• Thu, 21 November, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo
مزید
مزید
مزید

مانگتے پھرتے ہیں اغیار سے مٹی کے چراغ…

ظالم و جابر طاغوتی طاقت کی جانب سے مسلط کی گئی جنگ اور بارودی اسلحہ کی ہولناک تباہ کاریوں کے نتیجے میں خطّہ فلسطین خاک و خون میں نہایا ہواہے۔ہر پل ،ہر آن ایک نئی قیامت کاسامنا کر رہےبے قصور نہتے عوام ،لہو لہان معصوم بچےساری دنیا کی نگاہوں کا مرکزتو ہیں مگربدقسمتی سے توجہ کا مرکز نہیں ۔ دنیا کے ساتھ ساتھ سارے اسلامی ممالک بھی اس سفاکانہ نسل کشی کو ہر آن دیکھ رہے ہیں مگر اس قیامت کو روک پانے سے معذور ،کمزور اوربے تاثیر احتجاج کے ساتھ دورکھڑے ہیں ۔ مدد کے نام پر بیان بازی کا سلسلہ ہے ، سوشل میڈیا تک محدود چیخ پُکارہے یا پھرمنافقانہ خاموشی جو خود ظلم کی پشت پناہی کے مترادف ہے۔ مظلوموں کو جس نوعیت کاانسانی و اخلاقی تعاون اور امداد اپنے ہم قوم حُکمرانوں اور مملکتوں سےدرکارہے ،ہماری بے حسی اور بے و زنی وہ بھی اُن تک پہنچا نہیں پا رہی ہے۔کس قدر ستم ظریفی ہے کہ ایک نو زائیدہ چھوٹی سی طاقت کی رعونت کے آگے بڑی بڑی امیر وکبیراسلامی حکومتیں بھی پست ہو گئی ہیں ۔ حتّیٰ کہ جنگ بندی کی قرارداد منظور کروانے کیلئے عالمی مجلس اورعدالت میں ہمارے پاس ایک فیصلہ کن ووٹ تک کا اختیار نہیں ،نہ صرف ہماری قسمتوں کےفیصلے اغیار کی مرضی کے تابع ہیں بلکہ ہماری حفاظت بھی اغیار کے اسلحہ اور افواج کی محتاج ہے۔ ہماری ایمانی حمیت اب اتنی کمزور ہو چکی ہے کہ مستقبل میں کوئی بھی چنگیزی طاقت ہمارے کسی اور پہلو پر وار کر دیگی اور ہم بس دہائیاں دیتے ہی رہ جائیں گے۔ دنیا عالمِ اسباب ہےاور ہرمسئلہ اپنے حل کے لئے اسباب کا محتاج ہے، شر یر دشمن کا سامنا ہو یا نا مساعد حالات کا، ٹھوس اقدامات، تدبیراورمستحکم لائحۂ عمل ہی اوّل و آخر چارۂ کار ہے۔ آج کے حالات کے آئینے میں فلسطینی عوام کی جگہ اپنے آپ کو رکھ کر سوچیں توخدا نخواستہ ہمارا اور ہماری دیگر مملکتوں کا حال بھی اس سے کچھ مختلف نہیں ہوگا۔ کیااب بھی خوابِ غفلت سےجاگنے اور نوشتۂ دیوار پڑھ لینے کا وقت نہیں آیا؟ بحیثیت مسلمان ہمیں اپنی نسل ، اپنا دین اورشناخت، اپنا مذہبی ورثہ محفوظ رکھنا ہے تو ہر صورت میں اقوام عالم کی برابری کی سطح پر کھڑےہونا ہوگا، اپنی نئی نسل کو آگاہی و خود بینی کے اوصاف سے آراستہ کر کےسائنسی تعلیم و ہنر،معاشی ،سیاسی ، دفاعی ہر میدانِ عمل میں خود کفیل بنانا ہوگا۔

November 04, 2023, 12:47 PM IST

فلسطینیوں پرمظالم! ایسے حالات میں فلسطینی عوام کہاں جائیں؟

فلسطینی عوام پر اسرائیل کےظالمانہ اقدامات کا سلسلہ ایک عرصہ سے جاری ہے۔ گزشتہ ایک ہفتے سے فلسطینی بچوں، عورتوں، ضعیفوں، عام شہریوں پر بےدردی سے بمباری کر کے اسرائیل نے اپنی شیطانیت ثابت کی ہے۔ ظُلم کی انتہا تو یہ ہے کہ فلسطینیوں پر بجلی، پانی، غذا اور طبّی امداد کی فراہمی تک بند کر دی گئی ہے۔ ظالم اسرئیلی عوام ناچ گانا کر کے فلسطینیوں کی موت کا جشن مناتے بھی نظر آئے۔ننھے جسموں کے ٹکڑے لئے والدین، لاشوں کے ڈھیر پر روتے بلکتے بچے اور اپنے تباہ و برباد گھروں کو دیکھتے ہوئے روتے چیختے لوگوں کو دیکھ کر دل دہل جاتا ہے۔ ایسی بربادی جسے آباد کرنے میں ایک دہائی لگ جائیگی۔ایسا لگتا ہے کہ نیتن یاہو کو تو جیسے اِسی موقع کی تلاش تھی۔مغرب کی پشت پناہی نے اسرائیل کو اِتناظالم بنا دیا ہے کہ اُس نے فلسطینیوں کو اُن کے ہی علاقے فوراً خالی کرنے کی کھلی دھمکی دے دی۔ ان حالات میں لاکھوں فلسطینی عوام کہاں جائیں ؟ اقوام متحدہ جیسے ادارہ کو مظلوم فلسطینی عوام کو ان کے جائز حقوق دلانے کی ضرورت ہے۔ سلام ہے دنیا کی اُن اِنسانیت پسند قوموں کو جنہوں نے سوشل میڈیا پر، اخبارات میں، ریلی میں فلسطینیوں کے ساتھ اپنے اپنے طریقے سے ہمدردی کا اظہار کیا ہے، ساتھ ہی وہ بہادر صحافی بھی قابل رَشک ہیں جنہوں نے اپنی جان پر کھیل کرفلسطین کے بدترین حالات کی حقیقی رپورٹنگ کی اور کچھ نے تو اپنی جان بھی گنوا دی۔ فلسطین کی حالت پر آج اہل اِنسانیت افسردہ اور شرمندہ ہیں کہ کوئی ان کیلئے سوائے ہمدردی اوردعا کے کچھ نہ کر سکا۔ اُمید ہے کہ کوئی معجزہ ہی اب فلسطینیوں کی مدد کر سکتا ہے۔

October 21, 2023, 02:49 AM IST

اسرائیلی فوج کی بمباری ! کہاں ہیں حقوقِ انسانی کے علمبردار؟

دوسری جنگ عظیم کےبعد اقوام متحدہ کی تشکیل وجود میں آئی ہے۔ جس کا ظاہر کچھ اورباطن کچھ اور ہے۔ ظاہر یہ ہے کہ اس عالمی تنظیم کا مقصد دنیائے ا نسانیت کو جنگ کےخطروں سے بچانا، ایک دوسرےکےخلاف مظالم کا سدِ باب، عالمی سطح پر عدل وانصاف قائم کرنا ہے۔ مگر باطن کچھ اور ہی ہے، اس لئے کہ اب اس تنظیم پر مغربی مما لک کا قبضہ ہے جو اپنے مفادات کیلئے اس تنظیم کو استعمال کررہے ہیں ۔ حالات اور واقعات پر گہری نظر ڈالنےکےبعد نتیجہ یہ سامنےآتاہے کہ اب تک کوشش یہی ہے کہ مسلم ممالک میں نت نئے خطرات پیدا کرکے عالم ِاسلام کو کمزور کیا جائے اور ایسا ہوبھی رہا ہے۔ ۱۹۴۱ء میں امریکہ کےصدر ’ روزالٹ ‘ نے اقوام متحدہ کےقیام کااعلان کیا، ۲۵؍ اپریل ۱۹۴۵ء کو اس تنظیم کاچارٹ تیارہوا اور ۵ ؍ماہ بعد اکتوبر ۱۹۴۵ء میں اس کی باقاعدہ بنیادڈالی گئی، منصوبہ بندطریقہ سے۱۹۴۷ء میں فلسطین کامسئلہ اقوام متحدہ میں پیش کیا گیا، اقوام متحدہ نے نہایت چالاکی کےساتھ انتہا ئی تیزی سے اسی سال نومبر میں فلسطین کوعربوں اور یہودیوں کےدرمیان تقسیم کرنےکافیصلہ دے دیا، اس کےبعد کیا ہوا ؟ عربوں اورفلسطینیوں کے درمیان ایسی جنگ کا آغاز ہوگیا جوآج تک جاری ہے۔ فلسطینیوں پر تشدد اورمظالم کاسلسلہ ہے کہ بڑھتا ہی چلا گیا، مقامات مقدسہ کی تخریب کاری کے ناپاک منصوبےجاری ہیں ۔ آخر ظلم سہنے کی بھی حد ہوتی ہے، ایک دن آتاہے کہ مظلوم اپنےسر سے کفن باندھ لیتا ہے، اپنی جان ومال کےتحفظ کا حق اس کو بھی توحاصل ہے، اب جب یہ مظلوم اپنے حقوق کی لڑائی کیلئے تیارہوجاتاہے اور اقدام کرتا ہے تو اس کو’دہشت گرد ‘کہاجاتا ہے اور یہ کہہ کر اس پر مزید ظلم کےپہاڑ توڑے جاتے ہیں ۔ فلسطین میں موجودہ صورتِ حال اسی ظلم کی تصویر پیش کررہی ہے۔ حماس کا فطری ردِ عمل کیا سامنے آیا، اس کو’ دہشت گردی‘ کانام دے کر انسانی حقوق کے محافظ علمبردار غزہ پر ٹوٹ پڑے۔ اسرائیل کی مسلسل بمباری جاری ہے، عام شہریوں کا جینا دوبھر ہوگیا ہے، بجلی، خوراک، پانی کی سپلائی روک دی گئی۔ سوال یہی پیدا ہوتا ہے کہ کہاں ہیں حقوق انسانی کے علمبردار ؟ بات یہی ہے کہ ؃ ہرقدم پر زندگی کاقافلہ لٹتارہا راہ زن جب سےامیرِکارواں بنتےگئے۔

October 21, 2023, 02:48 AM IST

مزید
This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK