سابق صدر مرزوقی بنیادی طور پر عرب بہار اور تیونس کے آمر زین العابدین بن علی کی معزولی کے بعد ملک کی سیاست میں اپنے اہم کردار کیلئے جانے جاتے ہیں۔
EPAPER
Updated: January 29, 2025, 8:04 PM IST | Inquilab News Network | London
سابق صدر مرزوقی بنیادی طور پر عرب بہار اور تیونس کے آمر زین العابدین بن علی کی معزولی کے بعد ملک کی سیاست میں اپنے اہم کردار کیلئے جانے جاتے ہیں۔
مشرقی افریقی ملک تیونس کے سابق صدر نے فلسطینیوں کو "اپنی پہلی آزادی کیلئے لڑنے والے آخری عرب" قرار دیا۔ لندن میں میمو کے زیر اہتمام ایک پروگرام کے دوران سابق صدر منصف مرزوقی نے کہا کہ فلسطینی "اپنی پہلی آزادی کیلئے لڑنے والے آخری عرب قوم ہیں۔" منگل کو لندن کی پی۔۲۱ گیلری میں خطاب کرتے ہوئے، مرزوقی نے تیونس اور خطے میں جمہوریت کی جدوجہد کو فلسطینی جدوجہد سے جوڑنے کی کوشش کی اور کہا کہ اگر تیونس اور مصر آمریت کی طرف رجوع نہ کرتے تو غزہ پٹی کی جاری ناکہ بندی برقرار نہ رہتی۔ سابق صدر نے کہا کہ مجھے شام اور غزہ کے موجودہ حالات کے درمیان ایک ربط دکھائی دیتا ہے۔ وہ ربط کی کڑی آزادی کی ہے۔ دیگر عرب اقوام نے مغربی استعمار سے آزادی حاصل کی اور پھر انہیں آمریت سے آزادی کیلئے دوسری جدوجہد کرنی پڑی، لیکن فلسطین کو ابھی تک اپنی پہلی آزادی بھی نہیں مل پائی ہے۔
یہ بھی پڑھئے: ٹرمپ اہل ِغزہ کو مصر اور اُردن منتقل کرنے کی ناقابل قبول تجویز پر بضد
مرزوقی نے کہا کہ ہمیں غزہ پر فخر ہے۔ میرا خیال ہے کہ غزہ اس جنگ میں غالب رہا۔ انہوں نے مشورہ دیا کہ اسرائیل کا بیانیہ بین الاقوامی میدان میں زیادہ مقبول نہیں ہوسکا۔ مرزوقی نے جاری فلسطینی جدوجہد کے بعد سامنے آئے "منڈیلا حل" کے تئیں امید ظاہر کی اور جنوبی افریقہ کے نیلسن منڈیلا و دیگر شخصیات کی جانب سے مسلح مزاحمت کی طرف بھی اشارہ کیا۔ انہوں نے زور دیا کہ "میں تشدد سے چاہے جتنی نفرت کرتا ہوں، لیکن اگر مجھے لڑنا پڑا تو میں ضرور لڑوں گا۔"
یہ بھی پڑھئے: ۳؍ لاکھ اہل غزہ کی واپسی ، اپنے مکانات کی تلاش
"تیونس، کامیاب جمہوریت بن سکتا تھا۔۔۔"
اپنے خطاب کے دوران، مرزوقی نے یاد دلایا کہ تیونس، عرب دنیا میں جمہوری عمل میں کامیاب مثال بن کر سامنے آسکتا تھا۔ انہوں نے نشان دہی کی کہ تیونس کا معاشرہ، تعلیم یافتہ افراد، متوسط طبقہ اور یکسانیت کے اصول پر قائم ہے، جس کے پاس حقیقی اور مستحکم جمہوریت کے حصول کیلئے ضروری تمام عوامل موجود تھے۔ لیکن "بدعنوان" سیاست دانوں کو ملنے والی غیر ملکی فنڈنگ نے ملک کی اس قابلیت کو برباد کردیا۔
یہ بھی پڑھئے: فرانس: رہا کئے گئے فلسطینیوں کیلئے لفظ’’ قیدی‘‘ استعمال کرنے پر فرانسسی صحافی معطل
مرزوقی نے نوٹ کیا کہ جمہوریت کے ہتھیاروں سے جمہوریت کا قتل کیا جاسکتا ہے۔ انہوں نے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ تیونس میں جمہوری عمل کو ہائی جیک کرنے کیلئے خود جمہوریت کا استعمال کیا گیا کیونکہ ملک کے موجودہ صدر قیس سعید اپنی پہلی مدت کیلئے منصفانہ طور پر منتخب ہوئے تھے۔ پھر انہوں نے جمہوریت کو تباہ کرنے کیلئے جمہوریت کا ہی استعمال کیا۔
میمو کے ڈائریکٹر ڈاکٹر داؤد عبداللہ نے جب مرزوقی سے دریافت کیا کہ انہیں اپنے دور صدارت کی کس کامیابی پر زیادہ فخر ہے، تو مرزوقی نے اپنے جواب میں ریاست اور اس کی سیکیوریٹی سروسیز کی طرف سے کئے جانے والے تشدد کے خلاف اپنی مخالفت کا ذکر کیا۔ انہوں نے کہا کہ انہیں تیونس کی تاریخ کے پہلے جمہوری آئین کی نگرانی کرنے پر بھی فخر ہے، جسے اس وقت کی موجودہ حکومت نے مسترد کر دیا تھا۔
یہ بھی پڑھئے: غزہ جنگ بندی: بچوں کا امدادی سامان لئے اب تک۳۵۰؍ ٹرک پہنچے
یاد رہے کہ پیشہ سے ایک قابل ڈاکٹر مرزوقی ۲۰۱۱ء سے ۲۰۱۴ء تک تیونس کے صدر تھے۔ وہ کئی دہائیوں سے مشرق وسطیٰ اور افریقہ میں انسانی حقوق کے محافظ رہے ہیں۔ آج انہیں بنیادی طور پر عرب بہار اور تیونس کے آمر زین العابدین بن علی کی معزولی کے بعد ملک کی سیاست میں اپنے اہم کردار کیلئے جانے جاتے ہیں۔ جمہوری عمل کے خاتمہ اور گزشتہ ۵ سالوں میں تیونس میں آمرانہ عناصر کی واپسی کے درمیان، ۲۰۲۲ء میں مرزوقی کو غیر حاضری میں چار سال قید کی سزا سنائی گئی۔ پچھلے سال، ان پر تیونس کی حکومت کا تختہ الٹنے کا الزام لگایا گیا اور ان کی غیر حاضری میں دوبارہ ۸ سال قید کی سزا سنائی گئی۔