• Sat, 18 January, 2025
  • EPAPER

Inquilab Logo

امریکہ: آخری پریس کانفرنس میں صحافیوں نے غزہ جنگ کیلئے بلنکن پر شدید تنقید کی

Updated: January 17, 2025, 9:11 PM IST | Inquilab News Network | Washington

اپنی آخری پریس کانفرنس میں بلنکن کو اسرائیل کو اسلحہ فراہم کرنے اور سفارتی تعاون پر شدید تنقید کا نشانہ بنایا گیا جس پر غزہ میں فلسطینیوں کی نسل کشی کے الزامات عائد کئے گئے ہیں۔

US State Secratary Antony Blinken. Photo: INN
امریکی اسٹیٹ سیکریٹری انٹونی بلنکن۔ تصویر: آئی این این

امریکی اسٹیٹ سیکریٹری انٹونی بلنکن کو غزہ میں اسرائیل کی جنگی کارروائیوں کی حمایت اور ۱۵ ماہ سے جاری غزہ جنگ کو روکنے میں ناکام رہنے پر صحافیوں اور مظاہرین کی جانب سے شدید تنقید کا سامنا کرنا پڑا۔ جمعرات کو ان کی بطور اسٹیٹ سیکریٹری آخری پریس کانفرنس کے دوران صحافی سام حسینی نے چیخ کر کہا، "آپ مجرم ہیں! آپ دی ہیگ میں کیوں نہیں ہیں؟" واضح رہے کہ دی ہیگ میں بین الاقوامی فوجداری عدالت (آئی سی سی) واقع ہے جو جنگی جرائم اور نسل کشی جیسے مقدمات کی سماعت کرتی ہے۔ حسینی کو سیکیوریٹی اہلکاروں نے زبردستی کمرے سے باہر نکال دیا۔

یہ بھی پڑھئے: اسرائیل کو بالآخر جھکنا ہی پڑا ، اپنے مغویوں کی رِہائی کیلئےحماس سے معاہدہ ،فلسطین میں خوشی کی لہر

پریس کانفرنس میں بلنکن کو اسرائیل کو اسلحہ فراہم کرنے اور سفارتی تعاون پر شدید تنقید کا نشانہ بنایا گیا جس پر غزہ میں فلسطینیوں کی نسل کشی کے الزامات عائد کئے گئے ہیں۔ جنوبی افریقہ نے عالمی عدالت انصاف (آئی سی جے) میں اسرائیل پر فلسطینیوں کی نسل کشی کا مقدمہ دائر کیا ہے۔ آئی سی سی نے گزشتہ سال نومبر میں اسرائیلی وزیراعظم بنجامن نیتن یاہو اور سابق وزیر دفاع یوو گیلنٹ کی گرفتاری کے وارنٹ جاری کئے ہیں۔

یہ بھی پڑھئے: غزہ :۱۵؍ ماہ میں اسرائیل نے ۸۵؍ ہزار ٹن بارود برسایا، ۴۷؍ہزارفلسطینی شہید، ایک لاکھ زخمی

غزہ کی وزارتِ صحت کی رپورٹس کے مطابق، اسرائیلی حملوں میں اب تک ۴۶ ہزار سے زائد فلسطینی شہری جاں بحق ہو چکے ہیں۔ جبکہ مطالعات سے پتہ چلتا ہے کہ فلسطینیوں کے ذریعہ دستاویزی موت کی تعداد ایک قدامت پسندانہ تخمینہ ہے اور اصل ہلاکتوں کی تعداد اس سے بہت زیادہ، تقریباً ۲ لاکھ ہو سکتی ہے۔ طبی جریدے "دی لانسیٹ" میں شائع ہوئی ایک تحقیق کے مطابق، ۷ اکتوبر ۲۰۲۳ء سے جاری اسرائیلی حملوں میں تقریباً ایک لاکھ ۸۶ ہزار فلسطینی ہلاک ہوچکے ہیں۔ جریدے کے مطابق، جون ۲۰۲۴ء تک مہلوکین کی تعداد ۶۴ ہزار ۲۶۰ تک پہنچ چکی تھی جو فلسطینی وزارتِ کی ریکارڈ کردہ اموات سے ۴۱ فیصد زیادہ ہے۔ ۱۵ سے زائد عرصہ سے جاری اس جنگ نے غزہ کی تقریباً ۲۳ لاکھ نفوس پر مشتمل آبادی کو بے گھر کردیا ہے اور خوراک کے زبردست بحران کو جنم دیا ہے۔ 

یہ بھی پڑھئے: صیہونیت اپنے اختتام کے ابتدائی مراحل میں داخل ہو چکی ہے: اسرائیلی مفکرایلان پاپے

پریس کانفرنس کے دوران گری زون بلاگ کے ایڈیٹر میکس بلومینتھل نے بلنکن سے سوال کیا، "آپ، اپنی وراثت میں ایک نسل کشی چھوڑ کر جارہے ہیں، آپ کو کیسا لگ رہا ہے؟" انہوں نے مزید پوچھا، "آپ کے سسر اسرائیل کے حامی تھے۔ آپ کے دادا اسرائیلی لابی کا حصہ تھے۔ کیا آپ اسرائیل سے سمجھوتہ کر رہے ہیں؟ آپ نے موجودہ دور کے ہولوکاسٹ کو کیوں نہیں روکا؟" انہوں نے بلنکن اور اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ کے ترجمان میتھیو ملر دونوں سے غزہ جنگ کے متعلق سوال کیا جس میں، ان کے بقول، "۳۰۰ صحافی" مارے گئے۔

یہ بھی پڑھئے: امریکہ: سوڈان کی خانہ جنگی کو نسل کشی قرار دینے پر بلنکن پرچو طرفہ تنقید

بلنکن نے اپنے دفاع میں کہا کہ ۷ اکتوبر کے واقعات کے بعد اسرائیل کی پالیسیوں کو اسرائیلی عوام کی بڑی تعداد کی حمایت حاصل ہے اور امریکہ نے اپنے ردعمل میں اس عنصر کو ملحوظ رکھا ہے۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ اسرائیل میں سینکڑوں معاملات کی تحقیقات جاری ہیں۔ انہوں نے کہا کہ بائیڈن انتظامیہ انفرادی واقعات کے بارے میں حتمی فیصلے تک پہنچنے میں ناکام رہی ہے جو کہ بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی کا باعث بن سکتے ہیں کیونکہ حماس شہری آبادی میں سرایت کر چکا ہے۔

یہ بھی پڑھئے: غزہ میں جنگ بندی کیلئے امریکی صدر جو بائیڈن زیرو کریڈٹ کے مستحق: اسلامک کونسل

پریس کانفرنس میں بلنکن کو مظاہرین کی طرف سے بار بار ہیکنگ کا سامنا کرنا پڑا۔ واضح رہے کہ غزہ میں اسرائیل کی جنگی کارروائیوں کے آغاز کے بعد سے واشنگٹن میں بلنکن کو پیشی کے دوران اکثر مظاہروں کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ مظاہرین نے کئی مہینوں تک ان کے ورجینیا میں واقع گھر کے باہر احتجاج بھی کیا اور متعدد دفعہ بلنکن کی سواریوں پر خون سے مشابہہ سرخ پینٹ پھینکا ہے۔ 

یہ بھی پڑھئے: امریکہ: انتونی بلنکن کو فلسطین حامی مظاہرین نے ’نسل کشی کا سیکریٹری ‘‘ کہا

بلنکن پیر کو باضابطہ طور پر عہدہ چھوڑ دیں گے جب نو منتخب صدر ڈونالڈ ٹرمپ کی انتظامیہ اقتدار سنبھا

لے گی۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK