Inquilab Logo Happiest Places to Work

غزہ: اسرائیلی ناکہ بندی کو ایک ماہ مکمل، رسد اور ادویات کی شدید کمی، انسانی بحران شدید، دنیا تماشائی

Updated: April 01, 2025, 7:00 PM IST | Inquilab News Network | Gaza

غزہ کے بازاروں سے گوشت، مرغی، آلو، دہی، انڈے اور پھل بالکل ختم ہو چکے ہیں۔ ہر چیز کی قیمت بیشتر فلسطینیوں کی پہنچ سے باہر ہو گئی ہے۔ رسوئی گیس کی قیمت میں ۳۰ گنا اضافہ نے فلسطینیوں کو کھانا پکانے کیلئے لکڑیاں ڈھونڈنے پر مجبور کردیا ہے۔

Photo: INN
تصویر: آئی این این

اقوام متحدہ نے غزہ میں انسانی بحران کی بگڑتی صورتحال کے متعلق خبردار کیا ہے کہ محصور فلسطینی علاقہ کی بیکریوں میں روٹی کیلئے آٹا ایک ہفتہ کے اندر ختم ہو جائے گا۔ عالمی تنظیم نے مزید بتایا کہ ایجنسیوں نے خاندانوں میں خوراک کی تقسیم کو نصف کر دیا ہے۔ بازار زیادہ تر سبزیوں سے خالی ہیں اور اسرائیلی بمباری کی وجہ سے امدادی کارکنوں کی سرگرمیاں بڑے پیمانے پر متاثر ہوئی ہیں۔ واضح رہے کہ اسرائیل نے گزشتہ ۴ ہفتوں سے غزہ کی ۲۰ لاکھ سے زائد آبادی کیلئے خوراک، ایندھن، ادویات اور دیگر سامان کے داخلہ کے تمام ذرائع بند کر رکھے ہیں۔ یہ اسرائیل کی ۱۷ ماہ سے زائد عرصہ سے جاری جنگ کے دوران اب تک کی سب سے طویل ناکہ بندی ہے، جس کے ختم ہونے کا کوئی امکان نظر نہیں آرہا ہے۔ 

رپورٹس کے مطابق، غزہ کے بیشتر فلسطینی اسلامی تہوار عید الفطر کے دن بھوکے رہے۔ اقوام متحدہ نے متنبہ کیا کہ اگر امداد کا بہاؤ بحال نہ کیا گیا تو غزہ میں خوراک مکمل طور پر ختم ہو جائے گی کیونکہ جنگ نے غزہ میں مقامی خوراک کی تقریباً تمام پیداوار کو تباہ کر دیا ہے۔ شمالی غزہ کے جبالیہ میں اقوام متحدہ کے مرکز سے اپنے خاندان کی ماہانہ خوراک کا ڈبہ جمع کرنے والی ۳ بچوں کی ماں، شوروق شملخ نے بتایا کہ وہ اور اس کا خاندان مکمل طور پر اس امداد پر انحصار کرتے ہیں۔ اس پر ایک مہینے تک گزارا کرنے کیلئے ہم اپنی خوراک کو کم کر دیتے ہیں۔ اگر یہ خوراک بھی ملنا بند ہوگئی تو ہمیں کھانا کون فراہم کرے گا؟ 

یہ بھی پڑھئے: غزہ جنگ: عیدالفطر کے دوسرے دن دسیوں ہزار فلسطینی بے گھر

ضروری ادویات کی شدید کمی

بین الاقوامی تنظیم ورلڈ فوڈ پروگرام نے جمعرات کو بتایا کہ آٹا کی موجودہ مقدار سے بیکریوں میں منگل تک روزانہ ۸ لاکھ افراد کیلئے ہی روٹیاں تیار کی جاسکتی ہیں۔ تنظیم کی جانب سے مجموعی خوراک کی فراہمی زیادہ سے زیادہ ۲ ہفتے تک جاری رہے گی۔ جب تمام خوراک ختم ہو جائے گی، تو ایک "آخری نسخہ" کے طور پر تنظیم کے پاس فورٹیفائیڈ نیوٹریشن بسکٹ کا ہنگامی ذخیرہ موجود ہے، جومحض ۴ ہزار افراد کیلئے کافی ہوگا۔

رپورٹس کے مطابق، غزہ میں ایندھن اور دوائیاں چند ہفتوں میں ختم ہو جائے گی۔ فی الحال، اسپتالوں میں مریضوں کو اینٹی بائیوٹکس اور درد کم کرنے والی دوائیں دی جا رہی ہیں۔ آکسفیم انٹرنیشنل کے غزہ رسپانس لیڈر کلیمینس لاگواردٹ نے بدھ کو ایک بریفنگ میں وسطی غزہ میں دیر البلاح سے بات کرتے ہوئے کہا کہ "ہمیں ناممکن انتخاب کرنا ہوں گے۔ ہمیں ہر چیز کی ضرورت ہے۔ کسی ایک کو ترجیح دینا بہت مشکل ہے۔"

