنے کی جگہ نہ تھی۔ بیت الخلاء جانے میں دشواریوں کا سامنا کرنا پڑتاتھا اور ایک بیت الخلاء کو سیکڑوں سے زائدافراد استعمال کرنے پر مجبور تھے۔ ضعیف افراد یا خواتین کیلئے کوئی پروائیوسی نہیں تھی ۔ لوگوں کو نہانے کیلئے ناکافی پانی دستیاب تھاجس  کی وجہ سے کئی افراد چمڑی کے انفیکشن کا سامناکر رہے ہیں۔ دائمی بیماریوں کا علاج ادویات ، آباد کاری یا کسی تھیرپی کے ذریعے نہیں کیا جا سکتا۔ آغاز میں معذورافراد کو تھوڑی انسانی امداد میسر تھی لیکن وہ بھی وہ مشکل سے حاصل کرپاتے تھے کیونکہ غذا حاصل کرنے کیلئے انہیں منتشر ہجوم کا سامنا کرنا پڑتا تھا یہاں دوسری جگہ جانا ہوتا تھا۔ آپ یہ سوچ سکتے ہیں کہ یکساں فوڈ پارسل حاصل کرنے کیلئے ۲؍ ہزار سے زائد افراد جمع ہے تو اس جگہ کیسے حالات ہوں گے۔ معذور افراد غذا حاصل کرنے کیلئے دوسروں پر منحصر تھے جیسے ان کے ماں باپ یا بھائی بہن، اگر چہ وہ پہلے ہی ہلاک نہ ہو گئے ہوں۔ وہ معذور افراد، جنہیں مخصوص غذا کی ضرورت ہے، کے پاس مائع خوراک نہیں تھی جبکہ ان کے فیڈنگ ٹیوبس وغیرہ بھی نہیں تھے۔ غزہ میں آنےولی انسانی امداد میں اعانتی ڈیوائس شامل نہیں ہوتی تھیں۔ اسرائیل نے انہیں خطرہ قرار دیا تھا اور کہا تھا کہ اس طرح کی مصنوعات کو فوجی مقاصد کیلئے استعمال کیا جا سکتا ہے۔

یہ بھی پڑھئے: یوپی: پھل توڑنے سے انکار کرنے پر دلت طالب علم کی پٹائی، ٹیچر معطل

وہیل چیئر، کینس، واکرس اور دیگر چیزوں کے بغیر معذور افراد زندگی کی جنگ لڑرہے ہیں۔ وہ اکیلئے رہ گئے ہیں جبکہ ان کی آزادی اور شناخت سب ختم ہو گئی ہیں۔ ان کیلئے ذہنی کرب اور بوجھ ہونے کا احساس ناقابل قبول ہو گیا ہے۔ میرے اہل خانہ نے غزہ سے مصر نقل مکانی کرنے میں کامیابی حاصل کی۔ ۲۰۰؍ دن جہنم میں رہنے کے بعد ہمارے لئے آدم کی صحت اولین ترجیح تھی اس لئے ہم نے غزہ چھوڑنے کا فیصلہ کیا۔ میں یہی رہ کر معذور افراد کے تعاون کیلئے اپنے کام کو جاری رکھنے کا خواہشمند تھا لیکن میری اہلیہ اور بیٹامیرے بغیر جانے سے انکارکر رہے تھے۔ ہم نے سرحد پار کرنے کیلئے ۱۵؍ ہزارڈالر جمع کئے تھے ۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK