اسموٹریچ نے ٹرمپ کے منصوبے کو اسرائیل اور فلسطینیوں کے درمیان "تنازعات کے خاتمہ کا موقع" قرار دیتے ہوئے کہا کہ وہ منصوبہ پر عمل درآمد پر زور دے رہے ہیں۔
EPAPER
Updated: March 10, 2025, 7:26 PM IST | Inquilab News Network | Gaza / Tel Aviv
اسموٹریچ نے ٹرمپ کے منصوبے کو اسرائیل اور فلسطینیوں کے درمیان "تنازعات کے خاتمہ کا موقع" قرار دیتے ہوئے کہا کہ وہ منصوبہ پر عمل درآمد پر زور دے رہے ہیں۔
اسرائیل کے انتہائی دائیں بازو کے وزیر خزانہ بیزلیل سموٹریچ نے اتوار کو بیان دیا کہ امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ کا فلسطینیوں کو جنگ زدہ غزہ سے نکالنے کا منصوبہ پر کام شروع کردیا گیا ہے۔ اے ایف پی کی رپورٹ کے مطابق، اسموٹریچ نے اسرائیلی پارلیمنٹ میں ایک تقریب میں بتایا کہ ٹرمپ کے منصوبے پر (امریکی) انتظامیہ کے ساتھ مل کر کام کیا جارہا ہے۔ مزیدبرآں، ایک انتظامی ادارہ بنانے کیلئے تیاریاں جاری ہیں جو غزہ کے باشندوں کی نقل مکانی کی نگرانی کرے گا۔
اسموٹریچ، جو حماس کے خلاف اسرائیلی حملوں کو دوبارہ شروع کرنے اور غزہ م میں اسرائیل کی مستقل موجودگی کے حامی ہیں، نے نوٹ کیا کہ ٹرمپ کے تجویز کردہ منصوبے کیلئے ہمیں ایسے ممالک کو تلاش کرنا ہوگا جو غزہ پٹی کی تقریباً ۲۴ لاکھ افراد پر مشتمل آبادی کے کچھ حصہ کو لینے کیلئے تیار ہوں۔ اسموٹریچ نے مزید کہا کہ اس منصوبے پر عمل درآمد، ایک بڑے پیمانے کا لاجسٹک آپریشن ہوگا۔ انہوں نے مزید کہا کہ وہ ٹرمپ کے منصوبے کو انجام دینے پر زور دے رہے ہیں۔انہوں نے اس منصوبہ کو اسرائیل اور فلسطینیوں کے درمیان "تنازعات کے خاتمہ کا ایک موقع" قرار دیا۔
یہ بھی پڑھئے: ۱۲؍ سالہ بچی سمیت۲۱؍ فلسطینی خواتین اسرائیل کی قید میں ہیں: فلسطینی این جی او
ٹرمپ کا منصوبہ
صدر ٹرمپ نے اپنے منصوبہ میں امریکہ کو غزہ پر قبضہ کرنے اور ساحلی علاقہ کو "مشرق وسطیٰ کے سیاحتی مقام" میں تبدیل کرنے کی تجویز پیش کی تھی جبکہ غزہ کے ۲۰ لاکھ سے زائد فلسطینی باشندوں کو پڑوسی ممالک مصر اور اردن میں بسانے کا ارادہ ظاہر کیا تھا۔ ٹرمپ کی تجویز نے عالمی سطح پر غم و غصے کو جنم دیا تھا۔ اسرائیلی وزیراعظم بنجامن نیتن یاہو سمیت دوسرے اسرائیلی رہنماؤں نے اس منصوبہ کا خیرمقدم کیا لیکن فلسطینیوں، عرب حکومتوں اور کئی عالمی لیڈران نے اس کی سخت مذمت کی۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ غزہ کے باشندوں کو زبردستی نکالنا، بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی کے مترادف ہوگا۔
ٹرمپ کے منصوبے کے جواب میں گزشتہ ہفتہ مصر نے ایک تجویز پیش کی جسے کئی اسلامی ممالک اور یورپی حکومتوں نے قبول کرلیا ہے۔ اس تجویز کے تحت فلسطینی باشندوں کو بے گھر کئے بغیر غزہ کی تعمیر نو کی جائے گی۔
یہ بھی پڑھئے: فلسطین: غزہ کی خواتین کوبھوک اور محاصرے کا سامنا
غزہ میں بجلی سپلائی منقطع
اسرائیل کے وزیر توانائی ایلی کوہن نے اتوار کو بتایا کہ انہوں نے غزہ کو بجلی کی سپلائی روکنے کی ہدایات جاری کی ہیں۔ ان کا یہ اقدام، تقریباً ۱۷ ماہ کی نسل کشی جنگ سے تباہ حال فلسطینی علاقے میں اسرائیل کی جانب سے تمام امداد روکے جانے کے ایک ہفتے بعد سامنے آیا ہے۔ کوہن نے ایک ویڈیو بیان میں کہا کہ میں نے غزہ پٹی کو بجلی کی فراہمی کو فوری طور پر بند کرنے کے حکم نامے پر دستخط کئے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ ہم قیدیوں کو واپس لانے کیلئے تمام آلات استعمال کریں گے اور اسے یقینی بنائیں گے کہ حماس کا غزہ میں باقی نہ بچے۔ اسرائیل کے اس اقدام سے غزہ میں پانی کو صاف کرنے کے واحد مرکزی پلانٹ شدید متاثر ہوگا جو ۶ لاکھ سے زائد افراد کو صاف پانی فراہم کرتا ہے۔
یہ بھی پڑھئے: مسجد اقصیٰ میں نمازِ تراویح میں ہزاروں فلسطینیوں کی شرکت
اسرائیل کی جانب سے دباؤ
اسرائیلی میڈیا نے پیر کو بتایا کہ نیتن یاہو نے حماس پر "زیادہ سے زیادہ دباؤ" ڈالنے کا منصوبہ بنایا ہے تاکہ وہ جنگ بندی مذاکرات کے دوسرے مرحلے میں اسرائیل کی شرائط کے تحت جنگ بندی میں توسیع کو قبول کرنے کیلئے تیار ہو جائے۔ پبلک براڈکاسٹر کان نے کہا کہ اسرائیل نے "جہنم کی منصوبہ بندی" نامی اسکیم کے تحت حماس پر دباؤ بڑھانے کیلئے کئی منصوبے تیار کئے ہیں جس میں شمالی غزہ پٹی کے مکینوں کو بے گھر کرکے جنوب کی طرف دھکیلنا، بجلی کی سپلائی روکنا اور مکمل جنگ کا دوبارہ آغاز شامل ہے۔
یہ بھی پڑھئے: آج سے جنگ بندی مذاکرات کے دوسرے مرحلے کا آغاز متوقع
اسرائیل پر تنقید
ایک اسرائیلی گروپ کا کہنا ہے کہ غزہ کی بجلی کی سپلائی منقطع کرنا، ایک جنگی جرم ہے۔ الجزیرہ کے مطابق، گیشا کی ایگزیکٹیو ڈائریکٹر تانیہ ہیری نے غزہ میں بجلی سپلائی منقطع کرنے کے اسرائیلی اقدام کی مذمت کی۔ ہیری نے خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس کو بتایا کہ پلانٹ روزانہ ۱۸ ہزار کیوبک میٹر پانی فراہم کرتا ہے لیکن اسرائیلی اقدام کے بعد اب اسے جنریٹرز پر انحصار کرنا پڑے گا اور وہ روزانہ صرف ۲۵۰۰ کیوبک میٹر پانی پی پروسیس کر پائے گا۔ انہوں نے مزید کہا کہ اس اقدام سے، غزہ کی عوام کیلئے صاد پانی تک رسائی حاصل کرنا مزید مشکل ہو جائے گا۔