Updated: June 29, 2024, 8:05 PM IST
| New Delhi
اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے دفتر (یو این ایچ آر او) نے ہندوستانی حکام سے اپیل کی ہے کہ وہ ہندوستانی مصنفہ اروندھتی رائے اور سابق پروفیسر شوکت حسین کے خلاف یو اے پی اے کے تحت دائرہ کردہ مقدمات واپس لیں۔ خیال رہے کہ ۲۰۱۰ء میں اروندھتی رائے اور شوکت حسین کے خلاف یو اے پی اے کے تحت مقدمہ درج کیا گیا تھا۔
حقوق انسانی کی کارکن اروندھتی رائے۔تصویر: آئی این این
اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے دفتر نے ہندوستانی حکام سے اپیل کی ہے کہ وہ ہندوستانی مصنف ارونادھتی رائے اور سینٹرل یونیورسٹی آف کشمیر کے سابق پروفیسر شیخ شوکت حسین کے خلاف ۲۰۱۰ء میں مبینہ اشتعال انگیز تقاریر دینےکیلئے یو غیر قانونی سرگرمیوں کی حفاظت کے ایکٹ (یو اے پی اے) کے تحت دائرہ کردہ مقدمات واپس لیں۔
خیال رہے کہ ۱۴؍جون کو دہلی کے لیفٹنٹ گورنر وی کے سکسینا نے رائے اور حسین کے استغاثہ پر دہشت گردانہ مخالف قانون کے تحت پابندی عائد کی تھی جوکسی بھی غیر قانونی سرگرمی کی ترغیب دینے اور اس کی وکالت کرنے کیلئے سزا سے متعلقہ ہے۔قانون کے اس ایکٹ کے تحت کئے جانے والے کسی بھی جرم کیلئے ۷؍ سال سزائے قید ہو سکتی ہے۔
یہ بھی پڑھئے: مدینہ منورہ:مسجد نبوی میں بوڑھوں،معذوروں کی سہولت کیلئے کئی خصوصی تعمیرات
اس حوالے سے اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے دفتر کے ہائی کمشنر واکر ترک نے اپنے ایکس پوسٹ میں لکھا ہے کہ ’’ہم ناقدین کو خاموش کرنے کیلئے یو اے پی اے کے دہشت گردانہ مخالف قانون کا استعمال کرنے کیلئے تشویش میں ہیں۔ ہم اس قانون پر نظر ثانی کرنے اور اس کے تحت زیر حراست انسانی حقوق کے کارکنان کی رہائی کا مطالبہ کرتے ہیں۔ ہماری ہندوستانی حکام سے اپیل ہے کہ وہ انڈیا ایڈمین کشمیر پر ارونادھتی رائے اور شیخ شوکت حسین کے خلاف داخل کردہ مقدمات کو ختم کرے۔‘‘خیال رہے کہ کشمیر کے سماجی کارن سشیل پنڈت کی جانب سے ارونادھتی رائے اور شوکت حسین کے خلاف ۲۸؍ اکتوبر ، ۲۰۱۰ء کی شکایت کی بناء پر مقدمہ درج کیا گیا تھا۔
برطانیہ میں ۴؍ جولائی کو عام انتخابات، رشی سونک کی پارٹی کی حالت خراب
شکایت کنندہ نے الزام عائد کیاتھا کہ ۲۱؍ اکتوبر ۲۰۱۰ء کو پولیٹیکل پریزنرس کی جانب سے ’’آزادی، واحد راستہ‘‘ کے تحت منعقد کردہ تقریب میں متعدد مقررین نے اشتعال انگیز تقاریر کی تھیں۔ پنڈت نے الزام عائد کیا تھا کہ ’’اس دن کانفرنس میں جن معاملات پر گفتگو کی گئی تھی وہ ’’کشمیر کی ہندوستان سے علاحدگی سے ‘‘متعلقہ تھے، جو عوامی امن کو خطرے میں ڈال سکتے ہیں۔ دی وائر کی رپورٹ کے مطابق پنڈت نے دعویٰ کای تھا کہ ’’کشمیر کبھی ہندوستان کا حصہ نہیں تھا اور اسے ہندوستان کی مسلح افواج نے زبردستی اس پر قبضہ کیا تھا۔
یہ بھی پڑھئے: ایران الیکشن: صدارتی عہدے کیلئے تمام امیدوار۵۰؍ فیصد ووٹ حاصل کرنے میں ناکام
ریاست جموں کشمیر کی ہندوستان سے آزادی کیلئے ہر ممکنہ کوشش کی جانی چاہئے۔‘‘خیال رہے کہ اقوام متحدہ کے حقوق انسانی کے دفتر کے علاوہ ۲۰۰؍ سے زائد ماہر تعلیم، سماجی کارکنان اور صحافیوں نے ۲۱؍ جولائی کو مشترکہ خط میں مرکزی حکومت سے ہندوستانی مصنفہ اور شوکت حسین کے خلاف داخل کئے گئے مقدمات واپس لینے کی اپیل کی تھی۔
یہ بھی پڑھئے: عراق: تاریخی مسجد النوری کی دیوار میں چھپائے گئے داعش کے ۵؍ بم برآمد
گروپ نے اپنے خط میں کہا تھا کہ ’’وہ اس اقدام کی مذمت کرتے ہیں اور حکومت اور ملک کی جمہوری قوتوں سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ اس بات کو یقینی بنائیں کہ ہمارے ملک میں کسی بھی موضوع پر آزادانہ اور بے خوفی سے اظہار خیال کے بنیادی حق کی خلاف ورزی نہ ہو۔‘‘اپوزیشن لیڈروں نے بکر انعام یافتہ مصنف اور سابق پروفیسر کے خلاف قانونی چارہ جوئی کی منظوری دینے والے سکسینہ کے اقدام پر بھی تنقید کی ہے۔
یہ بھی پڑھئے: این ٹی اے کا متعدد مسابقتی امتحانات کی تاریخوں کا اعلان
اس ضمن میں ترنمول کانگریس کی رکن پارلیمان مہوا موئترا نے کہا کہ ’’یو اے پی اے کے تحت اروندھتی رائے کے خلاف مقدمہ چلا کر بی جے پی اگر یہ ثابت کرنا چاہتی ہے کہ وہ واپس آگئی ہے تو ایسا نہیں ہے۔ بی جے پی اس طرح واپس نہیں آئے گی جیسی وہ تھی۔ فسطائیت یہی ہے جس کے خلاف ہندوستانیوں نے ووٹ دیا ہے۔‘‘
خیال رہے کہ جمعرات کو اروندھتی رائے کو ۲۰۲۴ء پین پنٹر پرائز یافتہ قرار دیا گیا ہے۔ یہ اعزاز ہیومن رائٹس آرگنائزیشن انگلش پین ہر سال امریکی نوبیل انعام یافتہ ہیرالڈ پنٹر کی یاد میں دیتا ہے۔ اروندھتی رائے کو یہ انعام ۱۰؍ اکتوبر ۲۰۲۴ء کو برٹش لائبریری کی جانب سے منعقدکردہ تقریب میں دیا جائے گا۔