یہ بھی پڑھئے: جنگ کیخلاف اسرائیل میں عوام سڑکوں پر

فلسطینیوں کے ساتھ امدادی کارکنان بھی محفوظ نہیں

اسرائیل کے ۱۸ مارچ کو بمباری کے ساتھ جنگ دوبارہ شروع کرنے کے نتیجے میں اب تک سیکڑوں فلسطینی مارے جاچکے ہیں جن میں زیادہ تر خواتین اور بچے شامل ہیں۔ اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ جنگ کے دوبارہ شروع ہونے سے سے انسانی سہولیات کو نقصان پہنچا ہے۔ انخلاء کے نئے احکامات نے ایک لاکھ ۴۰ ہزار سے زائد فلسطینیوں کو دوبارہ نقل مکانی پر مجبور کر دیا ہے۔ امدادی کارکنوں نے بتایا کہ اب اسرائیل نے فوج کو ان کی نقل و حرکت کی اطلاعات فراہم کرنا بند کردیا ہے جو ان کی حفاظت کو یقینی بناتی تھی۔ نتیجتاً، مختلف تنظیموں نے پانی کی فراہمی، غذائی قلت کے شکار بچوں کیلئے غذائیت اور دیگر پروگرام روک دیئے ہیں کیونکہ ان کی ٹیموں کیلئے یہ خطرناک ہو سکتا ہے۔

یہ بھی پڑھئے: بمباری ہمیں ختم کر سکتی ہے، بزورطاقت ہمیں کوئی آزاد نہیں کرا سکتا:اسرائیلی قیدی

اشیائے خوردونوش کی قیمتیں بے قابو، ناقابل برداشت

جنوری کے وسط میں شروع ہوئی ۴۲ دنوں کی جنگ بندی کے دوران، امدادی گروپ کافی مقدار میں امداد لے کر پہنچے۔ تجارتی منڈیوں میں خوراک بھی پہنچ گئی۔ لیکن ۲ مارچ کو اسرائیل کی جانب سے اس بہاؤ کو منقطع کرنے کے بعد غزہ میں کوئی امداد داخل نہیں ہو پائی ہے۔ اسرائیل کا کہنا ہے کہ محاصرے اور نئے حملوں کا مقصد حماس کو جنگ بندی کے معاہدے میں تبدیلیاں قبول کرنے اور مزید یرغمالیوں کو رہا کرنے پر مجبور کرنا ہے۔  

ناکہ بندی کو ایک ماہ مکمل ہونے کے بعد غزہ کے بازاروں میں اب تازہ پیداوار کمیاب ہے۔ فلسطینیوں کا کہنا ہے کہ بازاروں سے گوشت، مرغی، آلو، دہی، انڈے اور پھل بالکل ختم ہو چکے ہیں۔ ہر چیز کی قیمت بیشتر فلسطینیوں کی پہنچ سے باہر ہو گئی ہے۔ ایک کلو پیاز کی قیمت ۱۴ ڈالر (تقریباً ۱۲۰۰ روپے) اور ایک کلو ٹماٹر کی قیمت ۶ ڈالر (تقریباً ۵۱۳ روپے) تک پہنچ سکتی ہے، اگر وہ مل جائے۔ کھانا پکانے کی گیس کی قیمت میں ۳۰ گنا اضافہ ہوا ہے جس نے فلسطینیوں کو کھانا پکانے کیلئے لکڑیاں ڈھونڈنے پر مجبور کردیا ہے۔

یہ بھی پڑھئے: ریڈ کراس کا غزہ میں طبی عملے کے ۹؍ ارکان کے لاپتہ ہونے پراظہار تشویش

امداد پر فلسطینیوں کے انحصار میں اضافہ

جلالیہ میں واقع راشن تقسیم مرکز پر، ریما میگٹ اپنے دس رکنی خاندان کیلئے خوراک کا سامان چُن رہی تھیں: چاول، دال، سارڈین کے چند ڈبے، ڈیڑھ کلو چینی اور دودھ کے دو پیکٹ۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ ایک مہینے کیلئے کافی نہیں ہے۔ یہ ایک کلو چاول تو صرف ایک ہی وقت کے کھانے میں ختم ہو جائے گا۔

اقوام متحدہ نے خوراک کے راشن کی مقدار نصف کر دی ہے تاکہ بیکریوں اور مفت کچن کو تیار شدہ کھانا فراہم کرنے کیلئے زیادہ اناج فراہم کیا جا سکے۔ اقوام متحدہ کے انسانی امور کے کوآرڈینیشن آفس (اوچا) کی ترجمان اولگا چیریوکو کے مطابق، تیار شدہ کھانوں کی تعداد میں ۲۵ فیصد اضافہ ہوا ہے جو اب روزانہ ۹ لاکھ ۴۰ ہزار پیکٹس تیار کر رہے ہیں، اور بیکریاں بھی زیادہ روٹیاں تیار کر رہی ہیں۔ لیکن یہ رسد تیزی سے ختم ہو رہی ہے۔ نارویجن ریفیوجی کونسل کے گیون کیلیہر نے کہا کہ جلد ہی آٹا ختم ہو جائے گا اور "غزہ کے ایک بڑے حصے میں روٹی کی فراہمی رک جائے گی۔"  

اقوام متحدہ کی فلسطینی پناہ گزینوں کی ایجنسی انروا کے قائم مقام ڈائریکٹر سام روز نے بتایا کہ ان کے پاس اب صرف چند ہزار خوراک کے پارسلز باقی ہیں اور آٹا بھی صرف چند دنوں کیلئے کافی ہے۔ غزہ سوپ کچن کے شریک بانی ہانی المدھون نے بتایا کہ ان کے پاس گوشت اور دیگر اجناس دستیاب نہیں ہیں، اس لئے وہ ڈبہ بند سبزیوں کے ساتھ چاول پیش کر رہے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ یہاں بہت زیادہ لوگ آ رہے ہیں اور وہ بے حد مایوس ہیں۔ لوگ خوراک کیلئے آپس میں لڑ رہے ہیں۔

یہ بھی پڑھئے: فرانسیسی صدر ایمانوئل میکرون کا غزہ پر حملہ بند کرنے اور جنگ بندی کا مطالبہ

بھوک اور ناامیدی بڑھ رہی ہے

سیو دی چلڈرن تنظیم کی ایک لیڈر ریچل کمنگز نے بتایا کہ غزہ میں خصوصاً بچوں، نوعمر لڑکیوں اور حاملہ خواتین میں غذائی قلت کی شرح میں اضافہ ہوسکتا ہے۔ گروپ کی انسانی ہمدردی کی پالیسی کی سربراہ الیگزینڈرا سیف نے کہا کہ جنگ بندی کے دوران، سیو دی چلڈرن، غذائی قلت کے شکار تقریباً ۴ ہزار شیر خوار بچوں اور بچوں کو معمول کے وزن پر لانے میں کامیاب رہی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ دیر البلاح میں روزانہ تقریباً ۳۰۰ مریض ان کے کلینک میں آتے ہیں۔ اس تعداد میں کمی آئی ہے۔ کچھ دنوں میں یہ تعداد صفر ہوسکتی ہے کیونکہ مریض بمباری سے خوفزدہ ہیں۔ 

 متعدد بحران آپس میں جڑے ہوئے ہیں۔ غذائی قلت سے بچوں میں نمونیا، اسہال اور دیگر بیماریاں پھیل سکتی ہیں۔ صاف پانی کی کمی اور پرہجوم حالات مزید بیماریاں پھیلاتے ہیں۔ زخمیوں سے بھرے اسپتال، اپنا محدود سامان دوسرے مریضوں پر استعمال نہیں کر سکتے۔

یہ بھی پڑھئے: اسرائیل کا ۵۰؍ دن کی جنگ بندی کے بدلے اپنے نصف قیدیوں کی رہائی کا مطالبہ

اسرائیلی محاصرہ کے خاتمہ کے آثار نظر نہیں آتے

امریکہ نے اکتوبر ۲۰۲۳ء میں جنگ کے آغاز میں اسرائیل پر دباؤ ڈالا تھا کہ وہ غزہ میں امداد کے داخلہ کی اجازت دے، لیکن اس دفعہ وہ اسرائیلی پالیسی کی حمایت کر رہا ہے۔ حقوق انسانی کی تنظیموں نے اسے "بھکمری کی پالیسی" قرار دیا ہے جو جنگی جرم ہو سکتا ہے۔

اسرائیلی وزیر خارجہ گیدون سعار نے پیر کو ایک نیوز کانفرنس میں کہا کہ "اسرائیل بین الاقوامی قانون کے مطابق کام کر رہا ہے۔" انہوں نے حماس پر امداد چوری کرنے کا الزام لگایا اور کہا کہ اسرائیل کو ضرورت نہیں ہے کہ وہ رسد کی فراہمی کو جنگجوؤں کی طرف موڑ دے۔ انہوں نے اس بات کا کوئی اشارہ نہیں دیا کہ آیا محاصرہ ختم کیا جا سکتا ہے لیکن جنگ بندی کے دوران غزہ میں داخل ہوئی امداد کی طرف اشارہ کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ غزہ کے پاس کافی رسد موجود ہے۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK