محکمہ ہوم لینڈ سیکیورٹی کے ایک ترجمان نے خلیل پر حماس سے منسلکہ سرگرمیوں کی قیادت کرنے کا الزام لگایا تھا۔ لیکن انتظامیہ نے خلیل کو حماس سے جوڑنے کا کوئی ثبوت پیش نہیں کیا اور اپنی تازہ ترین فائلنگ میں اس کا کوئی ذکر نہیں کیا۔
EPAPER
Updated: April 11, 2025, 10:03 PM IST | Inquilab News Network | Washington
محکمہ ہوم لینڈ سیکیورٹی کے ایک ترجمان نے خلیل پر حماس سے منسلکہ سرگرمیوں کی قیادت کرنے کا الزام لگایا تھا۔ لیکن انتظامیہ نے خلیل کو حماس سے جوڑنے کا کوئی ثبوت پیش نہیں کیا اور اپنی تازہ ترین فائلنگ میں اس کا کوئی ذکر نہیں کیا۔
کولمبیا یونیورسٹی کے کارکن محمود خلیل کی ملک بدری کیلئے کوشاں امریکی انتظامیہ نے ایک امیگریشن جج کے ذریعے ثبوت پیش کرنے کے مطالبہ کے بعد عدالت میں ایک مختصر میمو جمع کرایا اور خلیل کی ملک بدری کا دفاع کیا۔ اس سے قبل، جمعہ کو ہونے والی سماعت میں جج جیمی کومنز نے وفاقی حکومت کو حکم دیا تھا کہ وہ خلیل کے خلاف ثبوت عدالت میں جمع کرائے، جس کے بعد ڈیڈ لائن سے قبل حکومت نے بدھ کو یہ میمو عدالت میں جمع کرایا۔
امریکی حکومت کا موقف
سیکریٹری آف اسٹیٹ مارکو روبیو کے دستخط شدہ اس میمو میں ٹرمپ انتظامیہ کے اس اختیار کا حوالہ دیا گیا ہے کہ وہ غیر ملکیوں کو ملک سے باہر نکالنے کا فیصلہ کرسکتی ہے جن کی موجودگی امریکی خارجہ پالیسی کے مفادات کو نقصان پہنچاتی ہے۔ دو صفحات پر مشتمل اس میمو میں خلیل پر کسی مجرمانہ فعل کا الزام نہیں لگایا گیا ہے، اس کے بجائے، روبیو نے لکھا کہ خلیل کو ان کے عقائد کی بنیاد پر ملک بدر کیا جا سکتا ہے۔
یہ بھی پڑھئے: امریکہ: یہود مخالف سوشل میڈیا پوسٹ پر ویزا اور گرین کارڈ سے انکار ہو سکتا ہے
روبیو نے میمو میں لکھا ہے کہ اگرچہ خلیل کی سرگرمیاں "بصورتِ دیگر قانونی" تھیں، لیکن انہیں ملک میں رہنے کی اجازت دینا "دنیا بھر میں اور امریکہ میں یہود دشمنی کے خلاف امریکی پالیسی کو کمزور کر دے گا اور اس سے یہودی طلبہ کو ہراساں کرنے اور تشدد سے بچانے کی کوششوں کو بھی دھچکا لگے گا۔ روبیو نے اس غیر تاریخ شدہ میمو میں مزید لکھا کہ امریکہ میں یہود دشمنی کے رویے اور خلل ڈالنے والے مظاہروں کی حمایت کرنا اس اہم خارجہ پالیسی کے مقصد کو شدید کمزور کرے گا۔
اگرچہ روبیو کا میمو "محمود خلیل کے ایک سبجیکٹ پروفائل" اور محکمہ ہوم لینڈ سیکیورٹی کا خط جیسے اضافی دستاویزات کا حوالہ دیتا ہے لیکن خلیل کے وکلاء کے مطابق، حکومت نے ان دستاویزات کو امیگریشن کورٹ میں جمع نہیں کرایا۔ میمو میں ایک دوسرے قانونی مستقل رہائشی کی ملک بدری کا بھی مطالبہ کیا گیا ہے جس کا نام فائلنگ میں چھپایا گیا ہے۔ خلیل کی گرفتاری کے وقت، محکمہ ہوم لینڈ سیکیورٹی کے ایک ترجمان نے خلیل پر الزام لگایا تھا کہ وہ حماس سے منسلکہ سرگرمیوں کی قیادت کر رہے ہیں۔ لیکن حکومت نے خلیل کو حماس سے جوڑنے کا کوئی ثبوت پیش نہیں کیا اور اپنی تازہ ترین فائلنگ میں اس گروپ کا کوئی ذکر نہیں کیا۔
یہ بھی پڑھئے: امریکہ: کورنیل، نارتھ ویسٹرن یونیورسٹی کیلئے ۷ء۱؍ بلین ڈالر کی فنڈنگ منجمد
ٹرمپ انتظامیہ نے حالیہ ہفتوں میں یونیورسٹیوں کو دی جانے والی اربوں ڈالر کی حکومتی امداد کو منجمد کیا ہے۔ امداد کی بحالی کیلئے یونیورسٹیوں کی انتظامیہ سے کیمپس میں فلسطین حامی مظاہرین کو سزا دینے اور دیگر تبدیلیاں کرنے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ ناقدین نے اسے آزادی اظہار پر کریک ڈاؤن قرار دیا۔ امریکی حکومت نے ان بین الاقوامی طلبہ کے ویزوں کو بھی منسوخ کر دیا ہے جنہوں نے اسرائیل پر تنقید کی یا اس پر فلسطینیوں پر ظلم کرنے کا الزام لگایا۔
خلیل کے وکلاء کا ردعمل
خلیل کے وکلاء نے بیان دیا کہ یہ میمو اس بات کا ثبوت ہے کہ ٹرمپ انتظامیہ "محمود کے فلسطین کے بارے میں آزادی اظہار کے حقوق کو نشانہ بنا رہی ہے۔" وکلاء مارک وین ڈر ہاؤٹ اور جانی سینوڈس نے کہا کہ "نیویارک میں محمود کی رات گئے غیر منصفانہ گرفتاری اور اسے لوزیانا کے ایک دور دراز حراستی مرکز میں لے جانے کے ایک ماہ بعد، امیگریشن حکام نے بالآخر تسلیم کرلیا کہ ان کے پاس خلیل کے خلاف کوئی مقدمہ نہیں ہے۔" نے ایک مشترکہ بیان میں کہا۔ انہوں نے مزید کہا، "اس بات کا ایک بھی ثبوت نہیں ہے کہ محمود کی امریکہ میں موجودگی کوئی خطرہ ہے۔"
یہ بھی پڑھئے: غزہ: بھکمری روکنے کیلئے فلسطینی نان گورنمنٹل آرگنائزیشنز کی عالمی مداخلت کی اپیل
محکمہ ہوم لینڈ سیکیورٹی کی ترجمان، ٹریشیا میک لافلن نے اس بارے میں سوالات کا جواب نہیں دیا کہ آیا محکمہ کے پاس خلیل کے خلاف کوئی اضافی ثبوت ہے۔ انہوں نے ایک ای میل کردہ بیان میں لکھا، "ڈی ایچ ایس نے ثبوت جمع کرائے ہیں، لیکن امیگریشن کورٹ کے دستاویز عوام کیلئے دستیاب نہیں ہیں۔"
"اختلاف رائے کو دبانے کی حکمت عملی"
خلیل قانونی طور پر مستقل امریکی رہائشی ہیں جنہیں اسرائیل کے فلسطینیوں کے ساتھ سلوک اور غزہ کی جنگ کے خلاف گزشتہ سال بڑے پیمانے پر مظاہروں کے دوران کیمپس کے کارکنوں کے ترجمان کے طور پر خدمات انجام دینے کی بدولت امریکہ حکام نے گزشتہ ماہ ۸ مارچ میں حراست میں لے لیا۔ ۳۰ سالہ خلیل نسلی طور پر فلسطینی ہیں جو شام میں پیدا ہوئے۔ انہوں نے حال ہی میں کولمبیا یونیورسٹی کے اسکول آف انٹرنیشنل افیئرز میں ماسٹر ڈگری مکمل کی۔ ان کی بیوی، جو ایک امریکی شہری ہے، اس ماہ ان کے بچے کا استقبال کریں گی۔
یہ بھی پڑھئے: ۲۰؍ لاکھ فلسطینی بدترین فاقہ کا شکار ہوسکتے ہیں: اُنروا کا انتباہ
خلیل نے یہود دشمنی کے الزامات کو سختی سے مسترد کیا ہے۔ گزشتہ ماہ جیل سے لکھے گئے ایک خط میں انہوں نے ٹرمپ انتظامیہ پر الزام لگایا کہ انہیں اختلاف رائے کو دبانے کی وسیع تر حکمت عملی کے حصے کے طور پر نشانہ بنا رہی ہے۔ انہوں نے مزید کہا، "یہ جانتے ہوئے کہ یہ لمحہ میری انفرادی صورتحال سے بالاتر ہے، اس کے باوجود میں امید کرتا ہوں کہ اپنے پہلے بچے کی پیدائش کے موقع پر وہاں موجود رہنے کیلئے آزاد ہوجاؤں۔