Inquilab Logo Happiest Places to Work
Ramzan 2025 Ramzan 2025

غزہ: بی بی سی کی دستاویزی فلم کے مرکزی کردار ۱۳؍ سالہ فلسطینی لڑکا ہراسانی کا شکار، بی بی سی پرتنقید

Updated: March 07, 2025, 12:22 PM IST | Inquilab News Network | Gaza / London

عبداللہ نے بی بی سی کو سخت پیغام دیتے ہوئے کہا کہ اگر اب مجھے کچھ ہوتا ہے تو اس کیلئے بی بی سی ذمہ دار رہے گا۔ بڑھتے دباؤ کے باوجود بی بی سی نے عبداللہ یا ان کے خاندان سے معافی نہیں مانگی۔

Abdullah Al Yazuri. Photo: INN
عبداللہ الیزوری۔ تصویر: آئی این این

برٹش براڈکاسٹنگ کارپوریشن (بی سی سی) کی غزہ پر بنائی گئی ایک دستاویزی فلم میں مرکزی کردار ادا کرنے والے ۱۳؍ سالہ فلسطینی لڑکے کو فلم کی ریلیز کے بعد یہودیوں کی جانب سے ہراساں کیا گیا۔ لڑکے نے براڈکاسٹر پر الزام لگایا کہ وہ اسے تحفظ فراہم کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ اسرائیل نوازوں کی شدید تنقید کے بعد اس ڈاکیومنٹری کو ہٹادیا گیا ہے۔

عبداللہ الیزوری نے مڈل ایسٹ آئی سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ انہیں امید تھی کہ "فلم "غزہ: ہاؤ ٹو سروائیو وار زون" (غزہ: جنگی زون سے کیسے بچنا ہے) دنیا کو غزہ کے بچوں کی تکالیف اور حالات زار سے واقف کروائے گی۔" لیکن جب یہ انکشاف ہوا کہ عبداللہ کے والد ایمن الیزوری غزہ حکومت میں نائب وزیر ہیں تو برطانوی خبر رساں اداروں نے انہیں "حماس کا عہدیدار" اور "دہشت گردی کا سربراہ" قرار دیا اور اسرائیل حامی صہیونی گروپس اور انتہائی دائیں بازو کے برطانوی میڈیا ہاؤسیز کے دباؤ کے بعد بی بی سی نے اس دستاویزی فلم کی ریلیز کے محض ۴ دن بعد اپنے اسٹریمنگ پلیٹ فارم سے ہٹا دیا ہے۔ مڈل ایسٹ آئی کے مطابق، عبداللہ کے والد نے سائنس کے میدان میں تعلیم حاصل کی ہے اور وہ ٹیکنوکریٹ ہیں، سیاست دان نہیں۔ ایمن نے برطانیہ میں تعلیم حاصل کی ہے اور اس سے قبل، وہ متحدہ عرب امارات (یو اے ای) کی وزارت تعلیم کیلئے کام کیا ہے۔

یہ بھی پڑھئے: ٹرمپ کی غزہ کے شہریوں کو دوبارہ دھمکی، یرغمال رہا نہیں ہوئے تو سبھی کو ختم کردیا جائے گا

دستاویزی فلم کے ہٹائے جانے کے بعد، عبداللہ کا کہنا ہے کہ انہیں آن لائن ہراسانی اور بدسلوکی کا نشانہ بنایا جارہا ہے۔ نوجوان فلسطینی نے کہا کہ میں نے اس فلم کیلئے ۹ ماہ وقف کر دیئے لیکن مجھے بہت افسوس ہوا کہ ریلیز کے بعد اس ڈاکیومنٹری کو ہٹا دیا گیا۔ یہ بہت مایوس کن ہے کہ فلم کے منظرعام پر آنے کے بعد مجھے اور میرے خاندان کو ہراساں کیا گیا۔ کچھ گمنام افراد مجھ پر اور میرے خاندان پر حملہ کرکے غزہ کے بچوں کے حقیقی دکھ کو چھپانے کی کوشش کررہے ہیں۔ عبداللہ نے مزید بتایا کہ اس تنازع نے ان کی ذہنی صحت کو نقصان پہنچایا ہے اور انہیں اپنی حفاظت کا خوف لاحق ہو گیا ہے۔ اس کیلئے بی بی سی ذمہ دار ہیں۔ عبداللہ نے بی بی سی کو سخت پیغام دیتے ہوئے کہا کہ میں بی بی سی پر دستاویزی فلم نشر ہونے سے پہلے کسی بھی طرح سے مجھے نشانہ بنائے جانے کے خطرے میں یقین نہیں رکھتا تھا۔ لیکن اگر اب مجھے کچھ ہوتا ہے تو اس کیلئے بی بی سی ذمہ دار رہے گا۔

ایک بیان میں، بی بی سی کے ترجمان نے کہا کہ بی بی سی دیکھ بھال کی اپنی ذمہ داریوں کو بہت سنجیدگی سے لیتا ہے، خاص طور پر جب ہم بچوں کے ساتھ کام کرتا ہے اور ان ذمہ داریوں کی ادائیگی کیلئے ہمارے پاس فریم ورک موجود ہے۔

یہ بھی پڑھئے: لبنان کے صحت کے شعبے پر اسرائیلی حملہ جنگی جرائم کے مترادف : ایمنسٹی انٹرنیشنل

بی بی سی پر شدید نکتہ چینی

اس صورتحال سے ناقص انداز میں نمٹنے پر بی بی سی پر بڑے پیمانے پر تنقید کی جا رہی ہے۔ اسرائیل کے زیر قبضہ یروشلم میں سابق برطانوی قونصل جنرل سر ونسنٹ فین نے کہا کہ براڈکاسٹر عبداللہ کو تحفظ فراہم کرنے میں ناکام رہا ہے۔ اسے نفرت انگیز میل موصول ہو رہی ہے اور اس کی ذہنی صحت متاثر ہو رہی ہے۔ اس نے ایسا کچھ نہیں کیا ہے کہ وہ ہراسانی کا نشانہ بنے۔ بی بی سی کو شرم آنی چاہئے۔" 

دستاویزی فلم بنانے کے بعد بی بی سی پر "حماس کا پروپیگنڈا" نشر کرنے کا الزام لگایا جا رہا ہے جبکہ رپورٹس کے مطابق، فلم کے مواد پر حماس کے اثر و رسوخ کا کوئی ثبوت موجود نہیں ہے۔ عبداللہ کا کہنا ہے کہ پروڈکشن کمپنی، ہویو فلمز نے کسی بیرونی اداکار کے تعاون کے بغیر ان کی کہانی اسکرپٹ کی۔

بڑھتے دباؤ کے باوجود،اب تک بی بی سی نے عبداللہ یا ان کے خاندان سے معافی نہیں مانگی ہے۔

یہ بھی پڑھئے: عرب لیڈران کا غزہ کی تعمیر نو کا منصوبہ، حماس نے خیر مقدم کیا، اسرائیل اور امریکہ نے مسترد کردیا

فلم کو بحال کرنے کا مطالبہ زور پکڑ رہا ہے

دستاویزی فلم کو ہٹانے کے فیصلے پر برطانوی سیاست دانوں اور میڈیا شخصیات نے شدید ردعمل ظاہر کیا ہے۔ لیبر ایم پی کم جانسن نے مڈل ایسٹ آئی کو بتایا کہ عبداللہ کی آواز سنے جانے کی مستحق ہے، اسے سینسر نہیں کیا جانا چاہئے۔ انہوں نے بی بی سی کے اقدام کو "غزہ کی اصلی صورتحال اور اس سے جڑی حقیقتوں کو خاموش کرنے کی کوشش" قرار دیا۔ انہوں نے متنبہ کیا کہ اس سے "ادارتی آزادی اور فلسطینی آوازوں پر دباؤ کے متعلق سنگین سوالات کھڑے ہوتے ہیں۔"

برطانوی-اسرائیلی تاریخ دان اور آکسفورڈ کے ایک ایمریٹس پروفیسرایوی شلائم نے اسے "اسرائیل نواز لابی کے دباؤ کیلئے عوامی نشریاتی ادارے کے باقاعدہ سر تسلیم خم کرنے کی تازہ ترین مثال" کے طور پر بیان کیا۔ انہوں نے کہا، "بی بی سی کے پاس اسرائیل-فلسطین میں اچھے رپورٹر ہیں لیکن اس کے مالکان اسرائیل کے حق میں اپنے واضح اور مسلسل تعصب کی وجہ سے سمجھوتہ کر رہے ہیں۔ اس تعصب کی وجہ علم کی کمی نہیں بلکہ بزدلی ہے، برطانیہ میں اعلیٰ جگہوں پر اسرائیل اور اسرائیلی لابی کی مخالفت کا خوف ہے۔" معروف صحافی اوون جونز نے کہا کہ بی بی سی کے اقدامات سے براڈکاسٹر پر اعتماد کو مزید ٹھیس پہنچی ہے۔ یہ قابل مذمت ہے کہ بی بی سی نے اس نوجوان لڑکے کو بے یارو مددگار چھوڑ دیا۔

یہ بھی پڑھئے: ماہ رمضان میں اسرائیلی کھجوروں کے بائیکاٹ کی مہم نے زور پکڑا

آرٹسٹ فار فلسطین یوکے نے ایک خط میں فلم کو بحال کرنے کا مطالبہ کیا۔ اس خط پر ۵۰۰ سے زائد میڈیا پروفیشنلز نے دستخط کئے جن میں گیری لائنکر، جولیٹ اسٹیونسن، کین لوچ، مائیک لی، اداکار خالد عبد اللہ، روتھ نیگا، نتن ساہنی، سارہ آغا اور مریم مارگولیس شامل ہیں۔ گروپ نے کہا کہ بی بی سی "اپنی دیکھ بھال کے فرائض کی ادائیگی میں مکمل طور پر ناکام رہا ہے۔"

عبداللہ اب بھی پُرامید ہے

اس تنازع کے باوجود عبداللہ پر امید ہے کہ فلم کو دوںارہ ریلیز کیا جائے گا اور اس کی کہانی دنیا بھر کے ناظرین تک پہنچے گی۔ انہوں نے کہا، "میں آپ سب کا تہہ دل سے شکریہ ادا کرتا ہوں۔ فلم کو بی بی سی پر واپس لانے کیلئے میں اپنی کوششیں جاری رکھوں گا." عبداللہ نے مزید کہا کہ "میری خواہش ہے کہ میں برطانیہ میں صحافت کی تعلیم حاصل کروں۔" اس نے مزید کہا کہ مجھے امید ہے کہ غزہ میں ایک دفعہ پھر روشنی ہوگی، غزہ کے بچوں کا مستقبل روشن ہوگا اور غزہ کے ہر شخص کو اپنا ایک بہتر مستقبل اور ایک بہتر کل نظر آئے گا۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK