• Fri, 22 November, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

ہماچل پردیش: سنجولی اور منڈی کے بعد اب نورپور جامع مسجد پر ہندوتوا کا نشانہ

Updated: November 21, 2024, 10:01 PM IST | Shimla

چند ہندو تنظیموں نے ہماچل پردیش کے ضلع کانگڑا کے نورپور جامع مسجد کو مسمار کرنے کیلئے میونسپل کونسل کو میمورنڈم پیش کیا ہے۔ تنظیموں نے مسجد کے باہر احتجاج کیا۔ حالات قابو میں مگر کشیدہ ہیں۔

Hindu organizations presenting memorandum. Photo: X
ہندو تنظیمیں نے میمورنڈم پیش کرتے ہوئے۔ تصویر: ایکس

ہماچل پردیش کے ضلع کانگڑا کے نورپور میں کشیدگی عروج پر پہنچ گئی ہے کیونکہ کچھ ہندو تنظیموں نے جامع مسجد کو مسمار کرنے کے اپنے مطالبے کا اعادہ کرتے ہوئے دعویٰ کیا ہے کہ یہ غیر قانونی طور پر تعمیر کی گئی تھی۔ ان تنظیموں کا دعویٰ ہے کہ مسجد کی تعمیر مقامی ضابطوں کی خلاف ورزی کرتی ہے، اور انہوں نے بدھ کو مقامی میونسپل کونسل کو ایک میمورنڈم پیش کیا جس میں فوری کارروائی کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ واضح رہے کہ نور پور جامع مسجد ہماچل پردیش میں ہندو گروپوں کی شرپسندی کا نشانہ بننے والی پہلی مسجد نہیں ہے۔ سنجولی اور منڈی کی مساجد کے حوالے سے ماضی میں بھی اسی طرح کے تنازعات جنم لے چکے ہیں، جہاں ہندو تنظیموں نے اسلامی عبادت گاہوں کی غیر قانونی تعمیر کے بارے میں اعتراضات اٹھائے ہیں۔ نور پور سول اسپتال کے قریب واقع مسجد کے خلاف تازہ ترین احتجاج نے فرقہ وارانہ کشیدگی کو مزید بھڑکا دیا ہے۔

یہ بھی پڑھئے: امریکہ: گوتم اڈانی پر ۲۵۰؍ ملین ڈالر کےفراڈ اور رشوت کے معاملے میں فرد جرم عائد

اس تنازع نے ایک نیا اور سنگین رخ اس وقت اختیار کیا جب حال ہی میں سوشل میڈیا پر ویڈیوز سامنے آئیں۔ فوٹیج میں احتجاج کرنے والی ہندو تنظیموں کے نمائندوں اور نور پور مسجد کے ایک مولوی کے درمیان بات چیت کو دکھایا گیا ہے۔ ویڈیوز میں، ہندو گروپ کے ارکان مولوی پر الزام لگاتے ہیں کہ وہ مسجد کی تعمیر کے حوالے سے میونسپل کونسل کو گمراہ کن معلومات فراہم کر رہے ہیں، جس کے نتیجے میں ایک ایسی عمارت کی منظوری دی گئی جس کے بارے میں اب ان کا دعویٰ ہے کہ اسے غیر قانونی طور پر تعمیر کیا گیا تھا۔ کلیرین کی ایک رپورٹ کے مطابق ہندو تنظیموں کا الزام ہے کہ مسجد کی تعمیر ضروری قانونی منظوری کے بغیر آگے بڑھی اور مولوی نے عمارت کی اجازت حاصل کرنے کیلئے حکام کو غلط معلومات دی۔ نتیجے کے طور پر، یہ تنظیمیں مسجد کو فوری طور پر مسمار کرنے کا مطالبہ کر رہی ہیں، کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ مسجد کا وجود خطے میں غیر قانونی مسلم تعمیرات کے وسیع نمونے کا حصہ ہے۔

یہ بھی پڑھئے: انسٹاگرام پر گئو رکشا سے متعلق پُرتشدد مواد میں تشویشناک اضافہ

مظاہرین میں سے ایک، انکش نے اپنے گروپ کے غصے کا اظہار کیا کہ ’’ہم نے آج نہ صرف میونسپل کونسل کو بلکہ تحصیلدار کو بھی ایک میمورنڈم پیش کیا ہے، جس میں مسجد کی غیر قانونی تعمیر پر کارروائی کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ یہ ضروری ہے کہ حکام ہمارے تحفظات کو سنیں اور اس سے پہلے کہ صورتحال ہاتھ سے نکل جائے اس پر فوری عمل کریں۔‘‘ مسجد کے انہدام کے مطالبات نے مقامی مسلم کمیونٹی میں غم و غصے اور خوف کو جنم دیا ہے۔ بہت سے مسلمان محسوس کرتے ہیں کہ جاری احتجاج اور ان کے مذہبی اداروں کو مسلسل نشانہ بنانا ان کے حقوق اور ان کے عقیدے پر عمل کرنے کی آزادی کو مجروح کرنے کی ایک وسیع کوشش کا حصہ ہے۔ اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بات کرتے ہوئے، نور پور جامع مسجد کے علاقے کے ایک رہائشی نے اپنی مایوسی کا اظہار یوں کیا: ’’یہ پہلی بار نہیں ہے کہ ہمیں نشانہ بنایا گیا ہو۔ پہلے سنجولی مسجد تھی اور اب ہماری مسجد پر شرپسندوں کی نظریں ہیں۔ ہم پر ان چیزوں کا الزام لگایا جا رہا ہے جو ہم نے کبھی کیا ہی نہیں ہے۔ یہ مسجد تمام ضروری ضابطوں کے مطابق بنائی گئی ہے اور پھر بھی ہمیں ہراساں کیا جا رہا ہے۔‘‘

یہ بھی پڑھئے: غزہ جنگ: موسم سرما کے درمیان کروڑوں فلسطینی پناہ سے محروم ہیں

کمیونٹی کے ایک اور رکن علی احمد نے کہا کہ ’’ہم صرف اپنے عقیدے کی پیروی کررہے ہیں مگر ہمیں مجرم بنا کر پیش کیا جارہا ہے۔ ہندو تنظیموں کے تمام الزامات بے بنیاد ہیں، اور ہم ان کے مظاہروں کے سامنے بے بس محسوس کرتے ہیں۔ یہ ہمارے مذہبی حقوق پر براہ راست حملہ ہے۔‘‘ علاقے کے بہت سے مسلمانوں کا خیال ہے کہ احتجاج نہ صرف قانونی بنیادوں پر مبنی ہے بلکہ خطے میں بڑھتے ہوئے اسلامو فوبک جذبات سے بھی متاثر ہیں۔ ایک مقامی دکاندار عمران نے کہا کہ ’’یہ صرف ایک مسجد کے بارے میں نہیں ہے؛ یہ ہماری شناخت کو مٹانے کی کوشش ہے۔ ہم یہاں کئی نسلوں سے رہ رہے ہیں، اور اب، اچانک، ہمیں کہا جا رہا ہے کہ ہمیں اپنی عبادت گاہیں بنانے کا کوئی حق نہیں ہے۔ یہ ہمارے حقوق کی خلاف ورزی ہے۔‘‘

یہ بھی پڑھئے: راہل گاندھی کا اڈانی کی گرفتاری کا مطالبہ، مودی پر اڈانی کو بچانے کا الزام

احتجاج اور میمورنڈم پیش کرنے کے جواب میں میونسپل کونسل کی ایگزیکٹیو آفیسر آشا ورما نے مظاہرین کو یقین دلایا کہ معاملے کی مکمل جانچ کی جائے گی۔ انہوں نے کہا کہ ’’ہندو برادری نے آج ہمیں ایک میمورنڈم دیا ہے، اور ہم اس معاملے پر متعلقہ محکموں سے بات کریں گے۔ علاقے کی حد بندی کرنے کے بعد، مناسب قانونی کارروائی کی جائے گی۔‘‘ تاہم، ان کے تبصروں کا خاطر خواہ اثر نہیں ہوا ہے۔ بیشتر لوگوں کو خدشہ ہے کہ ہندو تنظیموں کی طرف سے بھرپور مخالفت کے پیش نظر میونسپل کونسل کی تحقیقات متعصبانہ ہو سکتی ہیں۔ ایک مقامی مسلم نوجوان لیڈر محمد سمیع نے کہا کہ، ’’ہمیں خدشہ ہے کہ حکام ان احتجاج کے دباؤ میں مسجد کے خلاف کارروائی کریں گے، حالانکہ ہم جانتے ہیں کہ یہ قانونی طور پر تعمیر کی گئی تھی۔‘‘ 

یہ بھی پڑھئے: یوپی: شادی سے قبل بیف کے شبہ میں مسلم خاندان کے گھر پولیس کا چھاپہ، پیسے لوٹے

واضح رہے کہ نور پور جامع مسجد کا تنازع ایک وسیع تر رجحان کا حصہ ہے جو ہماچل پردیش اور ہندوستان کے دیگر حصوں میں پھیل رہا ہے۔ ہندو تنظیموں نے مساجد کی تعمیر پر تیزی سے اعتراضات اٹھائے ہیں، اکثر یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ ان کی تعمیر غیر قانونی یا مناسب دستاویزات کے بغیر کی گئی تھی۔ اس سے مسلمانوں میں خوف بڑھ گیا ہے، جو محسوس کرتے ہیں کہ ان کے مذہبی مقامات کو منظم طریقے سے نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ مظاہروں نے مسلم کمیونٹی کے اندر بڑھتے ہوئے بیگانگی کے احساس کو بھی اجاگر کیا ہے، جو محسوس کرتے ہیں کہ آزادانہ طور پر عبادت کرنے اور عبادت گاہوں کی تعمیر کے ان کے حقوق پر حملے ہو رہے ہیں۔ بہت سے مسلمانوں کا خیال ہے کہ ان تنازعات کو سیاسی ایجنڈوں اور بڑھتے ہوئے ہندو قوم پرست جذبات کی وجہ سے ہوا دی جا رہی ہے، جس نے حالیہ برسوں میں زور پکڑا ہے۔

یہ بھی پڑھئے: شاہ رخ خان کو دھمکی دینے والے نے گرفتاری سے قبل حساس معلومات حاصل کی تھی

نور پور کے ایک رہائشی حسن نے کہا کہ ’’اس ملک میں ایک مسلمان کے طور پر پرامن طور پر رہنا مشکل سے مشکل تر ہوتا جا رہا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ حکومت اور مقامی حکام مظاہرین کا ساتھ دے رہے ہیں، اور ہمیں اس کے نتائج بھگتنے کیلئے چھوڑ دیا گیا ہے۔‘‘ دریں اثناء، دونوں فریقین مزید کارروائی کی تیاری کر رہے ہیں۔ فیضان نامی ایک مقامی باشندے نے بتایا کہ ’’حکام کو یہ تسلیم کرنا چاہئے کہ ہم مجرم نہیں ہیں۔ ہم صرف اپنے عقیدے کی پیروی کرنے اور امن سے رہنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اس معاملے میں ہم اپنے حقوق کیلئے لڑتے رہیں گے، چاہے اس میں کتنا ہی وقت لگے۔‘‘

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK