• Wed, 05 February, 2025
  • EPAPER

Inquilab Logo Happiest Places to Work

کولکاتا: ایل جی ڈے لاء کالج کی پروفیسر سنجیدہ قادر کا کالج دوبارہ جوائن کرنے سے انکار

Updated: June 14, 2024, 10:14 PM IST | Kolkata

کولکاتا کے ایل جی ڈے لاء کالج کی پروفیسر سنجیدہ قادر نے کالج انتظامیہ کے ڈریس کوڈ کا حوالہ دیتے ہوئے حجاب پر پابندی عائد کرنے کے خلاف استعفیٰ دے دیا۔ سوشل میڈیا پر تنقیدوں اور عوامی احتجاج کے بعد کالج انتظامیہ نے اپنا فیصلہ واپس لیا۔ کالج انتظامیہ کی پیشکش کے باوجود سنجیدہ قادر نے استعفیٰ واپس لینے سے انکار کر دیا۔

Affected college professor. Image: X
کالج کی متاثرہ پروفیسر۔ تصویر: ایکس

کولکاتا کےایل جی ڈے لاء کالج میں اس وقت تنازعات کا شکار ہو گئی جب مسلم اسسٹنٹ پروفیسر سنجیدہ قادر نے کالج سے اس بناء پر استعفیٰ دے دیا کہ انہیں مبینہ طور پر کیمپس میں اپنا حجاب اتارنے پر دباؤ ڈالا گیا تھا۔ سنجیدہ قادر، جو مغربی بنگال کے بربھم ضلع کے مراری کی رہنے والی ہیں، گزشتہ ۲؍ سال سے کالج کی فیکلٹی ممبر ہیں۔

یہ تنازعہ ۳۰؍ مئی کو کھڑا ہوا تھا جب کالج کے عملے نے انہیں مطلع کیا تھا کہ حجاب زیب تن کرنا کالج کے ڈریس کوڈ کی خلاف ورزی ہے۔ان کے مذہبی عقیدوں کا حوالہ دیتے ہوئے احتجاج کے باوجود بھی کالج نے ڈھٹائی دکھائی۔

یہ بھی پڑھئے: مناسک حج کا آج سے آغاز، لاکھوں عازمین منیٰ روانہ

سنجیدہ کے پاس چارہ نہیں تھا اس لئے انہوں نے استعفیٰ دے دیا اور کالج کی انتظامیہ کے ’’حجاب مخالف پالیسی ‘‘ کا حوالہ دیتے ہوئے استعفیٰ دے دیا۔ تاہم، حجا ب کے تنازعے پر عوامی احتجاج کے بعد کالج انتظامیہ کو اپنے مطالبے سے پیچھے ہٹنا پڑا۔ انتظامیہ نے دعویٰ کیا کہ یہ ایک غلط فہمی تھی اور پروفیسر اپنا استعفیٰ واپس لینے کے بعد ۱۱؍ جون کو اپنے کام پر واپس لوٹ سکتی ہیں۔سنجیدہ قادر نے مکتوب میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے بتایا کہ انہوں نے فیصلہ کیا ہے کہ وہ کالج دوبارہ نہیں جائیں گی اور نئے مواقع تلاش کریں گی۔ 

یہ بھی پڑھئے: گجرات: وڈودرا کی ایک کالونی میں مسلم خاتون کو گھر الاٹ کئے جانے پر احتجاج

تاہم، سنجیدہ قدرا نے کالج انتظامیہ کو دیئے جانے والے اپنے میل میں لکھا کہ ’’میں نے فیصلہ کیا ہے کہ میں دوبارہ آپ کے ادارے میں شمولیت اختیار کرنے کے بجائے نئے مواقع تلاش کروں گی۔ میں نے اپریل میں رمضان کے وقت حجاب پہننا شروع کیا تھا۔ ابتدائی طور پر انتظامیہ اور عملے کو اس سے کوئی مسئلہ نہیں تھا۔ تاہم، ۳۰؍ مئی کو آفس کے منتظم نے مطلع کیا کہ میں جماعتوں میں حجاب زیب تن نہیں کر سکتی۔

میرے انہیں سمجھانے کے بعد مذہبی طور پر اہم ہے کالج انتظامیہ اپنے مطالبے پر اٹل رہی اور ڈریس کوڈ پالیسی کا حوالی دیتی رہی۔ میں مشکل میں پڑ گئی تھی ۔ مجھے اپنی ایمان اور کالج کے مطالبےکے درمیان کسی ایک چیز کا انتخاب کرنا تھا۔ حالات اس وقت ابتر ہو گئے تھے جب ایک طالب علم نے مجھے ہراساں کیا اور مجھے حجاب ہٹانے کا کہا۔ اس حرکت نے مجھے نہ صرف یہ کہ اپنے لئے بلکہ ان طلبہ کیلئے ، جو میری طرح امتیاز کا سامنا کر رہےہیں، کارروائی کرنے پر مجبور کر دیا تھا۔

یہ بھی پڑھئے: مناسک حج کا آج سے آغاز، لاکھوں عازمین منیٰ روانہ

سنجیدہ کے استعفیٰ کے خط میں واضح طور پر کہا گیا ہے کہ ’’کالج انتظامیہ کی حجاب مخالف پالیسی کی وجہ سے مجھے مجبوراً استعفیٰ دینا پڑ رہا ہے۔ مجھے معلوم ہے کہ میرے مذہبی عقیدے اور اقدار کی وجہ سے مجھے اپنا حجاب ہٹانے کیلئے کہا جا رہا ہے۔
یہ حادثہ سوشل میڈیا پر توجہ کا مرکز تب بنا جب سنجیدہ نے اسے سوشل میڈیا پر امتیاز قرار دیا۔

یہ بھی پڑھئے: گجرات ہائی کورٹ کی یش راج کی فلم مہاراج پر پابندی، یش راج فلمز اور نیٹ فلیکس کو نوٹس جاری

انہوں نے مذہبی لباس کے بارے میں کالج کے متضاد موقف پر سوال اٹھایا اور اس بات پر روشنی ڈالی کہ انہوں نے مذہبی لباس کو محدود کرتے ہوئے سرسوتی پوجا اور ہولی کیسے منائی۔انہوں نے بتایا کہ ’’میں نے سوشل میڈیا کے ذریعے مدد کی مانگ کی اور فیس بک پر اس معاملے کا حوالی دیا ۔ میری اس پوسٹ کو کافی تعاون حاصل ہوا۔ تاہم، کافی دباؤ کے بعد کالج نے ۱۰؍ جون کو ایک میٹنگ منعقد کی تھی جہاں انہوں نے کیمپس میں ہیڈ اسکارف پر پابندی کو واپس لے لیا۔

یہ بھی پڑھئے: مہایوتی کا مستقبل خطرے میں، ہر حلیف کا علاحدہ ’سُر‘

تاہم، لاء کالج کے چیئرمین گوپال داس نے مکتوب میڈیا کو بتایا کہ ’’حجاب پر کوئی پابندی عائد نہیں تھی اور وہ مذہبی جذبات کی قدر کرتے ہیں۔ سنجیدہ سے گفتگو کرنے کے بعد ہم نے اعلان کیا ہے کہ وہ اپنے کام پر واپس آسکتی ہیں اور کالج نے کام کے دوران ان کے حجاب پہننے کے حق کو بھی منظور کیا ہے۔‘‘

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK