• Sun, 08 September, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

نقبہ: فلسطینیوں کو ۷۶؍ سال بعد جبری بے دخلی کا دوبارہ سامنا

Updated: May 14, 2024, 7:11 PM IST | Telaviv

فلسطینی تاریخ کا بد ترین باب جسے نقبہ یا جبری بے دخلی کہتے ہیں ۱۹۴۸ء کی جنگ کے بعد سےآج ۷۶؍ سال بعد ایک بار پھر فلسطینیوں کو اس کا سامنا ہے۔ غزہ میں جاری جنگ نے ۱۹۴۸ء کی جنگ سے بھی بد ترین حالات پیدا کردیئے ہیں،اور تقریبا دوگنی تعداد کو جبری بے دخلی کا خطرہ ہے۔

Palestinians emigrating from their homes. Photo : INN
اپنے گھروں سے ہجرت کرتے فلسطینی۔ تصویر: آئی این این

فلسطینی بدھ کو اسرائیل سے ان کے بڑے پیمانے پر بے دخلی کے چھہتتر سال کو یاد کریں گے، یہ ایک ایسا واقعہ ہے جو فلسطینیوں کی قومی جدوجہد کا مرکز ہے۔ لیکن کسی بھی طور سے، یہ واقعہ غزہ میں پیش آنے والی حالیہ جنگ کے مقابلے میں کمترمعلوم ہوتا ہے۔ فلسطینی اسے ’نقبہ‘ کہتے ہیں، عربی میں اس کا مطلب ہو تا ہے’عظیم تباہی‘۔ اسرائیل کے قیام کے بعد ۱۹۴۸ءکی عرب اسرائیل جنگ سے پہلے اور اس کے دوران تقریباً ۷؍ لاکھ فلسطینی جو جنگ سے پہلے کی آبادی کا ایک بڑا حصہ تھے یا تو بے دخل کر دئے گئے یا ہجرت کر گئے۔ جنگ کے بعد اسرائیل نے انہیں واپس جانے کی اجازت دینے سے انکار کر دیا کیونکہ اس کے نتیجے میں اس کی سرحدوں کے اندر فلسطینیوں کی اکثریت ہوجا تی۔ اس کے بجائے، وہ بظاہر مستقل پناہ گزین بن گئے جن کی تعداد اب تقریباً ۶۰؍ لاکھ ہے، جوزیادہ تر لبنان، شام، اردن اور اسرائیل کے مقبوضہ مغربی کنارے میں کچی آبادی نما شہری پناہ گزین خیموں میں رہتے ہیں۔ 

غزہ میں مہاجرین اور ان کی اولادیں آبادی کا تین چوتھائی ہیں۔ اسرائیل کی جانب سے فلسطینیوں کے حق واپسی کو مسترد کرنا اس تنازعے میں ایک بنیادی عنصر رہا ہے اور یہ امن مذاکرات میں سب سے زیادہ سنگین مسائل میں سے ایک تھا جو آخری بار ۱۵؍سال قبل ختم ہو گیا تھا۔ پناہ گزین کیمپ ہمیشہ سے فلسطینی عسکریت پسندی کے اہم گڑھ رہے ہیں۔ اب، بہت سے فلسطینیوں کو خوف ہے کہ ان کی دردناک تاریخ کو مزید تباہ کن پیمانے پر دہرایا جائے گا۔ پورے غزہ میں، فلسطینی حالیہ دنوں میں کاروں اور گدھا گاڑیوں کو لاد رہے ہیں یا پیدل چلتے ہوئے پہلے سے زیادہ بھیڑ والے خیموں کے کیمپوں کی طرف روانہ ہو رہے ہیں کیونکہ اسرائیل اپنی جارحیت کووسعت دےرہا ہے۔ سات ماہ کی جنگ کے دوران بڑے پیمانے پر انخلاء کے کئی دور کی تصاویر ۱۹۴۸ءکی سیاہ اور سفید تصویروں سے حیرت انگیز طور پرمماثلت رکھتی ہیں۔ 

متعلقہ خبریں

یہ بھی پڑھئے: رفح: طبی خدمات کی کمی، انٹرنیشنل ریڈ کراس نے جنوبی غزہ میں فیلڈ اسپتال بنائے

یہ بھی پڑھئے: سوڈان اور غزہ میں جنگ کے سبب دنیا بھر میں بے گھرافراد کی تعداد ۹ء۷۸؍ ملین ہو گئی: آئی ڈی ایم سی

یہ بھی پڑھئے: ’’رفح پر اسرائیل کے حملے سے حماس کا خاتمہ نہیں ہوگا‘‘

مصطفیٰ الغزار، جو اب ۸۱؍سال کے ہیں، اب بھی اپنے گاؤں سے اپنے خاندان کے مہینوں طویل سفر کو یاد کرتے ہیں جو اب وسطی اسرائیل میں ہے۔ جنوبی شہر رفح میں، جب وہ ۵؍سال کے تھے۔ ایک موقع پر ان پر بمباری کی گئی توانہوں نےاس سے بچنے کیلئے ایک درخت کے نیچے گڑھے کھودے۔ الغزار، اب ایک پردادا ہیں کو ہفتے کے آخر میں دوبارہ بھاگنے پر مجبور کیا گیا، اس بار مواسی کے ایک خیمے میں، جو ایک بنجر ساحلی علاقہ ہے جہاں تقریباً ساڑھے چار لاکھفلسطینی ایک خستہ کیمپ میں رہتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ حالات ۱۹۴۸ءسے بھی بدتر ہیں، اس وقت فلسطینی پناہ گزینوں کے لیے اقوام متحدہ کا ادارہ باقاعدگی سے خوراک اور دیگر ضروری اشیاء فراہم کرنے کے قابل تھا۔ 
انہوں نے کہا کہ ۱۹۴۸؍میں میری جدوجہد واپس لوٹنے کی تھی لیکن آج میری جدوجہد زندہ رہنے کی ہے۔ ’’میں ایسے ہی خوف میں رہتا ہوں، ‘‘ انہوں نے روتے ہوئے مزید کہا۔ ’’میں اپنے بچوں اور پوتے پوتیوں کوتحفظ فراہم نہیں کر سکتا۔ ‘‘
حالیہ جنگ نے تقریباً۱۷؍ لاکھ فلسطینیوں کوعلاقہ چھوڑنے پر مجبور کیایہ تعداد ۱۹۴۸ءکی جنگ سے پہلے اور اس کے دوران ہجرت کرنے والوں کی تعداد سے دو گنا سے بھی زیادہ ہے۔ 
اسرائیل نے اپنی سرحد سیل کر دی ہے۔ مصر نے فلسطینیوں کی صرف ایک چھوٹی سی تعداد کو چھوڑنے کی اجازت دی ہے، کیونکہ اسے خدشہ ہے کہ فلسطینیوں کی بڑے پیمانے پر آمد سے ایک اور طویل مدتی مہاجرین کا بحران پیدا ہو سکتا ہے۔ بین الاقوامی برادری غزہ سے فلسطینیوں کی بڑے پیمانے پر بے دخلی کی سخت مخالفت کرتی ہے -فلسطینیوں کی بے دخلی کا خیال اسرائیلی حکومت کے انتہائی دائیں بازو کے ارکان کا تھا، جو اسے ’رضاکارانہ ہجرت‘ کہتے ہیں۔ 

یہ بھی پڑھئے: غزہ پر اسرائیلی جارحیت کو امریکہ کا اب بھی نسل کشی ماننے سے انکار

اسرائیل طویل عرصے سے ۱۹۴۸ءکے پناہ گزینوں کو میزبان ممالک میں آبادکرنے کا مطالبہ کرتا رہا ہے، یہ کہتے ہوئے کہ ان کی واپسی کے مطالبات غیر حقیقی ہیں اور یہ اقدام یہودی اکثریتی ریاست کے طور پر اسرائیل کے وجود کو خطرے میں ڈال دے گا۔ یہ ان لاکھوں یہودیوں کی طرف اشارہ کرتا ہے جو اس کے قیام کے بعد جنگ کے دوران عرب ممالک سے اسرائیل آئے تھے، حالانکہ ان میں سے بہت کم واپس جانا چاہتے ہیں۔ اگر فلسطینیوں کو اجتماعی طور پر غزہ سے بے دخل نہیں کیا گیا تو بھی بہت سے لوگوں کو خدشہ ہے کہ وہ ایسا کریں گے۔ تاکہ وہ کبھی اپنے گھروں کو واپس نہ جا سکیں۔ یا اسرائیل وہاں رہنا ناممکن بنا دے گا۔ اقوام متحدہ کے ایک حالیہ تخمینے میں کہا گیا ہے کہ تباہ شدہ گھروں کو دوبارہ تعمیر کرنے میں ۲۰۴۰ءتک کا وقت لگے گا۔ 

ہمسایہ عرب ممالک کی فوجوں کے ساتھ ۱۹۴۸ءکی جنگ میں یہودی ملیشیا بنیادی طور پر رائفلوں، مشین گنوں اور مارٹروں جیسے ہلکے ہتھیاروں سے لیس تھیں۔ جنگ کے بعد سینکڑوں فلسطینی دیہات مسمار کر دیے گئے۔ اسرائیلی یروشلم، جافا اور دیگر شہروں میں فلسطینیوں کے گھروں میں منتقل ہو گئے۔ غزہ میں، اسرائیل نے حالیہ تاریخ میں سب سے مہلک اور تباہ کن فوجی مہم چلائی ہے، بعض اوقات گھنے، رہائشی علاقوں پر ۲۰۰۰؍پاؤنڈ (۹۰۰؍کلوگرام) بم گرائے ہیں۔ پورے محلے ملبے اور سڑکیں بنجر زمینوں میں تبدیل ہو گئ ہیں، جن میں سے بہت سے غیر پھٹے ہوئے بموں سے بھرے پڑے ہیں۔ عالمی بینک کا اندازہ ہے کہ غزہ کو ۵ء۱۸؍بلین ڈالر کا نقصان پہنچا ہے، جو کہ ۲۰۲۲ءمیں تقریباً تمام فلسطینی علاقوں کی مجموعی گھریلو پیداوار کے برابر ہے۔ اور یہ جنوری میں، خان یونس میں اسرائیل کی تباہ کن زمینی کارروائیوں کے ابتدائی دنوں میں ہوا تھا۔ اس میں حالیہ رفح جنگ شامل نہیں ہے۔ حالیہ جنگ سے پہلے بھی، بہت سے فلسطینیوں نے جاری نقبہکے بارے میں بات کی تھی، جس میں اسرائیل آہستہ آہستہ انہیں غزہ، مغربی کنارے اور مشرقی یروشلم سے باہر کرنے پر مجبور کرتا رہاہے، یہ وہ علاقے ہیں جنہیں اسرائیل نے ۱۹۶۷ءکی جنگ کے دوران قبضے میں لیے تھے جن پر فلسطینی مستقبل کی ریاست چاہتے ہیں۔ حقوق انسانی گرپوں کا کہنا ہے کہ اسرائیل کے ذریعے گھروں کو مسمار کرنے، یہودی بستیوں کی تعمیر اور دیگر امتیازی پالیسی اسرائیل کی نسل پرستی کی جانب اشارہ کرتی ہیں، حالانکہ اسرائیل ان الزامات کی تردید کرتا آیاہے۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK